دہشت گردی کا لفظ اتنا عام ہوچکا ہے کہ ہر فرد اس سے آشنا ہے ،دہشت گردی کے تصور نے ایسی فضا بنائی ہے کہ فوراً ذہن میں بم دھماکوں، وحشت و بربریت، ٹارگٹ کلنگ، خون میں لت پت انسانی جسم، معصوم و بےگناہوں کی چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں، دہشتگردی کی تاریخ یا تصور کوئی نیا نہیں، دہشتگردی کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ دنیا، دہشتگردی کا کینوس یوں تو بہت وسیع ہے، لیکن اس کی سب سے خطرناک اور مہلک صورت بائیو ٹیررزم Bioterrorism ہے، جس میں وائرس، بیکٹیریا، فنجائی یا زہریلے کیمیکلز کو انسانوں، جانوروں، پودوں پر بطور ہتھیار کسی قوم یا ملک کے خلاف مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بائیو ٹیررزم کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے ۔
ماضی میں فوجیں مخالفین کے خلاف پانی میں زہر یا ہیضہ کی وبا پیدا کرنے والے جراثیم کو استعمال کرتی تھیں، ماضی میں اس کے استعمال کے سادہ طریقے تھے، جن میں جانوروں کا فضلا، جانوروں و انسانوں کی لاشیں پھینک دینا لیکن جوں جوں انسانی سمجھ بوجھ وسیع ہوتی گئی تو اس کے نت نئے طریقے ایجاد ہوتے گئے، یورپ میں پلاگ کی بیماری پھیلا کر یورپ کی آبادی کے کثیر حصے کو تباہ کرڈالا ، کبھی طاعون یا کوڑھ کے مریضوں کے کمبلوں کے ذریعے یہ دہشتگردی پھیلائی گئی۔
بیسویں صدی میں اس کا استعمال جرمنی نے مخالفین پر جدید طریقے سے کیا، جس نے لیبارٹریز میں جراثیم کو تیار کرکے مخالف فوجوں کے گھوڑوں و دیگر جانوروں پر حملے کیے، جس سے جنگ عظیم اول میں روس، فرانس، امریکہ وغیرہ کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا، جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ وجود میں آئی، جس کے تحت انسانیت کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے اور انسانیت دشمن اقدامات کی حوصلہ شکنی کے لیے بہت سے اصول و قوانین وضع کیے، لیکن بدقسمتی سے لیبارٹریز میں تیار کردہ مہلک جراثیموں و انسانیت دشمن حیاتیاتی حملوں کی حوصلہ شکنی کے لیے خاطرخواہ توجہ نہ دی گئی، لیکن حیاتیاتی حملے بدستور جاری ہیں، کبھی فصلوں میں بیماری پھیلا کر مخصوص گروہ یا افراد نے غریبوں کی محنت کو نچوڑ لیا تو کبھی انسانوں میں مختلف وبا کے پھیلائو کے بعد ادویہ فروخت کرکے مال بٹورا جاتا رہا، میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر بل گیٹس نے بائیو ٹیررزم کے بڑھتے ہوئے خدشات پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دنیا کے حکمرانوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور حیاتیاتی حملوں کے انسداد و بچائو کے لیے سنجیدہ ہونے پر زور دیا، لیکن بدقسمتی سے اس پر اب تک کسی طرف سے بھی سنجیدگی سے آواز بلند ہوتے نظر نہیں آئی، بل گیٹس نے خبردار کیا تھا کہ حیاتیاتی حملے نیوکلئیر حملوں سے زیادہ مہلک ہیں اور اس کے اثرات لامحدود حد تک خطرناک ہیں، جو ناقابل یقین حد تک تباہی پھیلا سکتے ہیں، آج دنیا میں کرونا وائرس کے حملے کی گونج سنائی دے رہی ہے جس کے ذریعے چین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
