الحبّ للہ

اللہ سے اور اللہ کے لئے محبت کیساانمول جذبہ ہے؟

اللہ سے محبت کسی بھی وجود کا سب سے قیمتی خزانہ ہے، نہ اس سے پہلے کوئی محبت وجود پا سکتی ہے، نہ اس کے بعد باقی رہ سکتی ہے۔ یہ محبت تمام امراض کی شفا بھی ہے، اور ان کا علاج بھی! اللہ سے محبت کسی بھی مؤمن دل کا نہایت قیمتی سرمایا ہے، جب مؤمن ہر قول اور فعل میں اللہ کی محبت کا طلبگار بن جاتا ہے، اللہ تعالی کامرانی کو اس کے قدموں میں پہنچا دیتے ہیں، اور اس کی عمر میں طول اور روزی میں برکت عطا فرماتے ہیں،اور اسے دنیا و آخرت کی سعادت عطا فرماتے ہیں۔

اللہ تعالی سے محبت ایمان کا تقاضا ہے اور یہ عقیدہ توحید کا حصّہ ہے، اور اس وقت تک آدمی کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت نہ کرے۔

محبت کے معنی

اللہ تعالی سے محبت کے معنی ہیں اسے سب پر ترجیح دینا، اس کے احکامات کو ماننا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا، اسکے رسولؐ کا اتباع کرنا اور اس کے دین کی نصرت کے لئے کوشش کرنا، اسی لئے اللہ تعالی نے ایسے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے!

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے( تو پھر جائے، ) اللہ بہت سے ایسے لوگ پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے، اور اللہ ان کو محبوب ہو گا ، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔‘‘ (المائدہ، ۵۴)۔

قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے مؤمنین اس سے محبت کرتے ہیں، بلکہ وہ ان کی محبت کو شدید قرار دیتا ہے، یعنی مؤمن اللہ سے محض محبت نہیں کرتا بلکہ اس کی یہ محبت جیسی اللہ سے ہے، دنیا میں کسی اور سے نہیں، ارشاد الہی ہے!

’’جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدّمقابل بناتے ہیں، اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (البقرۃ، ۱۶۵)۔

اللہ تعالی سے محبت کرنے والے لازماً رسول اللہ ؐ کا اتباع کرنے والے ہوں گے، اس بارے میں اللہ تعالی نے صاف بیان کر دیا!

’’اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے در گزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘ (آلِ عمران، ۳۱)

امام ابنِ تیمیہ کا قول ہے: ’’اللہ، اس کے رسولؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کے پسندیدہ کام کئے جائیں، اور مکروہ کاموں کو چھوڑ دیا جائے، اور لوگ اس میں مختلف مراتب پر ہیں، کچھ کو فضیلت حاصل ہے اور کچھ کو اس سے بھی بڑھ کر حصّہ ملا ہے، جو جس قدر بلند مرتبے پر ہے اللہ کے ہاں بھی اسی کا مرتبہ بلند ہے‘‘۔

اللہ کی محبت میں رسول کریمؐ کے اتباع کے بارے میں ابن القیم الجوزیؒ فرماتے ہیں! ’’بندگی ہی محبت کی انتہا اور عاجزی کی انتہا ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے ’’اس نے محبت میں غلامی اختیار کر لی، یعنی اس نے اپنے آپ کو بالکل روند ڈالا اور ذلیل کر لیا‘‘اور یہ سپردگی صرف اللہ ہی کے لئے جائز ہے، اور کسی اور کے آگے ایسی عاجزی شرک ہے ، جسے اللہ کبھی معاف نہ کرے گا، اللہ تعالی کسی ایسے شخص کو معاف نہ کرے گا، جس نے اس کی بندگی میں شرک کیا ہو، اور اس کے علاوہ جو کچھ جسے چاہے گا معاف کر دے گا، پس عبادت اور بندگی میں محبت، محبت کا سب سے اعلی اور اشرف مرتبہ ہے، اور یہ اللہ کا اپنے بندوں پر خالص حق ہے‘‘ ۔(روضہ المحبین ونزھہ المشتاقین، ابن القیم الجوزی، ص۵۲)

