حسد قاتل ہے انسان کے لیے

یارو یہ ہی دوستی ہے قسمت سے جو ملی ہے۔ ہمارا گروپ اس گانے کو پورے زور و شور کے ساتھ یونیورسٹی میں گاتا رہتا تھا اور میں بس مسکرا کے رہ جاتا مجھے واقعی قسمت سے بہترین دوست ملے ہیں۔ لیکن دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ فہیم میرا کلاس فیلو تھا کالج اور پھر ایک ہی یونیورسٹی میں تعلیم کا سفر طے کیا۔کالج کے پہلے دن سے میری شخصیت کا جو تاثر قائم ہوا وہ فہیم کے دل میں رقابت کا جذبہ جگا گیا۔ ہوا یوں کے تعارفی کلاس میں ہی جب میری صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں تو اساتذہ وطلباء سمیت سب ہی مجھے داد دیئے بنا رہ نہ سکے۔اسکول لیول سے ہی میں اعلی ذہانت کے بل بوتے پرنصابی سرگرمیوں میں کئی فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑ چکا تھا۔

میری صلاحیتوں کا چرچہ زبان زد عام تھا، کالج کی کئی حسینائیں بھی میرے ساتھ دوستی کرنے کی خواہاں تھیں ، لیکن میں خواتین گرامی سے پرہیز کرنے والا بندہ ثابت ہوا تھا۔ فہیم کے تعارف میں بھی غیر معمولی پن تھا، لیکن میرے مقابلے میں اس کو بہت کم پذیرائی ملی تھی۔ ذہین لوگ ہمیشہ میرے ارد گرد رہے ہیں، جس کی بناء پر میں نے فہیم کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ مجھے حیرت کا جھٹکا تب لگا جب فہیم میرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر چلا گیا ، میں جو امن و آشتی کا قائل رہا ہوں، میرے لئے یہ چیز ناقابل قبول تھی، مگر میں انا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والوں میں سے نہیں ہوں، سو میں اپنی راہ چل دیا۔ میرے مقاصد تھے اور میری منزلیں تھیں آسماں کی وسعتیں۔ کلاسز شروع ہوتے ہی میں پڑھائی میں جت گیا، میرے سامنے بس ایک مقصد ہوتا تھا کسی کوگرائے بغیر آگے بڑھنا اور منزل کو حاصل کر لینا۔میری اس خوبی نے ہرمقام پر مجھے کامیاب کیا۔مجھے کسی بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی کون پڑھتا ہے؟ اور کون کلاسز بنک کرتا ہے؟مقام خیرت تو تب تھا جب فہیم نے سر راہ روک کر مجھ پر اپنے طنز کے تیر برسانے شروع کیے۔”احسن خان تم نے تو خودکو بڑا تیس مار خان سمجھ لیا ہے، کچھ زیادہ ہی پڑھاکو بننے کی کوشش کر رہے ہو، بس چند دن کی ہی بات ہے ، پھر تم بھی یوں ان سب کی طرح لڑکیوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر پھرو گے (اشارہ ان طلباء کی جانب تھا جو مقدس درس گاہوں کا تقدس پامال کرتے ہیں)۔

دیکھو فہیم میں کیا ہوں؟ اور کیا نہیں یہ میں خود بہتر جانتا ہوں اور تمھاری مزید کسی بھی بات کا جواب تمھیں میرے عمل اور کارکردگی سے مل جائے گا۔ میرا جواب سن کر وہ آگ بگولہ ہو گیا اور میں مزید کوئی بحث کئے بغیر کلاس روم کی طرف چل دیا۔ فہیم کی باتیں میرے ذہن میں گردش کرتی رہیں اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کے یہ کونسا جذبہ پل رہا ہے ؟ فہیم کے اندر جس نے اس کو اس حد تک مجھ سے متنفر کر دیا ہے۔

