ہرخاص عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میری طاقت اور صلاحیتوں کے اعتراف میں میرا نام تبدیل کردیا گیا ہے ۔ لہذا اب مجھے میرے نئے نام سے پکارا جائے۔ یہاں یہ بات اہم اور قابل ذکر ہے کہ نام کی تبدیلی کے باوجود ابھی تک میر ی طاقت اور حملہ کرنے کی صلاحیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اگر آپ احتیاط نہیں کریں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کو میرے حملے سے نہیں بچا سکتی۔ کل تک میرا نام ” نوول کرونا وائرس” تھا۔ آج مورخہ 12 فروری 2020 کو عالمی ادارہ صحت کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں میرا نام بدل کر ” کووِیڈ انیس(COVID-19) رکھ دیا گیا ہے۔ میرا سابقہ نام nCoV 2019 اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔
محترم قارئین کرام موذی وائرس کا اعلان آپ نے سماعت فرما لیا ۔ یہاں میں آپ سے دست بستہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ یہ انتہائی خطرناک وائرس ہے۔ اس کے جان لیوا حملوں میں چین میں ایک ہزار سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ چالیس ہزار سے زائد متاثر ہیں۔ یہاں خوش آئند بات یہ ہے کہ چینی حکومت کی سر توڑ کوششوں اور ڈاکٹر وں کی شب و روز کی محنت کی وجہ سے الحمدللہ پانچ ہزار کے قریب افراد مکمل صحت یاب بھی ہوچکے ہیں۔ چونکہ تاحال اس وائرس کے خلاف کوئی ویکسین ابھی تک تیار نہیں ہوسکی۔ لہذا ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں ہمیں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ متاثر یا مشتبہ افراد کو مفاد عامہ کے لئے قرنطینہ میں رکھنا ضروری ہے۔ کھانا کھانے سے پہلے اور باہر سے آنے کے بعد ہاتھ دھونا معمول بنائیں۔ نمک والے پانی سے دن میں کم ازکم دوبار غرارے کریں اور غیر ضروری طورپر منہ اور آنکھوں کو نہ چھوئیں۔ عوامی مقامات پر عینک اور ماسک کا استعمال کریں۔ چین میں احتیاطی تدابیر کا یہ عالم ہے کہ سڑکیں سنسان ہیں۔ لوگ تمام وقت گھروں میں بیٹھے ہیں۔ سب وے اور بسیں تقریباً خالی چل رہی ہیں۔ انتہائی ضرورت میں لوگ ماسک ، عینک اور دستانے پہن کر گھر سے نکلتے ہیں۔ اپنا ضروری سامان خریدتے ہیں اور وآپس لوٹ آتے ہیں۔ دفاتر کے کام گھروں سے آن لائن کئے جار ہے ہیں۔ آن لائن شاپنگ پہلے ہی چینیوں کی زندگی کا حصہ تھی اب یہ اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ خوف سے بڑھ کر احتیاط ہے۔
کرونا وائرس نے چین میں کروڑوں لوگوں کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔یہ وائرس گزشتہ سال کے اختتام پر وسطی چین کے صوبے ہوبے کے دارالحکومت ووہان میں یہ وائرس منظر عام پر آیا، اس کے ابتدائی شکار مریضوں میں کئی لوگوں کو گلے میں شدید تکلیف کے ساتھ تیز بخار کی شکایت ہوئی۔ بعد ازاں اس کیفیت کو نمونیا کی ایک شکل قرار دیا گیا۔ متاثرین کے لعاب، دہن ، بلغم اور خون کے تفصیلی تجزئے پر ان مریضوں کے خون میں ایک مخصوص جرثومے کی علامات پائی گئیں جسےنوول کرونا وائرس کہتے ہیں۔ لفظ کرونا کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خوردبینی تجزئے کے دوران اس جرثومے کی جزئیات تاج (کراون) کی شکل میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں۔ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے، اس نسبت سے اسے کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے 1960ء کے عشرے میں کروناوائرس کا نام دنیا نے سنا اور اب تک اس کی 13 تبدیل شدہ اقسام سامنے آچکی ہیں۔اس وائرس سے عام طور پر جانور متاثر ہوتےہیں، تاہم اس وائرس کی 13 میں سے 7 اقسام ایسی ہیں جو انسانوں میں منتقل ہوکر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔ حال ہی میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آنے والے ہلاکت خیز وائرس کو ابتدائی طور پر nCoV 2019 کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کرونا وائرس کی ایک بالکل نئی قسم ہے۔ اس وقت اس وائرس کے شکار لوگ دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک میں موجود ہیں۔
نوول کرونا وائرس کی عالمی تحقیقات کے حوالے سے دو روزہ بین الاقوامی فورم گیارہ فروری کو جنیوا میں شروع ہوا۔ عالمی ادارہ صحت کے سیکریٹری جنرل ٹیڈروس ادھانوم گبریسس نے اسی روز ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ نوول کرونا وائرس کو ” کووِیڈ انیس(COVID-19) کا نام دیا گیا ہے۔
اس وائرس سے ہونے والی شرح اموات دس فروری تک 2.38 فیصد ریکار ڈ کی گئی ہیں۔ یہ شرح سارس، ایبولا اور میرس وائرس سے ہونے والی اموات کی شرح سے کہیں کم ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بزرگ افراد کی ہے۔ 80 فیصد سے زائد کی عمریں ساٹھ برس سے زائد ہیں۔ ان میں سے 75 فیصد پہلے سے مختلف امراض کا بھی شکار تھے۔ چین کے صدر شی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کی چیانگ مشکل کی اس گھڑی میں خود صف اول میں موجود ہیں۔ وہ امدادی سرگرمیوں سمیت دیگر تمام امور کی خود براہ راست نگرانی کر رہے ہیں۔ سخت حفاظتی اقدام کی وجہ سے اس وائرس کے پھیلاؤ کافی حد تک روکا گیا ہے۔ امید کی جارہی ہے آنے والے دنوں میں صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ اس وائرس سے بچاؤ کی اصل کنجی گھبرائے بغیر حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد ہے۔