انسان کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ جب وہ کوئی کھیل دیکھ رہا ہو تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں مختلف طرز کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے تبصرے کرتا ہے۔ کبھی وہ تماشائی ہو تو کھلاڑیوں پر تنقید بھی کرتا ہے اور بعض اوقات تعریف بھی کرتا ہے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کسی ایک کھلاڑی سے فطری طور پہ محبت ہو جاتی ہے اور کچھ کھلاڑیوں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ وہ کھلاڑی جس سے محبت ہو وہ برا کھیل بھی پیش کرے تو یہ سب جیکٹو اپروچ والا تماشائی مائنڈ تک نہیں کرتا، مگر اس کے بر عکس جس کھلاڑی سے نفرت ہو وہ اچھا کھیل پیش کرے تو پھر یہی تماشائی داد دے گا، مگر عجیب طریقہ سے یا پھر طنزیہ انداز اختیار کرے گا۔ انہی تماشائیوں میں کچھ اس حد تک متشددہوتے ہیں کہ ان کے تبصرے سننے کو ہر کسی کا جی چاہ رہا ہوتا ہے۔وہ کھلاڑیوں پر لعن طعن بھی کرتے ہیں۔ وہ کھیل مکمل سمجھتے نہیں مگر تھوڑا بہت یعنی ادھورے علم والےہوتے ہیں اور یہ بھی دعوی کر دیتے ہیں کہ اگر اس کھلاڑی کی جگہ میں ہوتا تو یوں کھیلتا۔ مختلف طرح کے خیالی پلاؤ بھی پکا لیتے ہیں اور سننے والا اسے یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ حقیقت میں اس کھلاڑی سے بڑھ کر کھیلنا جانتا ہے۔
مگر جب اسی تماشائی کو کھلاڑی بنا کر میدان اترنے کو کہا جائے تو اس وقت اس کا منہ دیکھنے کے لائق ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا کہ میں اناڑی ہوں۔ مگر پھر بھی عزت کا سوال آئے تو وہ اپنی عزت بچانے میدان میں اتر بھی جاتا ہے۔ جب وہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتا تو طرح طرح کہ بہانے بنا کر حالات اور دوسرے ساتھیوں کو ذمہ دار اور قصوروار ٹھہرا دیتا ہے۔ مگر جو بھی ہو ایسا اناڑی اور ناقد شخص اپنے ذلت بھرے انجام کو ضرور پہنچتا ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر آپ کو سیاست میں نظر آ جائے تو بعید از قیاس بات نہیں کیونکہ پاکستانی سیاست بھی کسی کھیل سے کم نہیں۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان جو کہ مسٹر یو ٹرن کے نام سے بھی مشہورہو چکے ہیں، جب حکومت میں نہیں تھے تو بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آئے۔ کبھی آٹھ روپے پر یونٹ بجلی کے بل کو مہنگائی تصور کر کے آگ لگائی۔ کبھی سول نافرمانی پہ عوام کو اکسایا۔کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی۔ غریب کی امید بن کر سامنے آئے۔ وہ حقیقی معنوں میں عوامی لیڈر کہلوانے کے دعویدار تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت میں آئینگے تو عوام راج کرے گی، المختصر وہ پنجابی میں کہتے ہیں ”میں انج کر دیاں گا میں انج کر دیاں گا“۔ ۔ ۔ ۔ مگر آج صورتحال نا قابلِ برداشت ہے، مہنگائی اتنے عروج پہ ہےکہ غریب کا جینا محال ہے، متوسط طبقہ پریشان ہے۔
بات وہیں کی وہیں کہ وزیراعظم عمران خان اب یہ کہنے لگے ہیںکہ میری تنخواہ سے تو میرے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ گویا ان کا اپنا گزارا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ آج پاکستان میں آٹے کا بحران ہے۔ چینی کی قیمت 55 روپے سے 80 ہو گئی۔ سبزیوں اور دالوں کی قیمت میں ایک سال میں 83 فیصد اضافہ ہو چکا۔ پٹرول کی قیمت میں 22 روپے اضافہ ہوا۔گیس کی قیمت میں ناقابلِ بیان اضافہ کیا گیا۔ بجلی کا بل پر یونٹ 9روپے سے 16 روپے ہو گیا۔ یہ مہنگائی اور اس پہ ستم کہ جب یہ سوال ہو کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟
کیا آپ نا اہل ٹھہرے؟ کیا آپ کی حکمت عملی نا کام ہوئی؟ کیا آپ کرپٹ نکلے؟ تو جواب میں ”گھبرانا نہیں“ کی گولی عوام کو دے دی جاتی ہے اور اب تو کہتے ہیں کہ سکون قبر میں ہے۔ جب اس کھلاڑی کی کارکردگی کا تذکرہ ان کے عاشقوں سے کیا جائے تو اِسے وہ اپنے محبوب لیڈر کی ادا جان کر دفاع کرتے ہیں۔ بہرحال وہ غریب عوام آج خود پہ لعنت کرتی ہے کہ ہم نے عمران خان صاحب سے امید لگائی۔ المختصر آج اسی اناڑی کھلاڑی اور ناقد شخص کی طرح جو باہر بیٹھ کر تنقید کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں اس کھلاڑی کی جگہ ہوتا تو یوں کرتا، یہ وزیراعظم کی کرسی پہ براجمان ہستی خود کو اس وطن کے لیے ناگزیر سمجھ رہی ہے اس ہستی کا انجام بھی خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