’’دو ٹکے کی تبدیلی ‘‘

اونٹ کے بارے میں سنا تھا کہ اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی ۔ ہم نے 72سالوں میں بہت سے حکمران دیکھے ہیں ، جن میں سول حاکم بھی تھے اور فوجی بھی لیکن یہ سب بجا طور پر کسی اونٹ کی طرح نہیں تھے کیونکہ ان کی کوئی نہ کوئی کل سیدھی نکل ہی آتی تھی۔ تماشے ماضی کے حکمرانوں نے بھی بہت لگائے لیکن اب کے تو ایسالگتا ہے کہ یہ حکومت خود مجسم تماشا ہے اور اس کی کوئی بھی کل سیدھی نظر نہیں آتی ہے ۔سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ اس حکومت کے اوپر کیا با ت کی جائے؟

یہ سوچ کر جان ہلکان ہوئی جاتی ہے کہ ہمارے ساتھ تبدیلی کے نام پر دھوکا ہوا ہے یا 72سال کی جرم ضعیفی کی سزا تحریک انصاف کی شکل میں ہمیں مرگ مفاجات کی صورت میں مل رہی ہے ۔ یہ کون لوگ ہیں جو جوتوں کو میز پر رکھ کر اپنے سیاسی حریفوں کو للکارتے ہیں؟ اور اپنے اس عمل پر شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتے ۔ یہ کیسے وزیرہیں ؟جو کہتے ہیں کہ روٹی کی قیمت نہیں بڑھنے دیں گے، لیکن نانبائی چاہیں تو روٹی کا وزن کم کرلیں۔ یہ کون سے دانشور ہیں؟ جن کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آٹا اس لیے نایاب ہوگیا کہ لوگ نومبر اور دسمبر میں زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں ۔ یہ کیسے غیر سنجیدہ معاونین ہیں جو عطیہ خون جیسے نیک کا م کو ایک شغل کے طور پر لیتے ہیں ؟ یہ کیسے سربراہ مملکت ہیں؟ جن کو اس بات کا بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کی رعایا کو روٹی کھانے کے لیے آٹا نہیں مل رہا ہے ۔ ہمارے پاس کبھی بھی ’’بقراط‘‘ اور’’ افلاطون‘‘ قسم کے حکمرانوں کی کمی نہیں رہی ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی ہمیں یہ نہیں سمجھایا تھا کہ سکون صرف قبر میں ہی ملتا ہے ۔آج کوئی شیخ ابراہم ذوق سا شاعر ہوتا تو ان کے سامنے اپنا یہ شعر ضرور رکھتا کہ !

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے 

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تحریک انصاف اور ا س کے قائدین کو شاید اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کو اپنی آخری امید سمجھ رکھا ہے ۔انسان شاید روٹی کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن امید کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے ۔ آپ کی باتوں نے ان کی آنکھوں میں چمک پیدا کی تھی۔ وہ اس فرسودہ گلے سڑے نظام سے دلبرداشتہ تھے۔ وہ آپ کو تبدیلی کا استعارہ سمجھتے تھے، لیکن آپ کو شاید احساس ہی نہیں کہ لوگ مایوس ہورہے ہیں اور ان کی امیدیں آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ آپ کے ماضی میں کیے گئے دعوے اور وعدے ریت کی دیوار ثابت ہورہے ہیں ۔آپ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں ۔

کیا آپ کو علم نہیں کہ آپ کو دیا جانے والا ووٹ امید کا تھااور آپ ان کو جواب میں مایوسی دے رہے ہیں ۔ ہر جانب سے ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ سانس لینا محال بن گیا ہے ۔ قوم کو ابھی ایک بحران سے نجات نہیں ملتی ہے کہ دوسرا بحران اس کے سر پر آن کھڑا ہوتا ہے۔ کبھی یہ آٹے کی تلاش میں ہوتے ہیں، تو کبھی گیس کے حصول کے لیے سی این جی اسٹیشنز پر لمبی قطاروں میں لگنا ان کا نصیب بن گیا ہے۔ بے روزگار ی کسی آسیب کی طرح نوجوانوں کا پیچھا کررہی ہے۔ مہنگائی کسی وبا کی طرح پھیل رہی ہے اور غربت کسی بلا کی شکل میں لوگوں کے بچوں کو کھارہی ہے۔ تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کو اس کی انتہائی بھیانک تعبیر نظر آناشروع ہوگئی ہے ۔

جناب وزیراعظم !پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے ۔وقت نہایت تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے۔ یہ حقیقت تسلیم ہےکہ تبدیلی ایک رات میں نہیں آتی، لیکن اس کی راہ تو متعین کی جاسکتی ہے۔ آپ کو آخر یہ کون سمجھائے؟ کہ تبدیلی باتوں سے نہیں عمل سے آتی ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر آپ کی تقریریں بے شک قوم کی آواز ہیں، لیکن یہ لوگوں کا پیٹ نہیں بھرسکتی ہیں۔ آپ لاکھ مہاتیر محمد اور طیب اردگان کے حوالے دیں لیکن اس بات کو بھی تو سمجھیں کہ ان رہنماؤں نے اپنے عوام کے مسائل حل کرکے ان کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ انہوںنے اپنے ملک کی معیشت بہتر کرنے کے لیے تگ و دو کی ہے اوراسی لیے آج جب یہ رہنما کسی بین الاقوامی فورم پر ڈنکے کی چوٹ پر بات کرتے ہیں، تو دنیا ان کو سنجیدگی کے ساتھ لیتی ہے۔ آپ کو یہ کون سمجھائے ؟کہ جب جیب خالی ہو تو آپ کی اچھی سے اچھی بات بھی ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے نکال دی جاتی ہے اور ملائشیاء سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آپ نے اپنی خالی جیب کو ٹٹولا بھی ضرور ہوگا ۔

کرپشن کے خلاف جنگ آپ کا سب سے بڑا نعرہ تھا ۔یہ آپ کی سیاست کا محور تھا۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ سابق حکمرانوں کی وجہ سے آپ کو مشکل حالات ملے ہیں۔ ملکی خزانہ بھی خالی ہے لیکن کچھ نہ کرتے کرپشن کا سدباب تو کرتے۔’’تبدیلی پسندوں ‘‘ کو یہاں سے تو کوئی خیر کی خبر ملتی لیکن ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے یہ دیپ بھی بجھادیا ہے۔ اپنے دائیں بائیں ہر حکومت میں شامل رہنے والے’’ نورتنوں ‘‘ کے ساتھ تبدیلی کی بات کرنا محض ایک مذاق ہی محسوس ہوتا ہے۔ عوام کی امیدوں کو ’’حریموں‘‘ کے ٹک ٹاک تلے نہ کچلیں۔ ان کے جذبات سے نہ کھیلیں ، جنہوںنے آپ کو اپنی آخری امید سمجھا تھا اور یہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ آپ کو یہ کون سمجھائے؟ کہ ریاست مدینہ تو بہت دور کی منزل ہے۔ آپ پاکستان کو پاکستان ہی بنادیں۔ ایک ایسا پاکستان جو آپ کے منشور میں موجود ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو کل آپ کا کوئی سیاسی مخالف آ پ سے کہہ رہا ہوگا کہ ’’ دیکھنے میں تو آپ بہت باشعور انسان لگتے ہیں لیکن یہاں آپ غلطی کر بیٹھے ،اس دوٹکے کی تبدیلی کے لیے آپ مجھے موروثی سیاست کا طعنہ دے رہے تھے ‘‘۔

جواب چھوڑ دیں