عصرِ حاضرمیں ملکوں کی ترقی کا راز یامعاشی فلاح میں مضمر فلسفہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے مالی وسائل کے بہتر استعمال کے ساتھ ساتھ اپنی اخلاقی اقدارکو بھی اپنی ترقی سے مربوط رکھا وہی قومیں اعلی اخلاقی اقدار اور فلاحی ریاست کہلانے کی حقدار ٹھہرائی گئیں۔گویا فکری اساس اور عملی ڈھانچہ جب تک اخلاقیات سے مربوط نہیں ہوتے کوئی بھی ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔مسلمانوں نے جب تک اپنے اس اخلاقی اساسی افکار کو عملی طور پر اپنائے رکھا اس وقت تک انہوں نے تین تین براعظموں پر بیک وقت حکومتیں کی،لیکن اس سنہری اصول سے روگردانی برتتے ہوئے اہل مغرب کی بے حیائی کو اپنے سینے سے لگایا ،سینہ بہ سینہ چلتی روایات نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ورنہ ہم مسلمان تو بزرگوں سے سینہ بہ سینہ ملنے والی روایات کو بھی اپنے دین،اخلاق اور کلچر کا حصہ ہی خیال کرتے تھے۔
شائد یہی وجہ تھی کہ جب علامہ محمد اقبال نے اپنے فکری اثاثہ(علم)کو یورپ کے کتب خانوں میں دیکھا تو ان کا دل خون کے آنسو رویا،جس پر انہوں نے اپنا مشہور زمانہ شعر لکھا کہ
ہائے وہ علم کے موتی،کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
اخلاقیات کا فکری اساس ہمیں آج سے پندرہ سو سال قبل آقائے دوجہاں حضرت محمدﷺ کی تعلیمات اور عملی زندگی سے ملتا ہے۔ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ ﷺ کا اخلاق کیا ہے تو آپ ؓ نے جواب دیا کہ کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا۔اور فرمایا کہ آپ کا اخلاق قرآن ہے۔گویا جب تک ہم اخلاقی اقدار کی پاسداری نہیں کریں گے کبھی بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوم نہیں کہلا سکیں گے۔دنیا میں انہیں قوموں نے عوام کے دلوں پر راج کیا ہے، جنہوں نے عدل کے معیارات کو قائم ودائم رکھا۔لیکن جو معیارات اوراصول عدل اسلام نے قائم کئے ہیں وہ کسی اور مذہب کا کبھی خاصہ نہیں رہا ۔
یہی وجہ ہے کہ پندرہ صدیا گزرنے کے باوجود بھی حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں قائم کردہ نظام عدل کو سکینڈینیویا جیسے ممالک میں انصاف عمرؓ کے نام سے آئین کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔اس لئے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ خوش حال معاشرہ کی بنیاد نظام عدل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔اس لئے اگر کوئی ملک معاشی ترقی چاہتا ہے تو اسے اپنے ملک میں پہلے عدل وانصاف کے معیارات کو اعلی مقام دینا ہوگا اور اس کے لئے اخلاقیات کے دامن کو مضبوطی سے پکڑنا بہت ضروری ہے، ورنہ پستی اس قوم کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔عدل وانصاف کے معیارات اور اخلاقیات کے اصولوں کو اسلام سے بڑھ کر کسی اور نے کہاں بیان کیا ہے۔عدل وانصاف تو دین اسلام کی اساس اور خاصہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الحدید میں بیان فرماتا ہے کہ!
’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیاں دے کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل وانصاف پر قائم ہوں‘‘
اسی طرح سورۃ شوریٰ میں بیان کیا گیا ہے کہ
’’تو اے محمدؐ آپ اس دین کی طرف لوگوں کو بلاتے رہئے اور جیسا آپ کو حکم ہوا ہے اس پر قائم رہئے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجئے اور کہہ دیجئے کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے، میں اسی پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں‘‘
اگر ان آیات کی عملی تفسیر دیکھنا ہو تو آقائے دوجہاں کے بعد اصحاب رسول ان کی بہترین مثال ہیں۔اس کی ایک مثال خطبہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہے جو آپ نے بیعت خلافت کے بعد ارشاد فرمایا۔آپ ؓ فرماتے ہیں کہ
’’تم میں سے ہر قوی میرے لئے ضعیف ہے ،جب تک اس سے حق وصول نہ کر لوں اور تم میں سے ہر ضعیف میرے لئے قوی رہے گا، جب تک اس کو اس کا حق نہ دلوا دوں‘‘
گویا قیام عدل وقسط ہی اسلام کا مرکزی خیال ہے اور یہی عدل وانصاف اخلاقیات کو جنم دیتا ہے، جس سے ملکوں میں معاشی انقلابات آیا کرتے ہیں، لہذا جب تک ہم اپنی اخلاقیات کو نہیں سنوارتے اس وقت تک ملک میں معاشی انقلابات کی توقع رکھنا بے سود ہے۔اس وقت ملک پاکستان اگر معاشی پستی کا شکار ہے تو اور بہت سی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور اہم وجہ اخلاقی اقدار کا زوال اور اخلاقیات کی پستی بھی شامل ہے۔اداروں میں سرعام رشوت کا بازار گرم،اقربا پروری،دوسروں کے حق پر ڈاکہ مارنا،بھائی کا بھائی کو قتل کرنا،چند انچ زمین کی قیمت اپنے ہی ماں ،بھائی کے خون کی قیمت سے چکانا،چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے کے تضحیک،کم عمر بچوں سے زیادتی،عصمت فروشی اور آئے روز خواتین سے زیادتی اخلاقی اقدار کا جانزہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
ہمارا ملک اس وقت معاشی خوشحالی کی شاہراہ کا مسافر نہیں ہو سکتا، جب تک انفرادی طور پر ہم اخلاقیات کے دامن کو مضبوطی سے تھام نہ لیں،حکومت کا کام معاشی فلاح،دوسرے ممالک سے تعلقات،فارن ایکسچینج کی بہتری ،دنیا سے تعلقات اور پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور یہ کام ہمیں حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے ہمیں اپنی،اپنے خاندان اور اپنے بچوں کی اعلی اخلاقی اقدار کے تحفظ کا امین بنتے ہوئے انہیں ایسی راہ پر چلانا ہے، جہاں ان کی منزل اخلاقیات کا اعلی معیار ہو۔پھر دیکھئے ملک کیسے خوش حالی کی شاہراہ پر چلتا ہے۔