پاکستان کی موجودہ سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر قرار نہیں دی جاسکتی۔ دوست دشمن اور دشمن دوست بنتے دیر نہیں لگا کرتی۔ امریکا برے سے اچھا اور چین اچھے سے برا ہو سکتا ہے۔ دہشت گرد نفیس قرار دیئے جاسکتے ہیں اور لانے والے سازشی۔ این آر او نہیں دیتے دیتے سب کچھ این آر او کے حوالے کیا جاسکتا ہے اور اپنے ہی وزراء کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال باہر بھی کیا جاسکتا ہے۔ مختصر یہ کہ سیاست میں سب کچھ ممکن ہے کیونکہ جب بھی کسی کو اقتدار مل جاتا ہے، تو اس کے نزدیک سب کچھ اس کی کرسی بن جایا کرتی ہے اور وہ اس کو بچانے کی خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے۔
مشہور ہے کہ حبیب بینک پلازہ پر کوئی شخص چڑھ گیا اور اس نے شور مچایا کہ اگر اس کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا تو وہ اس کی چھت سے کود کر خود کو ہلاک کر لے گا۔ پوری دنیا جمع ہو گئی اور اسے یقین دلایا کہ وہ نیچے اتر آئے، اس کے مطالبے پر غور کیا جائے گا لیکن اس کا اسرار یہی تھا کہ جب تک بات نہیں مانی جائے گی ، وہ نہ صرف یہ کہ نیچے نہیں اترے گا بلکہ تاخیر ہوئی تو وہ اپنے آپ کو لازماً ہلاک کر لےگا۔ مجمع میں ایک عقل مند شخص کو نہ جانے کیا خیال آیا وہ ایک ایسے شخص کو لیکر آگیا جو پورے شہر میں پاگل مشہور تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک معمولی سا بلیڈ تھا۔ اس نے نیچے سے میگا فون پر کہا کہ نیچے اترتا ہے یا میں اس بلیڈ سے بلڈنگ کو کاٹ کر پوری عمارت ہی گرادوں۔ اوپر چڑھا ہوا شخص بڑی بد حواسی میں نیچے اترا تو اسے میڈیا والوں نے پکڑ لیا اور کہا کہ سیکڑوں لوگ تجھ سے نیچے اتر نے کیلئے کہہ رہے تھے اور تو ایک پاگل کی دھمکی پر نیچے اتر گیا۔ کیا ایک معمولی بلیڈ سے اتنی بلند اور مضبوط عمارت کاٹی جا سکتی ہے؟۔ اس نے کہا کہ بھائی پاگل کا کوئی بھروسہ نہیں وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
اقتدار انسان کو پاگل بنا کر رکھ دیا کرتا ہے اور پھر جو کچھ بھی اسے سمجھ میں آرہا ہوتا ہے اسے ایسا کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ پاگل پن کی وجہ سے اسے بد صورت، خوبصورت، دوست، دشمن اور دہشتگرد، نفیس دکھائی دے سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا خان صاحب کو در پیش ہے، اس لئے وہ ہر ایسی بات کر گزرتے دکھائی دے رہے ہیں، جس کے متعلق ان کے حامی و مخالف گمان بھی نہیں کر سکتے تھے۔
تازہ ترین خبر کے مطابق “وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مابین طویل ملاقات کے بعد وفاق اورسندھ حکومت کے مابین اختلافی امور کے حل میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، گورنرہاؤس میں ہونے والی وزیراعظم اوروزیراعلیٰ کی ملاقات میں صوبے میں نیا آئی جی سندھ لگانے سمیت دیگر کئی اہم امور پر اتفاق کرلیا گیا ہے، امکان ہے کہ وفاقی حکومت جلد صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ کے لیے بھجوائے گئے ناموں میں سے کسی ایک کوآئی جی سندھ تعینات کردے گی”۔ یاد رہے کہ یہ وہی سندھ حکومت ہے جو سخت معتوب تھی اور اس پر نہ صرف خرد برد کے سنگین الزامات تھے بلکہ کئی مرتبہ ایسا بھی محسوس ہوا کہ شاید ایسی کرپٹ حکومت کو چلتا کرکے سندھ میں گورنر راج ہی لگا دیا جائے۔ عمران خان صاحب کوئی پہلی مرتبہ کراچی (سندھ) کے دورے پر نہیں آئے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سندھ صوبے کے سب سے بڑے حکومتی عہدے پر بیٹھے فرد نے سندھ دھرتی کی مہمان نوازی کی روایت کا بھرم رکھا ہو اور ان کا شایانِ شان استقبال کیا ہو۔ ایسا ہی بے لچک رویہ ملک کے سربراہ کی جانب سے بھی رہا کہ وہ گورنر ہاؤس تو ضرور جاتے رہے لیکن کبھی صوبائی حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر صوبے اور ملک کیلئے کوئی بات چیت کرنا کبھی پسند نہیں کی۔ اچانک انھیں احساس ہوا کہ مراد علی شاہ تو بہت قابل، ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور لائق فائق انسان ہیں اور ان سے 18 ماہ دور رہ کر انھوں نے سندھ اور خود “اُن” کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ یہ وہی تو وزیر اعظم ہیں جو کہا کرتے تھے کہ پولیس کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے اور پورے ملک کی تباہی و بربادی کا سبب ہی یہ ہے کہ سیاستدان ماضی میں پولیس کو اپنا غلام بنا کر رکھتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پولیس اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دینے میں سخت ناکام رہی ہے۔
