چند دنوں کی بات ہے ایک گھر میں جانا ہوا۔رات کا وقت تھا۔ مکمل تاریکی چھا چکی تھی۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔ گھر کے کچن میں چند مرد اور خواتین تھیں۔ میں بھی ان کی محفل میں شامل ہو گیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد چائے چل رہی تھی۔ خوبصورت خوش مزاج باتیں ہو رہی تھیں، سب مسکرا رہے تھے کہ اتنے میں محفل میں بیٹھے ایک شخص نے عجیب داستاں سنانی شروع کر دی۔سب بڑے غور سے سننے لگے۔
یہ کہانی جدید زمانے کے شوہروں میں سے ایک کی تھی۔آجکل ”رن مرید“ کی اصطلاح بڑی مشہور ہے۔اس شوہر کے لیے اسی اصطلاح کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ مختصر کہانی یوں سنائی جارہی تھی کہ ایک مرد نے ایک ایسی لڑکی سے شادی کی، جو شادی کے بعد اس کے کنٹرول میں نہیں تھی یعنی باقی جدید دور کی عورتوں کی طرح اپنی مرضی زیادہ چلاتی تھی۔ ایک دن یوں ہوا کہ شوہر کہیں چلا گیا۔ شوہر کی غیر موجودگی میں ایک لڑکا اس لڑکی سے ملنے آیا۔ اس لڑکی کی غیر لڑکے سے دوستی تھی۔ جب شوہر گھر آیا تو اسے کسی ذریعے سے خبر لگ گئی۔ وہ آگ بگولاہو گیا۔ آج اس رن مرید نےہمت کی اور اپنی بیوی کو ایک زور دار طمانچہ رسید کر دیا۔ پھر اور پیٹنا شروع کر دیا۔یہ بات سنائی جا رہی تھی کہ غیر ارادی طور پہ ایک شعر میرے ذہن میں گردش کرنے لگا۔
عاشق کو جوتے پڑتے ہیں معشوق بدنام ہوتاہے
محبت کرنے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے
لیکن کہانی جوں جوں آگے بڑھتی گئی صورتحال مختلف ہوتی گئی۔ جب بیوی کے دوست لڑکے کو پتا چلا تو وہ فورا گھر آیا اور بیوی کے سامنے اسکے شوہر کی خوب پٹائی کی۔
ابھی یہ کہانی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اسی محفل میں بیٹھی ایک دوسری شخصیت نے ایک اور داستان شروع کر دی کہ قریب ہی گاؤں میں ایک لڑکی نے ایک لڑکے سے پسند کی شادی کی۔ رخصتی کے بعد شوہر اس لڑکی کو گھر لایا اور وہ سسر اور ساس کے ساتھ رہنے لگی۔ ایک دن یوں ہوا کہ لڑکی کھیت کے آخری کونے پہ موجود ایک سیب کے درخت سے سیب اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ نیچے جا گری ، پاس کوئی اپنا نہیں تھا، چنانچہ ایک اجنبی آدمی کی دور سے نظر پڑی اس نے اسے اٹھایا اور گھر پہنچایا۔ گھر پہنچتے ہی سسر نے بیٹے کے سامنے اسکی بیوی اور اپنی زخمی بہو کو پیٹنا شروع کر دیا، اس بات کو بنیاد بنا کر کہ وہ بغیر بتائے اور اجازت کے سیب اتارنے کیوں گئی؟ بیٹا پاس کھڑا تکتا رہا۔ یہ بات سنتےہی میرے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اگر یہ سسر کی اپنی بیٹی ہوتی تو کیا یونہی پیٹتا؟ اچانک مجھے ایک شاعر کا خوب صورت شعر یاد آیا!
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا
اب مرا دل انتہائی نرم پڑ رہا تھا۔مجھ پہ عجیب کیفیت طاری ہو چکی تھی۔ درد بھرے معاشرے کے یہ حقائق پہ مشتمل کہانیاں میں اور سننے کے اب قابل نہ تھا۔ مجھ سے صبر نہ ہو سکا میں اچانک اس محفل سے اٹھ گیا۔
باہر دیکھا تو ہلکی ہلکی چاندنی عجیب منظر پیش کر رہی تھی۔ میں فوراہی دوسرے کمرے کے ایک کونے میں کرسی پہ جا بیٹھا۔ مجھے خیال آیا کہ اس طرح کے واقعات تو آج کے دور میںہر دوسرے گھر میں ہوتے ہیں، مگر مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ گھروں میں بیٹھ کر ان درد بھری داستانوں کو مزے لے لے کر یہ لوگ بیان کرتےہیں اور یہ کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ ایسا ہی واقعہ کسی ممکنہ صورت میں ہمارے اپنے گھر میں بھی پیش آ سکتا ہے۔ چنانچہ میں خاموش ہو گیا اور منظر بھوپالی کا یہ شعر بار بار گنگناتا رہا
پڑھتے ہیں مزے لے کے فسادوں کی وہ خبریں
گھر اپنا جنھوں نے کبھی جلتے نہیں دیکھا