عبد الرحمن بن قرادؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہؐ نے وضو کیا، تو صحابہ کرامؓ آپؐ کے وضو کے چھینٹے لے کر ملنے لگے، آپؐ نے ان سے پوچھا؟ ’’تمہیں کس چیز نے اس عمل پر آمادہ کیا؟ وہ بولے: اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت۔ آپ نے فرمایا! جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرے، یا اللہ اور رسولؐ اس سے محبت کریں، تو وہ جب بات کرے تو سچ بولے، اور جب اسے امانت دی جائے تو اسے ادا کرے، اور اپنے پڑوسی سے حسنِ سلوک کرے‘‘۔ (شعب الاعمان البھیقی، رقم ۱۴۳۹)۔

جیسا کہ علماء کے قول کے مطابق ایمان ساکت و جامد نہیں بلکہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے، اور اطاعت سے ایمان بڑھتا اور نافرمانی سے گھٹتا ہے، اسی طرح جب ایمان زیادہ ہوتا ہے تو اللہ کی محبت بھی بڑھ جاتی ہے، اور ایمان میں کمی ہو تو یہ محبت بھی گھٹ جاتی ہے۔کیونکہ محبت کا تعلق دل سے ہے، اس لئے اللہ جل شانہ کی محبت دل کے بڑے اعمال میں سے ہے، اور دل کا اللہ کی محبت سے بھر جانا ’’قلبِ سلیم‘‘ کو ملنے والا تحفہ ہے، کیونکہ اللہ کی محبت ہی وہ دوا ہے جو دل کو درست رکھتی ہے، حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’خبردار، انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست ہو گیا تو سارا جسم درست رہے گا، اور اگر وہ خراب ہو گیا تو سارا جسم خراب ہو جائے گا، جان لو کہ وہ دل ہے‘‘۔ (رواہ البخاری، ۵۲)۔

جب بندے میں اللہ کی محبت اعلی درجے پر پہنچ جائے تو وہ احسان کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے، پھر اس کے تمام اعضاء اللہ کی رضا کے راستے پر چل پڑتے ہیں، وہ اللہ ہی کی خاطر محبت کرتا ہے، اور اسی کی خاطر نفرت کرتا ہے، اللہ کی خاطر عطا کرتا اور منع کرتا ہے، اللہ کی خاطر دوستی کرتا ہے اور اسی کی خاطر دشمنی کرتا ہے۔

ایمان اور محبت کے درمیان تعلق کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تین صفات جس میں پائی گئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا، ۱۔ اللہ اور اس کا رسولؐ اسے باقی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہو جائیں، ۲۔ اور بندہ کسی سے محبت کرے تو محض اللہ کی خاطر کرے، ۳۔ اور وہ کفر کی جانب لوٹنا اسی طرح نا پسند کرے جس طرح وہ آگ میں جانا پسند نہیں کرتا‘‘۔ (رواہ مسلم، ۴۳)۔

سچی محبت

       سچی محبت یہ ہے کہ بندہ اپنا سب کچھ اپنے محبوب پر وار دے، اس کے پاس اپنا کچھ باقی نہ رہے، اللہ کی سچی اور حقیقی محبت یہ ہے کہ بندہ اس کی محبت کو سب سے آگے اور مقدم رکھے، اور باقی سب محبتیں اسی ایک محبت کے تابع اور ماتحت ہو جائیں، اسی میں بندے کی سعادت اور کامیابی ہے۔

جب اللہ تعالی کی محبت بندے کے دل میں جاگزیں ہو جائے تو وہ دیگر محبتوں کو محدود کر دیتی ہے، اور دل اس کے سامنے سپرانداز ہو جاتا ہے، اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی راہوں پر بھاگنے لگتا ہے، اور باقی سب محبتیں اس راہ میں حائل نہیں ہوتیں، خواہ وہ والدین ہوں یا بہن بھائی، اموال ہوں یا پر سکون گھر، ارشاد باری تعالی ہے!