آج وہی خان صاحب جن کا دعویٰ تھا کہ وہ پولیس کو غیر سیاسی بنا کر چھوڑیں گے، انھوں نے نہ صرف اپنے اصول سے انحراف کیا بلکہ وزیر اعلیٰ سندھ کے آگے دونوں گھٹنے ٹیک کر اس بات کا اقرار کیا کہ “سائیں آپ ہی سندھ دھرتی کے مائی باپ ہیں”۔ جیسا آپ چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کو ایسی کیا مجبوری درپیش ہو گئی جس کی وجہ سے وہ وزیر اعلیٰ کی ہٹ دھرمی کے سامنے بے بسی کی ایک تصویر بنے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
پی پی سندھ میں گزشتہ 8 سال سے بھی زیادہ عرصے سے مسلسل حکومت میں ہے۔ ویسے تو درمیان کے چند برسوں کے علاوہ پی پی ہی اس صوبے کی قیادت کرتی رہی ہے لیکن اگر صوبے کی مجموعی صورت حال کو سامنے رکھا جائے تو پاکستان میں جتنے بھی چھوٹے بڑے شہر، گاؤں اور دیہات ہیں اس میں پسماندہ ترین شہر، گاؤں اور دیہات سندھ ہی کے ملیں گے۔ پی پی اب ویسے بھی سندھ ہی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی سندھ کے عوام عبرت کا ایک اعلیٰ نمونہ بنے ہوئے ہیں ،اس کے باوجود بھی اگر سندھ کے وزیر اعلیٰ سے ان کی کار کردگی کو بہتر بنانے کے احکامات دینے کی بجائے، ایک آئی جی کے تبادلے کیلئے ملاقات کرنے کی غرض سے اور ان کی ہٹ دھرمی کے سامنے بے کسی کی ایک تصویر بننے اور گھٹنے ٹیکنے کیلئے گئے تھے، تو پھر وہ کونسا نیا پاکستان ہے؟ جس کو نعرہ بلند کرتے وہ اور ان کے یوتھیے نہیں تھکتے۔
یہاں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ حالات انسان کو انسان نہیں رہنے دیا کرتے۔ دور کے دھول بہت سہانے سہی لیکن جب وہ کانوں کے قریب بجنے لگتے ہیں تو دل و دماغ کی رگیں پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر انسان انسان نہیں “وہ” بن جاتا ہے جو حبیب بینک پلازہ کو ایک بلیڈ سے بھی کاٹ پیٹ کر برابر کرنے کا باتیں کرنے لگتا ہے۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس ملاقات کا زیادہ فائدہ کس کو ہوگا؟ پورے سندھ کو چھوڑ کر اگر کراچی کی بنیاد پر ہی بات کی جائے تو کراچی شہر پر اس وقت پی ٹی آئی کا ہولڈ ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی واضح اکثریت پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ مرکز میں بھی جو پارٹی حکمران ہے وہ بھی پی ٹی آئی کی ہی ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کراچی کے ،پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے سارے ممبران بڑی حد تک خوش قسمت ہیں کہ ان کو مرکز کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ ان کی مزید خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ اگر ایم کیو ایم کے ممبران بھی ملا لئے جائیں، جو اب تک پی ٹی آئی کے ساتھ ہی ہیں تو کراچی کی سطح تک تو انھیں کسی قسم کی کوئی مشکل درپیش نہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر کراچی کا حال نہایت ابتر ہے تو پھر خواہ خان صاحب کسی کی کتنی ہی مسکہ پالش کر لیں، ان کی مقبولیت یا ان کے اقتدار کی مضبوطی کسی بھی طور ممکن ہی نہیں۔ ان کی یہ دبی دبی اور سہمی سہمی سی ملاقات ان کی غیر مقبولیت اور زوال کا سبب بنے گی اور پی پی کیلئے فتح و کامرانی کی نئی نئی راہیں کھولے گی۔ خان صاحب کی مضبوطی اسی میں مضمر ہے کہ ان کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی فعال ہوں اور کراچی کی ترقی و خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کریں۔
اپنے ہر اس عزم سے جس کی امیدیں وہ قوم کو دلاتے رہے ہیں، مسلسل روگردانی خان صاحب اور پی ٹی آئی کیلئے ایک بہت بڑا سوال بنتی جا رہی ہے۔ احتساب کے عمل کو ترک کردینا، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی ساری باتوں کو فراموش کرتے چلے جانا، امریکا سے قربت اور چین سے دوریاں بڑھانے کی پالیسیاں، کشمیر کو قصہ پارینہ بنادینے کا عمل اور پولیس جیسے ادارے کو سیاست دانوں کے ہاتھ میں تھمانے جیسا عمل، خان صاحب کو نہ صرف ان کے مقاصد سے بہت دور لے جائے گا بلکہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اس قسم کے سارے “یوٹرنز” ان کو عوام سے بھی دور کر سکتے ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ خان صاحب اپنے دعوئوں اور وعدوں کی جانب پلٹ جائیں، سندھ اور خاص طور سے کراچی کی جانب توجہ دیں۔ عوامی نمائندوں کو فعال بنائیں اور ان کو اس قابل کریں کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں اپنے رائے دہنگان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بن سکیں بصورت دیگر پسپائی پی پی کے فخر و غرور میں تو اضافے کا سبب بن سکتی ہے، سندھ کے عوام اور پی ٹی آئی کیلئے سود مند کسی صورت بھی نہیں ہو سکتی۔