ہم ہر سال 5فروری کو یوم کشمیر مناتے ہیں۔لیکن ایک بات یاد رکھنا ہمارا سال ہا سال کا کشمیر ڈے منانا سید علی گیلانی کی ایک دن کی جدوجہد آزادی کا کفارہ ادا نہیں کرسکتا۔ضمیر کے اس قیدی کا صرف ایک ہی مقصد ہے کشمیر بنے گا پاکستان۔اس نعرے پر اس نے ساری عمر بھارت کے ظلم قید صعوبتیں برداشت کیں، لیکن اپنے عزم چٹان کی طرح کھڑا رہااور ابھی تک کھڑا ہے۔بھارت کے سارے ہتھکنڈے اس کو ہرانے میں ناکام ہو گئے۔
نیلسن منڈیلا 1918 میں ساؤتھ افریقہ میں ایسے دور اور حالات میں پیدا ہوا جب کالی نسل کے اس اکثریتی ملک میں گوری نسل کی ایک بہت چھوٹی مگر منظم اقلیت حکمران تھی۔تعلیم، ملازمت، علاج، جائیداد اور حقِ رائے دہی کے تمام اختیارات صرف گوری نسل کو حاصل تھے۔ ساؤتھ افریقہ نسلی امتیاز کی بدترین مثال تھا۔کالی نسل کے بیشمار افراد اس نسلی امتیاز کے خلاف جد وجہد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کرتے اور ظلم سہتے رہے۔ منڈیلا بھی ہوش سنبھالنے کے بعد اسی جدوجہد کا حصہ بنا اور بتیس سال تک ظلم اور قید و بند کی انہی صعوبتوں کو جھیلتا رہا، مگر اس کے عزم و استقلال، قوت ارادی اور سوچ میں ذرا بھی خم نہ آیا۔ ساؤتھ افریقہ اور پھر پورے افریقہ کے دانشوروں، لکھاریوں اور انقلابیوں نے اسکا ساتھ دیا۔ اس کی جدوجہد پہ اور اس کی شخصیت پہ بہت کچھ لکھا،اس کی سوچ اور فکر کو عام کرنے کا حق ادا کیا۔ سامراج اور سفید نسل کے لوگ ابھی تک منڈیلا کا نام تک نہیں سننا چاہتے تھے، افریقی دانش وروں نے اس کے کام اور نام کو زندہ رکھا اور بالآخر نیلسن منڈیلا نسلی برتری کے غیر انسانی نظام کو ختم کرنے اور نسلی مساوات قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
سید علی گیلانی 1929 میں وادی کشمیر میں پیدا ہوئے، بر صغیر پاک و ہند کو دو آزاد ملکوں کی صورت، عین جوانی میں، قائم ہوتے دیکھا۔ پرانے ہندوستان کے بیشتر حصوں کو آزادی مل گئی،مگر کشمیر کے خطے سے آزادی کا وہ حق چھین لیا گیا، جس کے مطابق پاکستان اور بھارت وجود میں آئے تھے۔ بھارت نے اپنی فوجیں بھیج کر وادی پر قبضہ کیا مگر یو این او میں اقوام عالم کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ یہ قبضہ عارضی ہے اور جلد استصواب کروا کر کشمیریوں کو اپنی مرضی کا انتخاب کرنے دیا جائے گا۔بھارت کے عزائم نیک نہ تھے اور ساری کشمیری لیڈرشپ یہ بات بھانپ چکی تھی۔ نوجوان علی گیلانی کو اس زیادتی نے تڑپا کے رکھ دیا اور اُسنے اپنی جوانی کشمیر کی مسلم شناخت اور حُریت کشمیر کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
کشمیری اور ان کی قیادت اس طویل اور صبر آزما مدت میں اکثر پرُامن جد وجہد مگر کبھی کبھی مزاحمتی تحریک کا مسلسل حصہ رہے اور بے شمار اور لازوال قُربانیوں کی داستانیں رقم کرتے رہے۔ کشمیریوں کو یقین تھا اور ہے کہ حقِ خود ارادیت کا موقع ملا تو وہ پاکستان کا حصہ ہو جائیں گے، تاہم کشمیری قیادت کے کچھ لوگ مایوسی اور پریشانی کے عالم میں کچھ نہ کچھ متزلزل بھی ہوتے رہے۔
سید علی گیلانی مگر ان سب میں جدا، اونچا اور بے لچک رہا۔اس کی للکار نے وادی میں آزادی کی آگ سی بھڑکا دی۔کشمیری نوجوان، قابض بھارتی فوج کی موجودگی میں سروں پر اور چھتوں پر پاکستانی پرچم باندھنے لگے۔
اس نے بھی نیلسن منڈیلا کی طرح بتیس سال سے زائد مدت قید وبند میں گزاری۔ مگر اس کے عزم، ایمان اور سیاسی جد و جہد کو کوئی خوف، لالچ یا دباؤ ذرا بھی اپنی جگہ سے ہٹا نہ سکا۔
وہ بھارتی سنگینوں کے سائے میں لاکھوں نوجوانوں پہ اس نعرے کی گونج سے وجد طاری کرتا رہتا ہے کہ
’ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے‘
سید علی گیلانی اب نوے سال کے ہو چکے ہیں (پیدائش 19ستمبر 1929 کی ہے۔
اس نے بھارت کے ہر ظلم، جبر، دھونس اور لالچ کا مقابلہ کیا۔ اس نے پاکستانی حکومتوں کی بے حسی، بے مروّتی اور بے رُخی کا کبھی گِلا نہ کیا۔ وہ کھڑا رہا، کھڑا ہے اور زندگی کی آخری سانس تک کھڑا رہنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔اس کا ایک ہی مقصد ہے بھارت سے آزادی ، کشمیر بنے گا پاکستان ،پاکستان سے رشتہ کیا صرف لاالہ اللہ۔