کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی حب بھی ہے، ایک وقت تھا جب کراچی کے امن و امان اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے مسئلے پر ملک کا ایک ایک شہری مجسم سوال بن کر رہ گیا تھا، کراچی کے نام کے ساتھ ہی فوراً ذہن میں MQM کا نام سامنے آتا تھا، اس جماعت کا قیام مہاجر حقوق کے نام پر عمل میں آیا،جس میں کوٹہ سسٹم کا خاتمہ، محصورین بنگال کی واپسی، پانچویں قومیت تسلیم کروانا اور شہری یونیورسٹی کا قیام سرفہرست تھے۔
بظاہر تو شہری یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ انتہائی مہذب و مفید بات تھی لیکن یہ ہمارے ملک کا المیہ رہا کہ 35 سال تک اس مطالبے پہ سیاست ہوتی رہی، درحقیقت تو یہ عام سا مطالبہ ہے لیکن اس بات سے پنجاب، KPK اور بلوچستان کے بہت کم افراد واقف ہونگے کہ یہ سندھ میں لسانی فسادات کا مرکزی نقطہ تھا بلکہ اس یونیورسٹی کے قیام کے مطالبے نے حیدرآباد سمیت پورے سندھ کو متعدد بار نہ صرف نفرتوں کے گہرے سائے میں دھکیلا بلکہ کچھ سماج دشمن عناصر نے آگ اور خون کا گھناونا کھیل بھی کھیلا۔
ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب ایک طرف سے MQM شہری یونیورسٹی کا مطالبہ کرتی تو جئے سندھ اور PPP اس مطالبے کے مقابل آکر مخالفت کرتے، MQM مختلف نشیب و فراز سے گزر کر جنرل مشرف دور میں پہلے سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے آئی، کراچی حیدرآباد کی نظامت کے ساتھ ساتھ وفاق اور صوبائی حکومت میں بھی اقتدار پہ قابض رہی اس کے علاوہ سندھ کی گورنری بھی اسی جماعت کے حصے میں آئی ۔
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے سگنل ملتے ہی MQM پانچویں قومیت کے مطالبے سے ازخود اردو بولنے والے سندھی یا نئے سندھی بن کر دستبردار ہوگئی، اس وقت فنکشنل لیگ اور PPP کی صورت سندھ میں اہم قومی سیاست کرنے والی جماعت بھی موجود تھیں لیکن MQM نے اتحاد یا الحاق کے طور پر مختلف اعتراضات یا شک کی نگاہ سے دیکھی جانے والی تحریک جئے سندھ یا سندھو دیش تحریک سے کیا اور اس کے بعد نہ جئے مہاجر کا نعرہ رہا بلکہ مہاجرازم کی بات کرنا متحدہ کی نجی محفلوں میں بھی ممنوع قرار پائی، اس کے ساتھ ساتھ محصورین بنگال کی واپسی کا مطالبہ بھی ایسے غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں اور متحدہ اقتدار کے مزے لوٹنے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ جو کبھی دو پٹی کی چپلوں میں ہوتے تھے شہری وڈیرے بن کر ابھرے، متحدہ کی تیسری ڈیمانڈ شہری یونیورسٹی کے قیام کی تھی لیکن چودہ سال گورنر اور دس سالہ اقتدار کے دوران متحدہ نے شہری یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوئی سنجیدگی نہ دکھائی لیکن بوقت ضرورت اس نعرے کو بطور سیاست ضرور استعمال کیا جاتا رہا۔
حقیقتاً گورنر کے لیے یہ کام کوئی بڑی بات نہ تھی اور یک جنبش قلم حیدرآباد ہی نہیں کراچی میں بھی شہری یونیورسٹی قائم ہوسکتی تھی اس کے علاوہ کراچی کے میئر بھی اس کار خیر کو لوکل گورنمنٹ کے تحت پورا کرسکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا، اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مصطفیٰ کمال نے شہر کی خدمت میں دن رات ایک کردئیے، شاید مصطفیٰ کمال کے ذہن میں یہ بات نہ آئی ورنہ وہ یہ کام دنوں میں انجام دے دیتے، کراچی ایسا بدنصیب شہر ہے کہ ایک وقت تھا جب گھر سے نکلنے والے کو واپسی بخیریت پہنچنے کی امید نہیں ہوتی تھی۔
2009ء کے بعد جو مصنوعی بدامنی اس شہر نے دیکھی شاید ہی دنیا کے کسی خطے نے دیکھی ہو، جہاں مارنے والے کو بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مار کیوں رہا ہے اور مرنے والے کو بروز آخرت پتہ چلے گا کہ اسے کیوں مارا گیا، تاجر برادری کو بھتے خوری، دھمکیوں اور مختلف ہتھکنڈوں سے اس قدر مجبور کیا گیا کہ ایک بڑی تعداد نے اپنے سرمائےسمیت دوسرے ممالک منتقل ہونے میں ہی عافیت جانی، اللہ اللہ کرکے رینجرز کے آپریشن کے بعد اس سیاہ رات سے چھٹکارا ملا۔
