پاکستان کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ غربت، بھوک، تنگی، افلاس ہر دوسرے گھر میں اپنے پنجے گاڑ چکی ہے۔کسی بھی ملک میں غربت کی بنیادی وجہ دولت کا بااثر لوگوں کی باندی بن جانا یا وسائل کا بہتر طریقے سے استعمال میں نا لانا ہے۔ بااثر افراد دولت کو اپنے گھر کی چوکھٹ تک محدود رکھتے ہیں اور نتیجتاً کمزور طبقہ جو کہ پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہا ہوتا ہے، مزید تنگیِ حالات کا شکار ہو جاتا ہے۔ ملک میں پھیلتے گندم کے بحران کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں ایک مزدور جو سارا دن مزدوری کر کے گھر واپس لوٹتا ہے تو مہنگائی کے اس دور میں اس کے پاس اتنے بھی پیسے موجود نہیں ہوتے کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے ایک وقت کے کھانے کا انتظام کر سکے۔ اقبال بھی فرماتے ہیں:
؎جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو
موجودہ حالات میں گندم اور آٹے کی قلت کی بنا پر بہت سے گھروں کے چولہوں میں شام کو آگ تک نہیں جلتی۔ آج کے دور میں ایک مزدور شخص جس کو اپنے بوڑھے والدین اور اپنے بیوی بچوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنا پڑتی ہے، شام کو گھر لوٹتے وقت بھی اگر اس کی جیب میں اتنے پیسے موجود نا ہوں کہ وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے ، تو اس کے پاس دو ہی راستے باقی بچتے ہیں، یا وہ باغی ہو جائے؟ اور لوٹ مار کرنا شروع کر دے یا غربت سے تنگ آ کراس دکھوں بھری زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرلے؟
ایک ایسا شخص جس کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں، اس کے لیے اخلاقیات اور صبر کے فلسفے سب بے کار محسوس ہوتے ہیں۔ ایسے ہزاروں واقعات سامنے آ چکے ہیں، کہ جہاں حالات سے تنگ آ کر خاندان کے دس افراد نے موت کو گلے لگا لیا یا کسی ماں نے غربت سے تنگ آ کر اپنے کم سن بچوں کو زہر دے دیا اور آخر میں خود بھی خود کشی کر لی۔ کئی ایسے واقعات کا بھی علم ہوا کہ جہاں اپنے خاندان کو فاقوں سے بچانے کے لیے ایک لڑکی نے اپنے آپ کو داؤ پر لگا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ جو معاشرہ غریب ہو، وہاں کی لڑکیاں مزدوری کرتی ہیں۔ پاکستان میں 20 سے 25 فیصد گھروں کے چولہے لڑکیوں کی کمائی سے جل رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک متوسط طبقے کے گھروں کے حالات جاننے پر معلوم ہوا کہ ان میں کئی گھر ایسے بھی تھے، جہاں پورا خاندان دو دو دن سے فاقے کر رہا تھا۔ ایسے میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر عوام اس طرح مفلوک الحال ہے تو وہاں کے حکمران اپنی عوام کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ وزیراعظم کے حالیہ بیان کے مطابق ”مجھے جو تنخواہ ملتی ہے، اس سے میرے گھر کے خرچے بھی پورے نہیں ہوتے”، اگر وزیراعظم کی تنخواہ بھی اس کے لیے ناکافی ہے تو سوچئے غریب عوام کا کیا حال ہو گا جن کی کوئی لگی بندھی تنخواہ بھی موجود نہیں ہے۔
یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تبدیلی، تبدیلی صرف ایک کھوکھلے نعرے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ ایوانوں میں بیٹھ کر کسی کو طنز کا نشانا بنانا بہت آسان ہے ، لیکن جب خود اس ذمہ داری کو نبھانا ہو تو عقل و علم کے سارے فلسفے غلط لگتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب صرف باتوں سے ہی کوئی ریاست، ریاستِ مدینہ نہیں بن جایا کرتی، اس کے لیے پہلے خود کو ریاستِ مدینہ کا شہری بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریاستِ مدینہ کے حکمران تو اس طرح کے تھے کہ اگر اُن کے دورِ حکومت میں کوئی جانور بھی بھوکا مر جاتا تو ان کو اس کے لیے بھی جواب دہ ہونے کا خوف، اُن کی راتوں کی نیند اُڑا دیتا تھا، لیکن آپ کی حکومت کس طرح کی حکومت ہے؟ کہ آپ کی عوام بھوک اور فاقوں سے مر رہی ہے اور یہاں کسی کو بھی جواب دہ ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے، بلکہ آپ کے وزیر مشیر اُلٹے سیدھے بیان دے کر غربت میں پسی عوام کے زخموں پر نمک لگانے کا کام کر رہے ہیں، کیا اس طرح کی معاشی ٹیم پر آپ کو فخر ہے؟
ایسا معاشرہ نہایت کمزور معاشرہ ہے جہاں غریب اور ارب پتی ساتھ ساتھ موجود ہوں۔ ایک محل نما گھر کی پشت پر جھونپڑی میں موجود لوگ سردی سے مر جائیں یا بھوک سے، محل میں محوِ خواب لوگ اپنی طاقت و دولت کے زُعم میں اس سے بھی لاعلم رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دولت کی تقسیم کا موجودہ نظام انتہائی غیر منصفانہ ہے جو امیروں کو مزید امیر اور غریبوں کو مزید غریب بناتا ہے۔ یہ ماننے میں آخر کیا دِقّت ہے کہ جب تک دولت کی یہ غیر منصفانہ تقسیم کا نظام نہیں بدلے گا، تب تک کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات
بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ” پاکستان مزدوروں کی خوشحالی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا”۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی معیشت مضبوط ہو تو ہمیں مزدوروں کے حالات میں بہتری کے لیے مناسب اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ کوئی بھی انسان اس وقت تک اپنے فرائض بہتر طریقے سے ادا نہیں کر سکے گا جب تک وہ آسودہ حال نہیں ہو گا۔