برسوں بعدگائوں جاناہوا۔گاؤں کی ہرچیزبدلی بدلی دکھائی دی۔گائوں پہنچ کر، گائوں ہمیں اورہم گائوں کودیکھتے رہ گئے ۔ ایک لمحے کے لئے یوں لگاکہ یہ وہ ہمارانہیں کہیں نئے پاکستان کاکوئی نیاگاؤں ہے، لیکن اللہ بھلاکرے ماماعبدالباری کاکہ جن کی آذان کی آوازسن کرہمیں یقین ہوگیاکہ یہ وہی ہماراوالاگائوں ہی ہے۔ پراس یقین محکم کے بعدآس پاس نظردوڑانے کے بعدبھی ہمیں گائوں کی اصلیت پرپھرشکوک وشبہات کے کٹھن مراحل سے گزرناپڑا۔
کیایہ وہی گائوں ہے؟ جس میں ہمارابچپن گزرا ۔ ۔؟نہیں نہیں۔ یہ ہماراوہ گائوں نہیں۔ ہماراوہ گائوں توگائوں کم اورجنت کا ٹکرازیادہ تھا۔وہاں توہرطرف لہلہاتے کھیت اورپھول ہی پھول ہواکرتے تھے۔جن کے خوشبوسونگھنے کے لئے انسان کیاکہ چرندوپرندبھی سات سمندرپارکرکے آتےتھے۔وہاں کے قبرستان میں وہ کھڈلوبابامدفون تھے کہ جن کے برکات اورکمالات کی وجہ سے دشمن بھی اس گائوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ ہمارے بڑے کہاکرتے تھے کہ چوری،ڈکیتی اوردیگرکسی بری نیت سے جنہوں نے بھی اس گائوں کی طرف آناچاہا۔وہ گائوں کی حدودمیں داخل ہونے سے پہلے ہی وقتی طورپراندھے ہوجاتے ۔ ایک عرصے تک ہمارایہ گائوں امن کاگہوارہ رہا۔
ہمارے وقت میںبھی اس گائوں میں ہرطرف امن ،محبت،اخوت اوربھائی چارے کی صدائیں چارسوگونجتی تھیں۔ چھوٹے تھے یابڑے ۔سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مقناطیس کی طرح جڑے ہوتے تھے۔ میں اور تو والے یہ الفاظ توکسی کویادبھی نہیں تھے۔ احترام،شرافت اوراخلاقیات کی حدیں توان پرتمام تھیں۔ اپنے سے عمرمیں ایک دن بھی کوئی بڑااگرکسی راستے پرجارہاہوتوچھوٹے فوراًراستہ ہی بدل دیتے۔اخوت اوربھائی چارے کایہ عالم تھاکہ بخارعبدالخالق کاکاکوہوتااوردردسے قلندرشاہ باجی اوراسحاق ماماتڑپ اٹھتے۔
ہمیں یادہے ایک باریاسراستادکی گائے گم ہوئی تھی اوراس کوڈھونڈنے کے لئے پوراگائوں نکل آیاتھا۔اس گائوں میں کوئی محرم تھااورنہ ہی کسی کاکسی سے کوئی پردہ۔گائوں میں رہنے والے سب مامے،چاچے،باجی ،باجیاں،نانی ،نانیاں،چاچی،چاچیاں،مامی،مامیاں اوردادے ہواکرتے تھے۔گائوں میں رہنے والی ہرلڑکی ہماری بہن اورہم سب کے بھائی ہوتے تھے۔ مٹی سے بنے گھروں اوران کے دیواروں کی لپائی کے لئے دوردرازسے مٹی لانی ہویاقریبی چشموں میں کپڑے دھونے ہوں حواکی ہربیٹی بے خوف ،بے فکراوربے پرواہ ہوکرجاتی۔
اس آزادانہ ماحول میں بھی حواکی کسی بیٹی پرکبھی کسی کی کوئی بری نظرنہیں پڑی۔اس وقت پردہ تونہیں تھالیکن لوگوں کی آنکھوں میں شرم کے سمندراوردلوں میں حیا تھی۔ایک دوسرے کے لئے دلوں میں وہ لازوال محبت اورعزت تھی کہ جس نے سب کوتسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرویاہواتھا۔شادی گائوں کے آخری کونے میں آبادخواجہ لالاکے بیٹے کی ہوتی اورڈھول باجے ہم بجاتے۔ہمارے سروں پرہرماہ لینٹرڈالنے والے عبدالرحمن ماماجب فوت ہوئے تواس دن پوراگائوں ایسارویاکہ کوئی آنکھ بھی خشک نہ رہی۔ہمیں یادہے ان کی وفات پرپھرتین دن تک ہم نے ایساسوگ منایاکہ جس طرح آج کسی سگے اورخونی رشتہ دارکی جدائی میں منایاجاتاہے۔
