خلیل الرحمن صاحب آپ نے اپنی دانست میں سعادت حسن منٹو کی قبر پر لات مار کر جس شاہکار ” میرے پاس تم ہوکو تخلیق کر دیا وہ مدتوں تک ایک نشتر کی طرح تہذیب یافتہ اور مثبت سوچ کے افراد کو تکلیف پہنچاتا رہے گا۔
اس ڈرامے کی بدولت نہ صرف آپ نے پروڈکشن ہائوس کا پیسہ اوروقت بے کار میں برباد کیا بلکہ عوام الناس کے دلوں میں موجودخواتین کے لیے عزت واحترام کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے ۔
مذکورہ ڈرامے کی مرکزی کردار شادی شدہ ایک بچے کی ماں ‘ اور اپنی پسند سے شادی کرنے والی خاندانی شریف عورت مہوش کو آپ نے ایک مالدار عیاش آدمی سے ملتے ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دکھایا ہے ، جیسے کہ یہ تو اس کے لیے بہت معمولی بات ہو، کہ اپنا بسا بسا یا گھر ‘ عزت کی زندگی اور پیارے سے بیٹے کو لمحوں میں چھوڑ چھاڑ کر ،دل پھینک ،مرد کے ہمراہ ذلت آمیز گناہوں سے آلودہ زندگی گزارنے چل دی۔تمام شرعی اور سماجی حدود کی دھجیاں بکھیرتی اس کہانی کو لکھنے کے پیچھے آپ کی کون سی تلخ یادیں کار فرما ہیں؟ یہ تو ہم نہیں جانتے اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں۔ پر آپ چونکہ ایک قلم کار ہیں اور قلم کی توقیر و احترام بھی یقینا” جانتے ہی ہوں گے اور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے رب کائنات نے ہم سب کی تقدیر لوحِِِ محفوظ میں قلم بند کر کے قلم سے ہمارا ابدی رشتہ جوڑ دیا تھا۔ اور یہ کہ پہلی وحی نے نبی آخر الزماں کو پڑھنے کا حکم دے کر قلم کو بے حد توقیر بخشی ‘اور قرآن پاک میں رب کائنات نے قلم کی قسم بھی کھائی ہے۔
آپ کا تعلق چونکہ الیکٹرانک میڈیا سے بھی ہے تو لہذا آپ اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ آج کا میڈیا ہمارے گھر کے فرد کی طرح ہماری زندگیوں میں شامل ہو چکا ہے اور اس پر چلنے والے پروگرام ناظرین کے ذہنوں اور رویوں پر گہرے اور دور رس نتائج مرتب کرتے ہیں ۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے آج بھی ہمارے معاشرے کی عورت کے لیے اپنا گھر ‘ بچے اور خاندان اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا ہماری مائوں ‘ نانیوں اور دادیوں کو تھا۔ آج کی عورت بھی ہر دکھ ہر پریشانی اور ہر مشکل میں گھِر کر بھی ہر حال میں اپنے خاندانی نظام کو بچا نے کو مقدم رکھتی ہے ‘اور یہی وجہ ہے کہ دنیاکے چندمضبوط خاندانی نظام کے حا مل ممالک میں ہمارا وطن پاکستان سر فہرست ہے۔ “
ہمارے معاشرے کےاخلاقی گراوٹ کا شکاردو یاتین فی صد افراد کو آپ اپنے ڈرامے کا مرکز و محور کیسے بنا سکتے ہیں ؟
اگر ان کرداروں سے آپ کو اپنی تحریر کوسجانا ہی تھا، تو آپ انہیں ہیرو ‘ ہیروئین کے بجائے ولن اور ویمپ کے کردارمیں بھی دکھا سکتے تھے۔
آپ کے” ڈرامے ” کا کوئی بھی کردار نارمل نہیں لگ رہا، سب کے سب اوور ایکٹنگ کا شکار ہیں، ‘ہر ایک فلسفہ دان بننے کی کوشش میں نہایت بھونڈے پن کا شکار نظر آرہا ہے ‘ کہانی میں عدم توازن نے اس کے مجموعی تاثر کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے ‘ ۔
ایسا نہیں ہے کہ اچھے معیاری سبق آموز ڈرامے بنانا نا ممکن ہو، ‘ آپ گزشتہ چند دہایوں کے ڈرامے ہی دیکھ لیں، جس میں زیر زبر پیش ، افشاں، ‘ ان کہی، ‘ سونا چاندی، ‘ الف نون، ‘ تنہائیاں اور ستارہ اور مہر النساء جیسے لازوال ڈرامے شامل ہیں، ‘ جنہیں آج بھی ہر طبقے کے افراد میں بے انتہا پذیرائی حاصل ہے ” ۔
خلیل الرحمان صاحب آپ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ آج تک آپ نے اپنی ہی مرضی کا لکھا اور اپنے قلم سے لکھی ایک سطر کوبھی تبدیل کرنا شان کے خلاف سمجھا “””” چلیں اب تک تو جو کیا سو کیا، آئندہ کے لیے آپ کو میرا پر خلوص مشورہ ہے کہ اپنے قلم کو اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کریں ، خالی پیلی تفریح طبعہ کے بجاے نوجوان نسل کے لیے سبق آموز اسلامی تاریخی واقعات پر لکھیں ،مغربی ثقافت کے حملوں سے بچانے کے لیے ڈھال بن جانے والی تحریریں لکھیں، ‘ مسلمانوں کی ابتر حالت اور عروج وزوال کے اسباب پر غفلت میں پڑی امت کو جگانے والی تحریریں لکھیں، ‘ یقین جانیں اس فتنوں کے دور میں آپ کی یہ کاوشیں رائیگا نہ جائے گی اور قلم کا حق ادا کر کے آپ خود بھی دائمی سکون حاصل کریں گے ‘۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا