ہم سب ہی زندگی کا مقابلہ کررہے ہیں ۔کیوں نہ کریں سانسوں کا سلسلہ جاری ہے ۔اس آخری وقت تک اپنے مقصد حیات بار بار بھول جانے کے بعد پلٹ جانا ہی انسان ہونے کی نشانی ہے ۔ عبد بننے کی کوشش میں کبھی گھر والوں کی بے رخی سہتے ہیں۔ کبھی پڑوسیوں کے رویہ پر کڑھ کر رہ جاتے ہیں ۔اعلانیہ دشمن سے زیادہ اپنے معاشرے میں تنہائی ہم پر اثرانداز ہوتی ہے ۔ مگر سوچا جائے تو ہمارے گھر والے کھلی مخالفت بھی نہیں کرتے، اگرچہ ساتھی بھی نہیں بنتے ۔شوہر ہوں یا بچے یا دیگر اہل خانہ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہمیں اپنے گھر والوں کو جنت الفردوس میں لے جانے کی کوشش کرنی ہے ۔
جن کے بچے ابھی ہاتھ میں ہیں ان کے لئے موقع ہے کہ عملی کوششیں بھی کریں ۔ جن کے با اختیار ہوگئے ہیں ان کے لئے بھی محبت کا تعلق تو بنتا ہے ۔ اگر ہم قرآن میں دیکھیں مال اور اولاد کو آزمائش بتایا گیا (جو اللہ کی یاد بھلا دے) لیکن پھر اس کا حل بھی دیا گیا ہے ۔ ہر کوشش اللہ کے دفتر میں رجسٹر کروانا ہے کہ اللہ جی میرے اور میرےبچوں، گھر والوں کے دل میں آپ اور آپ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت رچا بسا دیجئے۔ ہمارے دلوں کے مالک آپ ہیں۔ہمیں ایک دوسرے کا اخروی معاون بنادیجئے۔
¤ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرت اعین واجعلنا للمتقین اماما¤
والدین کی دعائیں بچوں کے لئے ڈھال ہوتی ہیں ۔ رب کائنات نے تعمیر کعبہ کے موقع پر خلیل اللہ کی دعا مومن اولاد کے حق قبول فرمائی۔ موسی علیہ السلام کو ان کی والدہ کے انتقال پر اللہ تعالی نے یاد دلایا “اے موسی اب سنبھل کر رہنا دعا کرنے والے ہاتھ نہیں رہے “
کتاب ہدایت میں رقم ہے “عرش الہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش الہی کے گرد حاضر رہتے ہیں، مومنین کے لیے دعائیں کرتے ہیں کہ ان کو اپنے والدین،ازواج اور اولادوں کے ساتھ جنتوں میں داخل فرمائیے “
یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی کوششوں پر اعتبار نہیں یا خدائے واحد پر ۔ دین فطرت انسان کی سرشت میں یوں سرایت کیے ہوئے ہے، جیسے ہمارے جسم میں دوڑتا خون ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اپنی فطرت ہی اجنبی بن جاتی ہے ؟ماہرین الٰہیات کا خیال ہے کہ “جب تک اللہ ہماری ترجیح اول نہیں ہوتا اللہ نہیں ملتا ” جب اللہ سے آشنائی نہیں تو ہم خدا کو پانے کے مغالطہ میں رہتے ہیں۔ یہی رویہ ہمیں نتائج نکالنے کے سراب میں مبتلا رکھتا ہے ۔ خود کو معمولی اور اپنی کوششوں کو حقیر سمجھنے کے بجائے اپنے ازلی دشمن ابلیس کی ہمہ وقت کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو ایک نئی ہمت جواں ہوتی ہے اس دنیا کو سنوارنے کی۔ اللہ کی وسیع جنت کے حقدار بننے کے لئے ہمارے گھر اور گلیاں منتظر ہیں ۔
اچھی کوشش ہے۔اللہ تعالی اجر دے۔
آمین