اس تمام تر صورتحال کے نتیجے میں MQM کی مقبولیت کا گراف اس قدر گرتا گیا کہ انہیں احساس ہونے کے باوجود پرواہ نہ ہوئی لیکن 2013 کے انتخابات کے نتائج میں PTI کو غیرمعمولی ووٹ پڑنے پر MQM قیادت جاگی تو ساتھ ہی شہری یونیورسٹی کا مطالبہ بھی زندہ ہوگیا اور جب آپریشن کی بازگشت سنائی دی جانے لگی تو جئے مہاجر کا نعرہ بھی پارٹی کی طرف سے لگایا جانے لگا لیکن شاید تب تک بہت دیر ہوچکی تھی عوام کے دلوں سے MQM نکل چکی تھی ورنہ کیا مجال تھی کہ رینجرز MQM کے دفاتر پہ چھاپے مارتی۔
1996ء کے آپریشن میں جب آرمی و پولیس MQM کے علاقوں سے گزرتی تو انہیں سخت غیر مسلح مزاحمت یا گالیوں کا سامنا کرنا پڑتا اور ایک کال آتی تھی شہر ویران ہوجاتا تھا لوگ گھروں سے ہی نہیں آتے تھے جس میں جبر کا عنصر بالکل بھی نہیں تھا مگر 2000 ءکے بعد جب جبر کا عنصر MQM کی سیاست میں آیا تو لوگوں کے دلوں سے بھی نکلتی گئی اور حقیقتاً اس کا سبب متحدہ کے شہری وڈیروں کی مفاد پرستی تھی۔
جب شہری یونیورسٹی کا مطالبہ ازسر نو زندہ ہوا تو میں نے خود حیدر عباس رضوی کو میسج کیا کہ اگر حکومت اس مطالبے کو پورا نہیں کرتی تو آپ خود سے یونیورسٹی بنالیں، شہر بھر سے چندہ کریں ہر شخص بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا، افرادی قوت کی متحدہ کے پاس کمی نہیں MQM کے کارکنان بلا اجرت مزدوری کرنے میں ساری جان ماردینگے یوں یونیورسٹی بھی بن جائیگی بلکہ دنوں میں بن جائیگی اور پورے ملک میں MQM کا بہترین امیج جائیگا لیکن افسوس حیدر عباس رضوی نے میری بات کو اہمیت نہ دی، اس کے علاوہ رشید گوڈیل صاحب سے بھی میں نے یہی بات کی جس پر وہ صاحب تو مجھ سے ایسے مخاطب ہوے جیسے کاٹنے کو آرہے ہوں۔
یہ تھی شہری وڈیروں کی مہاجروں سے ہمدردی کی حقیقت، شہری یونیورسٹی کا مطالبہ جوں کی توں اپنی جگہ موجود تھا گرما گرم سیاست ہوتی رہی مگر کبھی یونیورسٹی نہ بنی اور اب جب رینجرز آپریشن کے بعد ایسا ہوا کہ لسانی سیاست کے ساتھ ساتھ لسانی نعرے بالکل غائب ہوگئے تو ایک نہیں چار چار یونیورسٹیاں بن گئیں، حیدرآباد شہر میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بھی بن گئی اور رواں سال فنکشنل بھی ہوگئی، نواب شاہ متحدہ کا گڑھ ہے وہاں بھی سندھ حکومت نے شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی بنا ڈالی، سکھر میں وومین یونیورسٹی کے بعد اب میرپورخاص یونیورسٹی کی منظوری دی جارہی ہے جس کا کریڈٹ یقیناً PPP سندھ حکومت کو ہی جاتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ چاروں شہر مہاجر اکثریتی شہر ہیں اور یہ وہی PPP ہے جس کے ایک وزیر پیر مظہر صاحب نے شہری یونیورسٹی نہ بننے پہ خوشی کا اظہار کیا تھا جس کا نقصان تو PPP بطور جماعت کو ہوا تھا اب چار چار یونیورسٹیاں بنا کر بھی کریڈٹ لیتی نظر نہیں آرہی، اس بات میں PPP کے ذمہ داران کی اپنی حکمت بھی ہے کہ جب کبھی کوئی جماعتی سطح پر کریڈٹ ملنے کا کام ہوا تو اسے یا تو نظرانداز کردیا جاتا ہے یا پھر اپنے ہاتھوں روند دیتے ہیں جیسے IBA ہیڈماسٹرز کی بھرتی کا معاملہ جن کو PPP نے 100 فیصد میرٹ پہ بھرتی کیا پھر ان ہیڈماسٹرز نے سندھ کے تباہ حال تعلیمی اداروں میں انقلابی تبدیلیاں لاکر بہترین تعلیمی درسگاہیں بنائیں جن کی پرفارمینس پنجاب و KPK سے کئی سو گنا بہتر بھی ہے۔
لیکن حیران کن طور پر سندھ حکومت نے نہ صرف اس کامیابی کو نظرانداز کیا بلکہ مراد علی شاہ کے دور حکومت میں تعلیمی میدان میں کامیابی کو پیش کرنے میں بھی ناکام رہے، ہمیشہ سے PPP سیاسی بھرتیوں کی وجہ سے ہدف تنقید رہی اور جب سو فیصد میرٹ پر ہیڈماسٹرز کو IBA جیسے مستند ادارے کے ذریعے بھرتی کیا تو اسے اون کرنے سے ہی انکار کردیا جو آج بھی سراپا احتجاج ہیں حالانکہ IBA کے اسی ادارے سے سندھ ہائیکورٹ کے ججز بھی بھرتی ہوے، سندھ حکومت کے یہ کام قابل تحسین ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں سندھ حکومت شہری دیہی تفریق کو اسی طرح ختم کردیگی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