گائوں سے باہربھی کوئی شادی ہوتی یاکوئی غم۔راتیں ہم جاگ کرگزارتے۔اس وقت راتوں میں تاریکی نہیں تھی یادلوں کی روشنی زیادہ تھی کہ دوسروں کی خوشی اورغم میں رات کی تاریکی کابھی احساس نہیں ہوتاتھا۔ہمارے پڑوسی عبدالخالق کاکاتوسالہاسال گھرکے لان میں چارپائی بچھاکررات کوکھلے آسمان تلے خراٹے مارتے ۔ہمارے داداجان سیداکبرکی بھی لان میں چارپائی بچھاکرسونے کی عادت تھی۔کئی بارجنگلی ریچھ بھی ملاقات کے لئے آئے مگرپھربھی داداجان لان میں سونے سے بازنہیں آئے۔ڈراورخوف توان کوچھوکربھی نہیں گزراتھا۔وہ لوگ واقعی شیراورریچھ کوانگلی پرنچاتے تھے۔گھرکوکنڈی یاتالالگانے کاتواس وقت کوئی رواج ہی نہیں تھا۔کسی باجی،چاچی،مامی یانانی کوگائوں سے اگرکہیں دورجانابھی ہوتاتووہ گھرکوکھلاچھوڑکربچوں کوپڑوسیوںکے گھرپھینک جاتیں۔گائوں کے ہرگھرکواپناگھراورہرگھرکی ماں اپنی ماں تصورکی جاتی تھی۔
گھرسے نکل کراس وقت ایک منٹ میں سوچاچے،چاچیاں،مامے،مامیاںاورہزاروں مائیں ملتی تھیں ،اومیراسوہناپتر۔توکدھرتھا۔میراپترکہاں جارہاہے؟ وغیرہ وغیرہ کہہ کروہ فرط جذبات اورلازوال محبت میں اتنی چومیاں لے لیتے کہ انسان کے گال تک سرخ ہوجاتے۔ اس دن ہم خالہ زادبھائی مولاناخالدقاسمی کولیکرپورے گائوں پھرے۔مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک خوب گھومے مگرہمیں کہیں کوئی چاچا،چاچی،ماما،مامی ملی اورنہ ہی کوئی ماں۔
اس دن یقین ہواکہ شہرکی طرح اب گائوں میں بھی کوئی چاچے ،چاچیاں اورمامے مامیاں نہیں رہیں۔ گائوں میں پیار،محبت،شرم اورحیاوالے جولوگ تھے وہ بھی مٹی کے ساتھ مٹی ہوگئے۔ اب توگائوں میں کوئی پیارہے اورنہ ہی کوئی محبت۔بھائی بھائی کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے۔شرم وحیا،ادب واحترام کاتوجنازہ ہی اٹھ گیاہے۔جس گائوں کے بچے اورجوان سرجھکاکرشرافت اوراخلاقیات کے سائے میں پرورش پاتےتھے، آج اس گائوں کے بچے اورجوان فیس بک وسوشل میڈیاپردنیافتح کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
برسوں بعدگائوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورماڈرن قسم کے کئی لوگ توہمیں ملے مگرہمیں ہماراوہ گائوں نہیں ملا۔وہ لہلہاتے کھیت اورسرسبزمیدان جہاں ہم کرکٹ اورگولی ڈنڈاکھیلتے تھے، اب وہ بھی آثارقدیمہ کے کھنڈرات بن چکے ہیں ۔ وہ وادیاں اورآبادیاں جہاں پھول کھلتے تھے، اب وہاں بھی کانٹوں نے بچے دینے شروع کردیئے ہیں۔ وہ چشمے جہاں انسان اورجانورایک ساتھ پانی پیتے تھے اب وہاں بھی چندکالے نیلے پتھروں کے سواکچھ نہیں۔
ماماکے بخارپردردسے تڑپنے والے کاکاکے پوتے اورنواسے اب ماماکے پوتوں اورنواسوں کاخون چوسنے اورپینے کے لئے ہروقت بے تاب رہتے ہیں۔ پیار،محبت،اخوت،ادب اوراحترام کی جووراثت ہمارے بڑے چھوڑکرگئے تھے لگتاہے کہ ان کے جانے کے بعدگائوں والوں نے وہ وراثت بھی کسی قبرستان میں کہیں دفن کردی ہے۔ بڑے نہ رہے توپیچھے گائوں بھی نہ رہا۔
ماناکہ ماضی کے مقابلے میں آج ہم بہت خوشحال،تعلیم یافتہ اورباشعورہوچکے ہیں مگرحقیقت کی دنیامیں ہم چین ،سکون،پیار،محبت،اخوت اورادب واحترام سے دوربہت دورہوگئے ہیں۔ جدیدسائنس ،مفادپرستی اورمادہ پرستی کی وباء اورمہلک بیماری نے نہ صرف ہم سے ہماراکل بلکہ جنت کاوہ ٹکراہمارا،گائوں،بھی چھین لیاہے۔ نہ ہم پہلے والے رہے اورنہ ہی ہماراگائوں۔ آج اس ملک میں شائدہی کوئی گائوں ایساہوکہ جہاں انسان اورجانورایک گھاٹ پرپانی پیتے ہوں ۔
گائوں کے جوحالات ہوتے تھے۔لوگوں کاآپس میں پیارومحبت کاجورشتہ ہوتاتھا۔ایک دوسرے کے لئے آنکھوں میں جوشرم وحیااوردلوں میں جوتڑپ ہوتی تھی اب وہ سب چیزیں اورباتیں صرف وصرف قصے وکہانیوں اورکتابوں تک محدودہوکررہ گئی ہیں۔ شہرتوہمیں بہت مل جائیں گے مگرگائوں ۔ ۔؟ وہ توایک ہی تھاجوغالباًاب گائوں نہیں رہا۔