توڑ اس دست جفا کیش کو یارب
جس نے روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا
کشمیر مثل ارض جنت نظیر ،جس کے باسی پوری دنیا میں بستے ہیں۔اور جہاں جہاں کشمیری مسکن قائم کرتے ہیںوہیں چنار،قہوہ،خلوص اور بھائی چارہ کی خوشبو ہر سوبکھیر دیتے ہیں۔گویا کشمیر مخصوص خطہ ارضی نہیں رہا بلکہ دنیا کے ہر ملک میں کشمیریوں کی صورت ایک کشمیر ِ صغیر موجود اور پنپ رہا ہے۔یہ لوگ دنیا کے کونے کونے میں کشمیریوں کے دل کی آواز بن کر بلبل کشمیر حبہ خاتون کے مدھر نغموں کی طرح پیغامِ مہر و وفا کے ساتھ جذبہ فکر حریت کو بیدار کرنے میں بھی ہمہ وقت کوشاں ہیں۔وادی ارض نظیر پر ہونے والے شب وستم اور ظلم و زیادتی کی صدا کو پوری دنیا میں پہنچانے کا ذریعہ سوشل میڈیا کے علاوہ پرنٹ میڈیا یعنی اخبار ہے اور پرنٹ میڈیا میں جو کردار عہد حاضر میں روزنامہ جموں کشمیر صدائے کشمیر بن کر دنیا میں ہر کشمیری کے دل کی دھڑکن اور دلوں میں گھر کرنے کا کردار ادا کر رہا ہے اس کا ثانی تاحال کیا دور ونزدیک آس پاس کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔وہ کشمیری متحدہ عرب امارات میں مکین ہو،لندن ،کینیڈا اور اسکینڈے نیویا میں مسکن رکھتے ہوں ،قطر کے صحرا میں رہتا ہو یاآسٹریلیا کے ساحلوں پر بستا ہو،جموں کشمیر ہر جا پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے انہیں کشمیر کے تازہ حالات و واقعات سے روشناس کرواتا ہے۔بلاشبہ اس کا سہرا عہد حاضر کے معروف صحافی عامر محبوب کے سر ہے۔جو اس گلشن کی آبیاری دامے،درمے،سخنے اور جان و دل سے کر رہے ہیں۔میں نے اکثر کتابوں میں پڑھا اور اہل فکر ودانش سے یہ سنا ہے کہ ،ایک پائوں مشرق تو دوسرا مغرب،مگر اس کی عملی تفسیر میں نے عامر محبوب میں اس طرح محسوس کی کہ جب بھی دوحہ قطر سے انہیں فون کیا تو معصوم و خلوص بھرے لہجہ میں جواب ملا کہ مراد بھائی ابھی میں گاڑی چلا رہا ہوں مظفرآباد پہنچ کر فون کرتا ہوں ۔چند گھنٹوں بعد دوبارہ کال پر جواب ملا کہ مراد بھائی ابھی مظفر آباد سے واپس اسلام آباد جا رہا ہوں گھر جا کر بات کرتا ہوں ۔عامر محبوب کی صحافیانہ مصروفیات دیکھ کر کبھی کبھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتو ہوں کہ کیا یہ وہی بچہ ہے جسے نوے کی دہائی میں ان کے برادر اکبر شہزاد محبوب سے جب ملنے جاتا تھا تو اس کی معصومیت دیکھ پوچھا کرتا کہ عامر بھی کچھ حرکت کرے گا یا ایسے ہی معصوم و سست رہے گا۔اب جبکہ ان کی زیر ادارت جموں کشمیر کے چھتناور کو دیکھتا ہوں تو ایک احساس تفاخر پیدا ہوتا ہے کہ میرے ہاتھوں کھیلنے والا بچہ پاکستان کے مشہور صحافیوں اور اخبار جموں کشمیر،دنیا میں ایک نام اور منفرد پہچان بنا چکا ہے۔یہ سب ایسے ہی ممکن نہیں ہوا،یقینا کام بولتے ہیں اور عرصہ قلیل میں جموں کشمیر کے کام ،نام اور اعزازات اس بات کے واضح ثبوت ہیں ۔ سال گزشتہ زیر انصرام حکومت کشمیر پہلی مرتبہ پریس فائونڈیشن سے مل کر ایک ایوارڈ تقریب منعقد کی، جس میں روزنامہ جموں و کشمیر کو بہترین اخبار کے ایوارڈ کے اعزاز سے نوازا گیا جو بلاشبہ اعتراف خدمت ہی ہے کہ جہاں مسئلہ کشمیر وہاں روزنامہ جموں و کشمیر۔اس اخبار کو پہلا ریاستی اخبار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔کشمیر و بیرون کشمیر ،کشمیریوں کی نمائندگی کا واحد ،سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار بھی اس اخبار کو ہی مانا اور جاناجاتا ہے۔آل پارٹیز کانفرنس جموں کشمیر کا ایک عظیم کارنامہ تھا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین ونمائندوں نے شمولیت اختیار کر کے اس بات کا بین ثبوت دیا کہ مسئلہ کشمیر میں ہم سب یک جان ،بند مٹھی اور ایک چھتری تلے جمع ہیں۔
ویسے بھی قانونِ فطرت ہے کہ جب بھی دنیا میں کہیں ظلم کی انتہا ہوئی ہے وہاں قدرت نے اپنے پسندیدہ انسانوں سے کام لیا اور رزمِ حق و باطل میںفتح حق کی ہی ہوئی۔ جب جب فرعون نے دعویٰ خدائی کیا اللہ نے ایک موسی کو ضرور صدائے حق بلند کرنے اور جراٗت مقابلہ کی توفیق سے نوازا۔ وادی کشمیر میں سات دہائیوں سے جاری شب و ستم اور وحشیانہ تشدد اگرچہ اس بات کا گواہ ہے کہ ظلم کی انتہا کی جارہی ہے لیکن عامر محبوب جیسے مخلص ،نڈر،بے باک اور صدائے حق بلند کرنے والے صحافی نعمت خداوندی سے کسی طور کم نہیں اور دلیل ہے اس بات کی جب بھی وادی پر دشمن کی یلغار ہوگی’’ جموں و کشمیر‘‘ بغاوت واحتجاج میں پیش پیش رہتے ہوئے وادی کی آواز بنےگا، دشمنانِ کشمیر کے سامنے سد سیسہ بنے کھڑا رہے گا۔اللہ عامر اور روزنامہ جموں و کشمیر کو دن دگنی رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے آمین۔