’’اے نبیؐ کہہ دو، کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ (التوبہ، ۲۴)۔

الحبّ فی اللہ

     جب بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو وہ اللہ کی محبت میں بندوں سے بھی محبت کرتا ہے، اور صرف انسانوں ہی سے نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں سے بھی محبت کرتا ہے، اور ان سے حسد نہیں کرتا، اس کی مخلوقات سے محبت اس کے اور اللہ کے درمیان حجاب کو نہیں بڑھاتی بلکہ تعلق کو زود افزوں کرتی ہے، وہ انسانوں کی صلاحیتوں، ان کی اصلاح اور تقوی کی بنیاد پر محبت کرتا ہے، نہ کے مال اور دنیاوی مفادات کی بنا پر۔ اسے اہل ِ ایمان اور صاحبِ تقوی لوگوں سے محبت ہوتی ہے اور اللہ کے نافرمانوں، باغیوں اور طاغوت کے پیرو کاروں سے نفرت۔ اللہ کے خالص بندوں سے وہ بھی خالص محبت رکھتا ہے، اور مشرکوں اور کافروں سے اسے بھی نفرت اور بغض محسوس ہوتا ہے۔

اور بندے کو کسی انسان سے ایسی محبت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اس کے دل اور قلب و جوارح کو اللہ کی یاد سے غافل کر دے، بلکہ یہ اللہ سے محبت کا ہی حقیقی انداز ہے، کہ وہ اللہ کی خاطر محبت کرتا ہے تودوستی میں اس بڑی محبت کو نگاہ میں رکھتا ہے اور محب کے معاملے میں اخلاق کو اور بہتر بناتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے!

’’احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔ (البقرۃ، ۱۹۵)۔

’’اللہ ایسے بہت سے لوگ پیدا کر دے گا، جو اللہ کو محبوب ہوں گے، اور اللہ ان کو محبوب ہو گا‘‘۔ (المائدۃ، ۵۴)۔

احادیث کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو اہم امور کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اللہ سے محبت کو خاص اہمیت حاصل تھی، جیسے ؛ حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ فتح خیبر کے موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا!

’’ کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا، جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عطا فرمائے گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (متفق علیہ)۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا!

’’اللہ تعالی متقی، غنی اور ہلکے شخص (جو دوسروں کے لئے بوجھل نہ ہو) سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم، ۲۹۶۵)۔

اللہ سے محبت کی علامات:

محبت خوشبو کی مانند ہوتی ہے، یہ جہاں بھی ہو اپنے وجود کا احساس ضرور دلاتی ہے ، اللہ سے محبت کرنے والوں کی علامات درج ذیل ہیں:

۱۔ اللہ سے محبت کرنے والے اس کے اطاعت گزار اور فرمانبردار لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔

۲۔ اللہ کے دوستوں سے محبت کرتے ہیں۔

۳۔ اس کے نافرمانوں اور باغیوں سے نفرت کرتے ہیں، ان کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔

۴۔اس کے دین کا دفاع کرنے والوں کے مددگار ہوتے ہیں۔جتنی محبت شدید ہوتی ہے، اتنا ہی عمل میں مضبوطی آ جاتی ہے۔

اللہ سے محبت کے ذرائع

اللہ کی محبت حاصل کرنے کے ذرائع یہ ہیں:

۱۔ اللہ کی نعمتوں کو پہچاننا، اگرچہ ان کا شمار اس کے بس میں نہیں، مگر بندہ اس کی نعمتوں پر غور کرے۔

۲۔ اللہ تعالی کے اسمائے حسنہ کو جاننا، اس کی صفات اور افعال سے آگہی حاصل کرنا کیونکہ پہچان محبت کو بڑھاتی ہے، اور محبت عمل کو آسان بناتی ہے۔جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے اللہ تعالی اسے عزت دیتا ہے، اور اسے اپنی رحمت میں سے حصّہ عطا فرماتا ہے، اور جسے اللہ کی رحمت مل گئی اسے بڑا انعام مل گیا۔

