تمہاری رہائی تک لڑنا ہے مجھے اے عافیہ
میری لڑائی ان زمینی خدائوں سے ہے
میں نے جب جب ظلم دیکھا آواز بلند کی ،ان کے خلاف ڈھال کی طرح کھڑی رہی، لوگوں کی نفرتیں برداشت کی ،تنقید کا سامنا کیا، یہاں تک کہ میرے عزیز دوستوں اور عزیزوقارب نے برا بھلا کہہ کر تعلق تک ختم کر دیا اور کہا کہ مسیحا بننے کا بڑا شوق ہے تو ضرور بنو مگر تمہاری وجہ سے ہم لوگ مشکل میں آجائیں گے، بہتر ہے کنارہ کشی اختیار کر لو ۔
ہمّت ٹوٹی آنسوں نے ساتھ نہیں چھوڑا وہ آنکھوں سے نکل کر رخسار تک آئے تو محسوس ہوا کہ ان کی زندگی بس یہی تک محدود ہے ، اس کے بعد انہیں فنا ہو جانا ہے ، مجھے ان آنسوؤں نے بھی ہمت دی کہ مجھے ہمت نہیں ہارنی اور ان کی طرح مختصر سفر طے کر کے ختم نہیں ہونا بس پھر کیا تھا دوبارہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئی اور 2015 سے لے کر اب تک مسلسل ظلم و جبر کے خلاف لڑ رہی ہو ں،ہمت ساتھ چھوڑتی ہیں مگر کچھ مخلص دوست مجھے پھر سے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں اور میں اپنے مشن کو آگے بڑھانے میں لگ جاتی ہو ۔
خیر تو بات چلی عافیہ صدیقی سے ، سیاسی حکمرانوں ڈکٹیٹرشپ کے ہاتھوں قوم کی بیٹی غیر لوگوں کے ہاتھوں میں دے دی گئی، منصوبہ تو ڈاکٹر عبدالقدیر کو بھی پاکستان سے رخصت کرکے امریکہ مردہ باد کے حوالے کرنے کا تھا ، مگر رب نے میرے ہیرو کو محفوظ رکھا، ڈاکٹر صاحب کی زندگی بھی اجیرن بنی ہوئی ہے، مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہماری نظروں کے سامنے ہے اور غم اس بات کا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ دشمن کے نرغے میں ۔انڈیا کا ایک گانا جس کے بول ۔
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں اس جملے کا مطلب صحیح طور پر آج سمجھ آگیا ہے، پاکستان میں جو سچ کہتا ہے وہ نامعلوم جگہ پر ،نامعلوم افراد کے ہاتھوں ،ہمیشہ کے لئے نامعلوم ہو جاتا ہے ۔ 24 جنوری 2019 کو کراچی یونیورسٹی سے این ای ڈی یونیورسٹی تک تعلیم سب کے لئے اور تعلیم کو عام کرو کے حوالے سے ایجوکیشنل واک کے نام سے ریلی نکالی گئی اس دن مصروفیات ہونے کے باوجود اس ریلی میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا ۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم ،آرمی چیف سے مطالبہ ہے کہ آپ نے جو وعدہ کیا تھا کہ !
قوم کی بیٹی آئے گی
عافیہ بہن کو ہم لائیں گے
کا وعدہ پورا کیا جائے اور جلد از جلد عافیہ کو پاکستان کی سرزمین پر لایا جائے۔ اس ریلی کی خاص بات اس میں کوئی اعلی عہدیداروں اور ملک کی معروف شخصیات موجود نہیں تھی، صرف عام پاکستانی، یونیورسٹی کے طلباوطالبات اور خاص کر کراچی یونیورسٹی کے سامنے رہنے والے خانہ بدوش اور گداگر کے بچے فہرست تھے، مختلف اورآرگنائزیشنز کے ہیڈ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی،انجینئر وسیم فاروقی ہیومن رائٹس اور انسانی حقوق کے سربراہ اسحاق شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ اسلامی کیڈٹ اسکول کے بچوں نے عافیہ کی رہائی کا مطالبہ اپنی پریڈ کے ذریعےخوبصورت انداز میں کیا۔ مگر مجھے اس ریلی میں ایک چیز سخت نا گوار گزری اور وہ یہ ہے کہ یہ واقعہ، ایک کیمرامین کے ذریعے پیش آیا، جب اسلامی کیڈٹ اسکول کے بچے پریڈ کے لئے آئے اسی دوران بھکاریوں کے بچے بھی ان کے ساتھ ریلی میں آگے بڑھ رہے تھے، اسی دوران کیمرہ مین نے بچوں کو دھتکار کر ان کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کردیا محض اس لیے کہ کیڈٹ اسکول کے بچوں کی تصاویر اور ویڈیو بنائی جا سکے۔ مگر یہ بچے بھی عافیہ کی رہائی کے لیے مطالبہ کر رہے تھے، ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے سے بہتر ہے ان کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ۔
ان بچوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ یہ ریلی میں کیوں موجود ہیں ؟؟؟یہ ریلی کس کیلئے نکالی گئی ہے؟ اس ریلی کو نکالنے کا کیا مطلب ہے ؟اور ہم اس میں کیوں موجود ہیں ؟اس کے باوجود ریلی میں خوشی خوشی بینر اٹھائے ریلی کے شرکاء میں شریک رہے ۔خیر اللہ سب کو ہدایت دیں انسانیت کو سمجھنے کی توفیق بھی ۔عافیہ آپ ہمارا قیمتی اثاثہ ہو اللہ پاک اس مشکل میں آپ کو صبر و تحمل سے کام لینے کی ہمت عطا کرے اور آپ کے گھر والوں کو صبرجمیل عطا فرمائے اللہ سے دعا ہے کہ یااللہ عافیہ کو جلد رہا کرکے پاکستانی سرزمین پر بھیج دیں، تاکہ ہم اپنی بہن سے جلد از جلد مل سکے ۔
تم لوٹ کر آؤ گی یقین ہے مجھے عافیہ
وہ دن دور نہیں اب، تم ہوگی سنگ ہمارے