آج انٹرویو سے واپسی پر ردا سوچوں میں گم تھی،آج بھی جاب کا کچھ نہ بنا، گھر کا خرچ بچوں کی فیس۔ ۔ ۔
کہ اچانک رکشہ سگنل پر رکا اور ایک بھکارن لڑکی کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی” باجی! اے باجی!کچھ پیسے دے دے کھانا کھاؤنگی”،ردا اپنی پریشانی میں تھی ،پیسے اور کھانے کے مطالبے نے اسے مزید پریشان سا کر دیا، اسے اس بھکارن میں اپنی بیٹیاں نظرآنے لگیں،رش کے باعث رکشہ تھوڑا آگے جاتے ہی پھر رک گیا،وہ کالی رنگت والی بھکارن لڑکی پھر اسکے رکشے کے پاس تقاضا کرتی آئی،”باجی اے باجی !کچھ پیسے دے دے کھانا کھاؤنگی”، کھانا کھانا ہے تجھے آبیٹھ میرے ساتھ میرے گھر چل میں کھانا کھلاؤنگی تجھے۔
ردا رسان سے کہنے لگی!”نہ باجی میں گھر نہیں جاؤنگی تیرے ساتھ تم لوگ کھانے کا لالچ دیکر گھر لیجاتے ہو اور ہمیں مارتے ہو اور ہم سے کام کراتے ہو ” میں کیوں کام کراؤنگی تجھ سے؟میرا کونسا بڑا مکان ہے؟میں تو خود کام کرتی ہوں ۔ باجی تجھے کیا کام کی ضرورت ہے؟ تو تو اتنی سوہنی ہے۔ اسکی بات ردا کے دل کو لگ گئی،کیا عورت کھلونا ہے یا کوئی شوپیس، جتنا خوبصورت اتنے مہنگے دام، خوبصورتی اور بدصورتی نےکلاس میں تقسیم کردیا۔ اتنے میں رش کم ہوا اور رکشہ یہ جا وہ جا۔
گھر پہنچ کر ردا اپنے کام میں لگ گئی، بچوں نے کھانے کا تقاضا کیا تو اسے وہ بھکارن یاد آئی، وہ بھوکی تھی کاش میں اسے کھانا دے پاتی،اسکے چہرے پر عجیب سی کشش تھی، ہو سکتا ہےکسی اچھے گھر کی بچی ہو؟ خبروں میں بھی تو آئے دن یہی دکھاتے ہیں، اغوا اور زیادتی کے واقعات اور سگنل پر مانگنے والوں کا اتنا رش اور وہ بھی چھوٹے چھوٹے بچے،چائلڈلیبر کے قوانین بنانے والےحکومتی اہلکار کہاں سو رہے ہیں؟ کیا انہیں سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے، پورا بیگار نیٹ ورک نظر نہیں آتا؟ یہ بچے کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں سے لائےجاتے ہیں؟ کس کی سرپرستی میں یہ گھناؤنا کاروبار ہورہا ہے؟
کیا ارباب اختیار جانتے بوجھتے حقیقت سے چشم پوشی برت رہے ہیں ؟یا ملکی حالات انکے اختیار سے باہر ہیں۔