۴۔ اللہ کی محبت مل جائے تو خواہشِ نفس پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔اللہ کی فرمانبرداری کے دائرے میں رہنا ، اللہ کے قرب کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔

۵۔ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا؛ محبت کرنے والا دل اپنے محبوب ہی کا تذکرہ کرتا رہتا ہے، اور یہ دلوں کے اطمینان کا اکسیر نسخہ ہے۔

اللہ سے محبت کے فوائد

اللہ تعالی کی محبت اس کے پسندہ کام کرنے اور نا پسندیدہ کام چھوڑ دینے کی ترغیب دلاتی ہے، اور دل کو ایمان کی لذت اور مٹھاس سے بھر دیتی ہے، اور دل سے ہر اس شے کی محبت نکال دیتی ہے جو اللہ کو نا پسند ہیں، اس محبت کی پکڑ جتنی شدید ہو گی بندہ اس راہ پر اسی قدر مضبوطی سے چلے گا۔جب اللہ کی محبت کمزور پڑتی ہے تو دل اس کی نافرمانی کی جانب آمادہ ہو جاتے ہیں۔

محبت بذات ِ خود ایک نگران کا کام کرتی ہے، جو اس کے دل اور بقیہ اعضاء کی نگرانی کرتی ہے کہ کسی سے معصیت کا ظہور نہ ہو۔

اللہ کی سچی محبت کبھی بھی اس کے احترام اور تعظیم سے خالی نہیں ہوتی، اسی لئے بندہ اللہ کی نافرمانی پر شرمساری محسوس کرتا ہے، اور اگر یہ شرم باقی نہ رہے تو اسے کچھ بھی کرنے میں عار محسوس نہیں ہوتی، اللہ کے بندے آگے بڑھ کر اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور عمل کو درست طریقے پر انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان کے نیک اعمال ضائع نہ ہو جائیں۔ بندے کا محبت میں ایسے مقام پر پہنچ جانا بھی اللہ ہی کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔

اگر اللہ کی محبت خشوع و خضوع سے خالی ہو تو یہ ایک ایسا دعوی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں، کیونکہ محبت کا دعوی عمل کی دلیل کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا، محبت وہی پائیدار اور اصل محبت ہے جس کے مطابق قول، عمل اور رویے کی شہادت بھی مل جائے۔جو شخص رسول اللہ ﷺ کا اتباع نہیں کرتا، وہ نہ اللہ سے محبت کرتا ہے نہ اسے اس دعوی کا حق ہے۔

اللہ سے محبت کے ثمرات

               اللہ تعالی سے محبت بندے پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے، جس کے ثمرات اسے دنیا و آخرت میں ملتے ہیں، بلکہ یہ ایسا عمل ہے جس کے ثمرات سب سے نمایاں ہیں، جب یہ محبت خالص ہو۔ اگر وہ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے بہت بڑے اعمال نہیں بھی انجام دیتا، لیکن اس کا قلب اللہ کی محبت سے پرُ ہے تو وہ دنیا میں بھی اس کے ثمرات سے فیض پائے گا، اور آخرت میں اللہ کا قرب پائے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریمؐ کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا: قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ؐ اس وقت نماز کے لئے کھڑے تھے، جب آپؐ نے نماز مکمل کر لی تو پوچھا: قیامت ے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟ وہ شخص بولا: میں ہوں یا رسول اللہ ﷺ۔ آپؐ نے پوچھا: تم نے اس کی تیاری کیا کی ہے؟ اس نے کہا: یا رسول اللہؐ میں نے اس کے لئے بہت نمازیں اور روزے تو جمع نہیں کئے، بس اتنا ہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت رکھتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: )آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اس نے محبت کی ہو گی، اور تم بھی اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم نے محبت کی ہو گی۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میرا نہیں خیال کہ مسلمان اسلام لانے کے بعد کسی اور چیز سے اتنا زیادہ خوش ہوئے ، جتنا اس بات سے ہو گئے‘‘۔(رواہ ابن حبّان فی صحیحہ، رقم ۱۴۷)

