بے حیائی، بےشرمی کی ناپاک زندگی سے ہوشیار

میڈیا کی بے باکی پر لا حول پڑھیں کس ڈھٹائی سے مستقبل کی تیاری کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی پوری ٹیم یعنی پروڈیوسر سے لے کر ایکٹر، ایکٹرس اور اشتہاری اپنی مصنوعات کے ساتھ ساتھ اپنا ایمان اپنی حیا سب کچھ لٹا رہے ہیں اور لوگوں کو شیطان کے راستے پر ڈا ل کر مسرور ہیں ۔ اپنی دانست میں مقبول بھی ہیں شاید معصوم بھی ہیں مگر کیا آپ بھی چوکنے ہوئے ؟

کوئی مو بائل کا ایڈ ہے اورمنظر خطرناک لال نامکمل نازیبا کھلی بلکہ بغیر آستین والا میکسی ، سرخ سفید کیک سجاوٹ والا میز کچھ ہیپی لکھا ہوا اسی طرف اشارہ ہے ، کس موقع کی تیاری ہے ؟ بربادی اور خواری ہے، کیا یہی سمجھداری ہے ؟ اندھی تقلید میں کیا کچھ کھو چکے ہیں ؟ یہی سلو پوائزن ہے جو میڈیا کے ذریعے عوام کو دیا جا رہا ہے بچہ بڑا سب برابر ہیں ۔

فتنوں کے اس دور میں ٹیکنالوجی نے بچوں کو بڑو ں پر غا لب کر دیا ہے ۔ جب وہ معصوم بچوں کو آ ئی پیڈ اور موبائل کے بغیر کھانا نہیں کھلوا سکتے ۔ تو نوجوان نسل کیا نہ کرے گی ؟ برائی کو ابتداء میں ہی ختم کردیا جا ئے تو اچھا ہے ۔ اسلئے غیر مسلموں اور مغربی تہواروں کو یکسر مسترد کرکے اپنی ایمان والی زندگی ، حیا والی تہذیب اور سادہ شائستہ صحیح اسلامی ثقافت کو اپنائیے ، اتنا اجا گر کریں اپنی تہذیب کو ، معاشرت کو ،اعلیٰ اقدار اور با حیا کردار کو کہ ماحول سے خود بخود برائیاں چھٹ جا ئیں ، دوسرے ہماری تقلید کریں ۔ ہم ہی (اللہ کا شکر ) وہ امت ہیں جو غالب ہی ہونے کے لیے ہے ۔ غلیظ اور لوفر تہوار ، انداز ، اسٹا ئل ، فیشن اپنا کر ہم نہ صرف خدا کے سزاوار ہوں گے بلکہ اپنی ہی نسلوں کو دانستہ اور نا دانستہ بگاڑ رہے ہیں ، دنیا امتحان کی جگہ ہے ، ہر چمکتی ہوئی چیزکو سونا نہیں سمجھنا ہے۔ بیماری کا علاج فوری شروع ہو جائے تومرض جلد ختم ہو نا شرو ع ہو جاتا ہے ، صحت بحال ہو جاتی ہے، ظاہر ہے

“وقت کر تا ہے پرورش برسوں

حادثہ   ایک دم   نہیں   ہوتا”

زندگی پاکیزہ ہی عظیم ہے ورنہ بندہ اپنی نظروں میں بھی ذلیل ہے ۔ ہر لمحہ پھونک پھونک کر گزارنا ہے ۔ کانٹوں سے بچ کر ہی چلنا ہے ۔ کانٹے راہ سے ہٹانے ہیں ۔ چنگاری بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے ۔اپنی زندگی کے مختصر مگر قیمتی انمول لمحات کو بھی آئندہ نسلوں کے لیے استعمال کیجئے ۔ ایمانداری اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری بے دینی ، لاپروائی، بے حیائی ہمیں دونوں جہاں کی عافیت سے محروم کردے ۔ اپنی ایک غلطی بھی چھوٹی نہ سمجھو ۔ اچھا سوچو، اچھا کرو، اچھا چاہو ۔ کسی کو یہ نہ کہنا پڑے کہ غلطی آپ کی تھی ، آپ نے ہمیں رہنمائی نہیں دی ۔ ہماری لمحوں کی کوتا ہی بھی نسلوں کی تباہی بن سکتی ہے ۔

“لمحوں نے خطا کی تھی

صدیوں  نے  سزا  پائی “

بظا ہر معمولی بات لگتی ہے ، مگر ایسا ہی ہے ۔ اپنی حیا اور ایمان کو ہر دم اپناتے ہو ئے تعلیم و تعلم کا سلسلہ ، ٹیکنالوجی کے تمام تر شعبوں میں بھرپور اور مئوثر ترقی کرتے رہنا او ر میڈیا کے میدان میں بھی تہذیب کے ساتھ آگے بڑھنا ہی ہمارا مشن ہونا چاہیے ۔ مغربی تہذیب ، ہندوانہ کلچر سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ، یہ صرف تباہی اور بے حیائی کے سوا دنیا کو کچھ نہیں دے سکتے ، ہمیں اپنے حصے کا دیا خود روشن کرنا ہے اتنا روشن کہ جس سے تمام جہالت کے اندھیروں کو دور کیا جاسکے۔

جواب چھوڑ دیں