اگر حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی جائے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ رسول اکرم کی محبت دین اسلام کی اصل بنیاد میں ہے۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کو معبود ماننے کے بعد نبی کو اس کا رسول بھی مانتا ہے درحقیقت نبی اکرم کی ذات اصل دین اور آپ سے محبت شرط ایمان ہے۔
اگر کوئی چاہتا ہے کہ اللہ اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے محبوب سے محبت کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’ جس نے میری محبت کا دعویٰ کیا اسے چاہیے کہ وہ آپ کی پیروی کرے‘‘۔ اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا، ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے دل میں آپ کے لیے محبت تمام قریبی رشتوں سے زیادہ ہو۔ اس سے مراد وہ جذباتی محبت نہیں جو انسان کو اپنی بیوی یا اولاد سے ہوتی ہے، کیونکہ جذبات اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں، اس سے ہٹ کر یہاں اختیاری محبت ہے۔ یہ سب سے زیادہ نبی اکرم سے ہونی چاہیے۔ اس محبت کا معیار قرآن وحدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگر آدمی کے سامنے کوئی ایسا موڑ آ جائے جہاں اس کو یہ فیصلہ کرنا ہو کہ بیوی بچوں کی محبت میں یہ کام کر دوں یا نبی کا حکم مانوں کیونکہ آپ نے اس کو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اگر انسان اس جگہ اس چیز کو اختیار کر لے جو نبی کا حکم ہے اور اس سے انکار کر دے جو بیوی بچوں کی خواہش ہے تو یہاں وہ تمام خلق سے زیادہ نبی اکرم سے محبت رکھتا ہے اور جس کے دل میں آپ کی محبت نہیں وہ عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے۔
’’نبی کا تعلق مومنوں کے ساتھ اس سے زیادہ ہے جتنا ان لوگوں کا اپنے آپ سے ہے‘‘۔(الاحزاب)
اس کے بعد تین مرتبہ فرمایا: خبردار جس کے دل میں میری محبت نہیں اس کا ایمان ہی نہیں۔(دلائل الخیرات)
وہ ذات جو اپنی امت کی بخشش کے لئے اللہ سے دعا گو ہو۔ اس سے محبت نہ کرنا ہمارے ایمان کو کامل نہیں کر سکتا۔ حب رسول کا اصل تقاضا ہے ’’اتباع رسول‘‘ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’اے نبیؐ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو (میری راہ پر چلو ) تاکہ اللہ تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے ،اور اللہ ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے (سورہ آل عمران آیت نمبر 31 )
اتباع کا مفہوم ہے ـ’’ محبت کے جذبے سے سر شار ہو کر پیروی کرنا ‘‘ اتباع کا تقاضا صرف یہ نہیں کہ حضرت محمدؐ کے قول پر عمل کیا جائے بلکہ ان کے فعل کی بھی پیروی جی جائے ۔ حب رسول کا اصل تقاضا ہی یہ ہے کہ ہماری زندگیا ں احکام نبیؐ کے تابع ہو جائیں ۔ ہماری زندگی نبی اکرم ؐ کے اسوہ حسنہ کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اسے ملک نصراللہ عزیز مرحوم نے ایک بڑے سادے انداز میں بیان کیا ہے ۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین سرفرازی میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی اور رسول اللہ ؐ کی سچی محبت کا تقاضا امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ اور جو تمہیں رسول اللہ دیں اس کو تھام لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ ‘‘ (الحشر ) اے ہمارے رب ! ہم کو اپنے رسول کی ایسی محبت نصیب فرماجو آپ کو پسند ہو ۔ (آمین)