انسان اللہ تعالی سے جتنی محبت کرتا ہے اتنی ہی اس کی لذت اور مٹھاس پا لیتا ہے، اور جس کا دل اللہ کی محبت سے بھر جائے، اللہ اسے دوسروں کی محبت، ڈر اور توکل سے بے نیاز کر دیتا ہے، اور صرف اللہ کی محبت سے دلوں کو بے نیاز کرتی، خوف و رنج سے نجات دلاتی اور حاجتوں کو پورا کرتی اور فقر سے نکالتی ہے۔اللہ کی محبت کے بغیر اسے دنیا کی ہر نعمت بھی میسر آ جائے تو اس کا دل سکون اور اطمینان کی دولت سے خالی ہو گا۔اور کسی نعمت سے محرومی کی تکلیف اتنی شدید نہیں جتنی اللہ کی محبت سے محرومی کی ہے، کہ یہ محرومی اس کی روح کو مردہ کر دیتی ہے اور روح کی موت کسی بھی جسمانی تکلیف سے بڑی محرومی اور تکلیف ہے۔

پیارے نبیؐ نے اللہ کی محبت پانے کے لئے دعا سکھائی ہے:

(اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں، اور اس کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے، اور ایسے عمل سے محبت جو تیری محبت کے قریب کر دے۔)آمین۔

حصہ
mm
ڈاکٹر میمونہ حمزہ نے آزاد کشمیر یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات امتیازی پوزیشن میں مکمل کرنے کے بعد انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان و ادب میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ زمانہء طالب علمی سے ہی آپ کی ہلکی پھلکی تحریریں اور مضامین شائع ہونے لگیں۔ آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج مظفر آباد میں کچھ عرصہ تدریسی خدمات انجام دیں، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی میں اعزازی معلمہ کی حیثیت سے بھی کام کیا، علاوہ ازیں آپ طالب علمی دور ہی سے دعوت وتبلیغ اور تربیت کے نظام میں فعال رکن کی حیثیت سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۲۰۰۵ء سے کیا، ابتدا میں عرب دنیا کے بہترین شہ پاروں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا، ان میں افسانوں کا مجموعہ ’’سونے کا آدمی‘‘، عصرِ نبوی کے تاریخی ناول ’’نور اللہ‘‘ ، اخوان المسلمون پر مظالم کی ہولناک داستان ’’راہِ وفا کے مسافر‘‘ ، شامی جیلوں سے طالبہ ہبہ الدباغ کی نو سالہ قید کی خودنوشت ’’صرف پانچ منٹ‘‘ اورمصری اسلامی ادیب ڈاکٹر نجیب الکیلانی کی خود نوشت ’’لمحات من حیاتی‘‘ اور اسلامی موضوعات پر متعدد مقالہ جات شامل ہیں۔ ترجمہ نگاری کے علاوہ آپ نے اردو ادب میں اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کیا،آپ کے افسانے، انشائیے، سفرنامے اورمقالہ جات خواتین میگزین، جہادِ کشمیر اور بتول میں شائع ہوئے، آپ کے سفر ناموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جو قازقستان، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں آپ کے سفری مشاہدات پر مبنی ہے۔جسارت بلاگ کی مستقل لکھاری ہیں اور بچوں کے مجلہ ’’ساتھی ‘‘ میں عربی کہانیوں کے تراجم بھی لکھ رہی ہیں۔

2 تبصرے

  1. Hello, i read your blog occasionally and i own a similar one and i was just wondering if you get a lot of spam
    feedback? If so how do you stop it, any plugin or anything you can advise?
    I get so much lately it’s driving me crazy so any assistance is very much appreciated.

جواب چھوڑ دیں