کرونا وائرس حملے کے بعد سے جس قدر میڈیا پر شور مچایا گیا ہے، اس کے بعد سے چین میں ایک طرف تو خوف کی فضا قائم ہوگئی ہے، تو دوسری طرف چین کی معاشی و اقتصادی سرگرمیاں انتہائی ماند پڑگئی ہیں، چین جسے دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بلکہ مستقبل قریب میں سپر پاور کے طور پر لیا جارہا تھا، اب اس کے شہریوں و اشیا پر دنیا بھر میں ایک حد تک پابندی لگادی گئی ہے اور دیگر ممالک کے افراد چین کے سفر و تجارت سے اجتناب کرتے نظر آرہے ہیں جس سے چین کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔
کرونا وائرس سے پہلے نہ صرف چین بلکہ دنیا کے تمام ممالک ہی میں مختلف وبائیں پھیلتی ہی رہی ہیں، لیکن جس منظم طریقے سے کرونا وائرس کی گونج عالمی میڈیا میں سنائی دی گئی اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی، جس سے اس بات کے امکانات کو تقویت ملتی ہے کہ نہ صرف یہ ایک منظم بائیوٹیررزم ہے، بلکہ اس کا مقصد چین کی ابھرتی طاقت پر ضرب کاری لگانا ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انسانیت دشمن وار ایک حد تک کامیاب ضرور ہوگیا ہے، چین معاشی طور پر تو دہائیوں سے مضبوطی کی طرف گامزن ہے لیکن کسی طرف سے چین کو چیلنج نہیں ہوا، لیکن جب سے
چین نے اپنے سمندری اثررسوخ اور Territorial Expansion کا آغاز کیا ہے، تب سے ہی امریکہ چین سرد جنگ کی گونج سنائی دینے لگی ہے، بیسویں صدی کے پہلے کوارٹر کے موقع پر نامور جرمن دانشور A.T Mahan نے تھیوری پیش کی کہ جس ملک کا کنٹرول سمندر پر ہوگا، وہ دنیا پہ حکمرانی کریگا جبکہ اس کے مقابل میں H.J Mackinder نے کہا کہ دنیا پر دھاک بٹھانے کے لیے Territorial Expansion ضروری ہے اور یہی دو اہم اسباب تھے، جس نے دنیا کو دوسری عالمی جنگ کی ہولناکی سے گزارا، اگر دنیا کے پانی کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ وہ واحد ملک ہے، جس کا تقریباً عالمی سمندری کنٹرول ہے لیکن اب بحیرہ جنوبی چین، ملاکا اسٹریٹ، سری لنکن پورٹ و افریقی ممالک میں مختلف پورٹس کے ذریعے اور CPEC معاہدے کے تحت گوادر پورٹ کے بعد سے ایک ابھرتا نیول پاور بن کر سامنے آرہا تھا، جبکہ دوسری طرف چین کا اثر وسوخ نہ صرف جنوب مشرقی ایشیا، بلکہ جنوبی ایشیا اور افریقی ممالک میں بھی کافی بڑھتا جارہا ہے، اس کے علاوہ لاطینی امریکہ میں چین کے قدم امریکہ کو ایک آنکھ برداشت نہیں، جس کی وجہ سے امریکہ چین کی ابھرتی طاقت کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان طاقت کے حصول کے لیے سرد جنگ جاری ہے لیکن اب چین پر حیاتیاتی حملے اور عالمی میڈیا میں ایک منظم مہم کے بعد جیسا کہ چینی صدر نے کرونا وائرس کو شیطانی وائرس قرار دیا ہے۔
عین ممکن ہے کہ چینی جینیاتی انجینئرز بھی پلٹ کر جواب ضرور دینگے جس سے حیاتیاتی حملوں کا منظم آغاز ہوچلے گا اور بل گیٹس کے خدشات کے مطابق شاید نیوکلئیر حملوں کے بعد تو انسانوں کے بچنے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن حیاتیاتی حملوں کے بعد شاید کوئی انسان بچے، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دنیا کے لیے سب سے مہلک ترین ٹرینڈ ہوگا اگر اقوام عالم نے آج اس کی حوصلہ شکنی نہ کی اور اس کی روک تھام کے لیے اقدام نہ اٹھائے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ تمام اقوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑیگی۔