باشعور قومیںاپنے محسنین کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ تحریک پاکستان کے بانیوں میں سے ایک اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی حقیقی معنوں میں پاکستان کے ہیرو اور محسن ہیں، جنہوں نے 1915ء میں پہلی مرتبہ اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کے افتتاحی اجلاس میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہندوستان کے شمالی علاقوں کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ آپ نے یہ نظریہ پیش کرتے ہوئے فرمایا’’ہندوستان کا شمالی منطقہ اسلامی علاقہ ہے ، ہم اسے اسلامی ریاست میں تبدیل کریں گے ، لیکن یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اس علاقے کے باشندے خود کو باقی ہندوستان سے منقطع کر لیں۔
اسلام اور خود ہمارے لئے بہتری اسی میں ہے کہ ہم ہندوستان سے جلد سے جلد جان چھڑا لیں‘‘ ۔ چودھری رحمت علی 16نومبر 1897ء میں مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گائوں مو ہراں میں ایک متوسط طبقے کے زمیندار حاجی شاہ گجر کے ہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم دینی مکتب سے حاصل کی ، جبکہ میٹرک اینگلو سنس کرت ہائی اسکول جالندھر سے کیا۔ 1914ء میں مزید تعلیم کیلئے لاہور تشریف لائے اور اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ اسلامیہ کالج کے مجلے ’’دی کریسنٹ ‘‘کے ایڈیٹر اور طلباء سے متعلق کئی بزموں کے عہدیدار رہے، دی فادرلینڈ آف پاک نیشن، مسلم ازم اور انڈس ازم کتابچے لکھے۔ دوران طالب علمی اسلامیہ کالج میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی کیونکہ وہ مولانا شبلی سے بہت متاثر تھے اور پھر اس بزم کے پلیٹ فارم سے1915ء میں تقسیم ہند کا نظریہ پیش کیا۔ 1918ء میں بی اے کرنے کے بعد جناب محمد دین فوق کے اخبار کشمیر گزٹ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنے کیئریر کا آغاز کیا ۔ 1928ء میں ایچی سن کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔کچھ عرصہ بعد انگلستان تشریف لے گئے جہاں کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔
اس طرح 1933ء میں انہوں نے برصغیر کے طلباء پر مشتمل ایک تنظیم پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ کے نام سے قائم کی۔ 1933 ء میں چودھری رحمت علی نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنا مشہور کتابچہ ’’ ناؤ آر نیور‘‘ ( اب یا کبھی نہیں) شائع کیا جس میں پہلی مرتبہ لفظ پاکستان استعمال کیا گیا، جو تحریک پاکستان کے قلعے کی آ ہنی دیوار ثابت ہوا ، اور برصغیر کے مسلمان و دیگر اقوام لفظ ’’پاکستان‘‘ سے آشنا ہوئے۔آپ کے مطابق آپ نے یہ نام پنجاب (پ) افغانیہ (ا) کشمیر (ک) سندھ (س) اور بلوچستان (تان) سے اخذ کیا، جہاں مسلمان 1200 سال سے آباد تھے، اسی وجہ سے انہیں دنیا کا پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان، بنگلستان اور عثمانستان کے نام سے تین ممالک کا نقشہ بھی پیش کیا۔پاکستان میں کشمیر، پنجاب ، دہلی سمیت، سرحد، بلوچستان اور سندھ شامل تھے۔ جبکہ بنگلستان میں بنگال، بہار اور آسام کے علاقے شامل تھے۔ اس کے علاوہ ریاست دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔ انہوں نے 1935ء میں ایک ہفت روزہ اخبار’’پاکستان‘‘ کیمبرج سے جاری کیا، اور اپنی آواز پہنچانے کے لئے جرمنی اور فرانس کا سفر کیا اور جرمنی کے ہٹلر سے انگریزوں کے خلاف مدد کا وعدہ لیا۔ اس کے علاوہ اسی سلسلہ میں امریکہ اور جاپان وغیرہ کے سفر بھی اختیار کئے۔ چودھری رحمت علی 23مارچ 1940 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے چو نتیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور تشریف لانا چاہتے تھے لیکن چند روز قبل خاکساروں کی فائرنگ کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب سکندر حیات نے چودھری رحمت علی کے پنجاب میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔
بالاآخر 14 اگست 1947ء کو چوہدری رحمت علی کے تجویز کردہ نام کو تعبیر مل گئی، پاکستان معرض وجود میں آگیا، مگرآپ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے مطمئن نہ تھے۔ اپریل 1948ء میں آپ پاکستان تشریف لائے لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگی قیادت کے روئیے سے مایوس ہوکر واپس انگلستان لوٹ گئے جہاں 29جنوری1951ء کو نمونیہ کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور 3 فروری کے دن شدید بیماری کی حالت میں کیمبرج کے ایک اسپتال میں غریب الوطنی، ناداری اور بیماری کے عالم میں وفات پائی۔ چودھری رحمت علی کا جسد خاکی انگلستان کے شہر کیمبرج کے قبرستان میں امانتًا دفن ہے۔ چوہدری رحمت علی عالم اسلام کی بڑی اہم شخصیت تھے ، ان کی لازوال خدمات ، محنت اور جدو جہد کی وجہ سے آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں مسلمان آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