عاشر عباس کچھ عرصے سے وہیل چیئر پہ اجنبی چہروں کے رحم وکرم پہ پڑا، پچھتاوے کا زہر پی رہا تھا، پچھتاوے کبھی بستر پہ کانٹوں کی شکل دھار لیتے ہیں، تو کبھی فرش پہ پڑے انگاروں کی صورت دہکنے لگتے ہیں۔ جب پچھتاوے کا الاؤ دہکتا ہے، تو ماضی میں کیےہوئے کام دہوئیں کے عکس پہ رقص کرتے ہوئے مختلف شکلیں بنانے لگ جاتے ہیں۔
عاشر عباس کے ٹاک شوز ہائی ریٹنگ میں رہتے تھے ، وہ چینل مالکان کی ناک کا بال اور آنکھ کا تارہ تھا۔وہ نجی نیوز چینل کا ایک اہم ستون بن گیا، لفافہ لے کر کسی شیطان صفت کو فرشتہ بنا کر پیش کر دینا،کسی کے مخالف کے کہنے پہ کسی شریف آدمی کو بدیانت اور خبیث بنا کر پیش کر دینا، اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ بلیک میلنگ جیسے کاموں میں تو وہ یکتا تھا،کون تھا؟ جو اس کے شیطانی ہاتھ سے محفوظ تھا؟ اچانک چینل کی ٹی آر پی کم ہونے لگی، اسے اپنی حیثیت اور مرتبہ خطرے میں دکھائی دینے لگا، اس نے ٹی آر پی کو بحال بلکہ بڑھانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا، آج نیوز روم کاا سٹاف اور عاشر بہت پرجوش تھے۔ آج ایک بڑی خبر آنے والی تھی، سب تیار تھے خبر کا اندازہ سوائے عاشر کے کسی کو نہیں تھا، اچانک اس کا فون گنگنایا اورا سکرین پہ بیگم کا نام جگمگایا، اس نے کال اٹینڈ کی دوسری طرف سے اس کی بیوی اسے بتا رہی تھی کہ وہ شہر کے مشہور شاپنگ مال میں اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے شاپنگ کے لیے آئی ہے اور اسے بلارہی تھی، وہ بول رہی تھی اور عاشرکے ہاتھ سے موبائل گر چکا تھا ، پھر شہر کے ایک مشہور شاپنگ مال میں دھماکے کی خبر سب سے پہلے عاشر کے چینل نے چلا کر اپنی ٹی آر پی بڑھالی۔
بہت عمدہ تحریر ہے ۔ نجی ٹی وی چینلز میں ٹی آر پی دوڑ نے صحافتی اقدار کو بری طرح پامال کردیا ہے۔