آگاہی کا در د ہوا، اور مجھے احساس ہوا کے یہ جذبہ تو انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی پیدا ہوا جب انسانوں کی ازلی دشمن نے اللہ رب کائنات کے حکم سے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور معتوب و ملعون ٹھرا۔ یہ جذبہ حسد ہی تھا، جس نے بھائی سے بھائی کا قتل کروایا۔ اسی جذبے نے انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے، حسد انسانیت کے لئے زہر قاتل کا کام سر انجام دے رہا ہے۔اللہ عزوجل کے پیارے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں ”حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔”

یہاں یہ بھی کہنا درست ہو گا حسد انسان کی زندگی کو بھی ایسے ہی کھا جاتا ہے، جیسے لکڑی آگ کو۔” یہ ہی حسد کا جذبہ فہیم کے اندر جنم لے کر تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا تھا۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا مجھے دھکا دیئے بغیر آگے بڑھتا۔ لیکن وہ حسد جیسی بیماری کا شکار ہو کر مجھے دنیا والوں کی نظروں میں گرانے کی کوشش میں لگ گیا۔ دن رات اس کا مقصد بس یہ ہی تھا کسی طرح مجھے سب کی نظروں سے گرا سکے۔مگر میرا رب چاہے جسے عطا کر دے۔ وہ مجھ سے چھیننا چاہتا تھا، میری کامیابیاں،میری عزتیں مگر خود سب گنوا بیٹھا۔

تعلیمی دور کے پہلے سال کے نتائج آ چکے تھے اور ہمیشہ کی طرح میں آسماں پر کمند ڈالنے کا آغاز کر چکا تھا۔ میرے گروپ کے ساتھیوں کے پاس بحث کرنے کے لئے کافی باتیں تھیں اور میں اس بحث سے لطف اندوز ہو رہا تھا، جب ایک ساتھی نے کلاس کے مجموعی نتیجے کی بات کی اور فہیم کا ذکر ہوا جو فیل ہوتے ہوتے بچ گیا تھا۔ میرے سب دوست دریا حیرت میں غوطہ زن تھے۔ فہیم اپنے ا سکول کا ذہین طالب علم رہا تھا، اس کا یوں ناکام ہونا ان سب کے لئے حیرت کا باعث بن رہا تھا۔میری سوچ کا پنچھی فہیم کی جانب پرواز کرنے لگا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیاکے جو انسان حسد کے باعث دوسروں سے ان کی خوشی، کامیابی، مقام اور عزت چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو وہ تہی دامن رہ جاتا ہے۔ میں فہیم سے بات کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔میں ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا کینٹین میں جب مجھے فہیم نظر آیا میں اٹھ کر اس کی ٹیبل کے پاس جا بیٹھا۔

تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کیوں آئے ہو؟ میرے پاس میرا مذاق اڑانے یا پھر اپنی پوزیشن کا رعب جمانے۔ ۔ ۔ ۔ ؟

نہیں فہیم میں صرف کچھ باتیں کرنے آیا ہوں ”میں تم سے بس یہ کہنا چاہتا ہوں تم مجھ سے اپنا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دو تو تم مجھ سے بھی بہتر نمبر لا سکتے ہو، میرے دوست مجھے تمھاری کامیابی سے دکھ یا جلن بالکل بھی نہیں ہو گی، میں حسد جیسی لعنتی بیماری سے ہمیشہ دور رہا ہوں۔”

ہو گیا تمھارا لیکچر یا اور کچھ رہتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ تم مجھے حاسد ثابت کرنے آئے ہو؟ یہاں خود کو کوئی توپ چیز سمجھتے ہو؟ جو مجھے درس دینے آ گئے مجھے کیا کرنا ہے اس کے لئے تمھارے مشورے کی ضرورت نہیں ہے مجھے، اب تم جا سکتے ہو۔”فہیم کا جواب سن کر میں دنگ رہ گیا۔

مجھے لگا جیسے حسد کی بیماری نے اس کے دل کو زنگ آلود کر دیا ہو، اچھائی اور برائی کی تمیز چھین لی ہواور شاید حسد جیسے گناہ نے اس کے دل پر مہر لگا دی ہو۔

جواب چھوڑ دیں