یہ ہمارے روز کا معمول تھا۔ رمشہ اور میں مغرب کے بعد ٹی وی کھول کر بیٹھ جاتے۔میں رات کے لیے سبزی بناتی اور رمشہ ٹی وی پر کچھ لگاتی۔آج ڈرامہ ختم ہونے پر رمشہ نے دوسرا چینل نہ لگایا، بلکہ ریموٹ کا بٹن دبایا اور ٹی وی بند کرکے سوچنے لگی ۔پھر بولی” اماں!” میں نے مٹر چھیلتے ہوئے کہا۔”ہمم بولو؟”۔کہنے لگی “اماں یار میرے پاس تم ہو ڈرامے میں کاش اگر دانش مہوش کو معاف کردے۔اگر غلطی ہوگئی تو کیا ہوا؟ اب پچھتا تو رہی ہے ناں۔ تھوڑا دل بڑا کرکے معاف کردے۔مگر مرد کی انا ختم نہیں ہوتی!
میں نے کہا۔بیٹا طلاق ہو جانے کے بعد عورت یا مرد تلافی کرکے۔ معافیاں مانگ کر۔پچھتا کر ایک دوسرے کی قدر جان کر۔دل نرم ہونے پر۔ناراضگی ختم کرکے تلخیاں مٹاکر۔آپس میں ایک دوسرے سے صلح نہیں کرسکتے۔اور بیٹا یہ غلطی نہیں، زنا ہےاور زنا کوئی غلطی نہیں۔بلکہ گناہ ہے ۔
میں رمشہ کو سمجھا کر یہ سوچنے لگی کہ کیوں ہمارے ٹی وی رائٹرز ا ن حدود پر چوٹ لگارہے ہیں۔آج رمشہ جیسے کتنے ہی معصوم دماغ یہ جملہ سن کر کہ” ایک بار اپنی بیوی کی بے وفائی کو معاف کرنے کی ہمت تو کرو۔کوئی تو ہو جو عورت کو بھی معاف کر دیتا ہو۔”
اپنے ذہنوں میں کیا نظریات تخلیق کررہے ہیں۔۔؟ اس عورت کو بیوی کا رتبہ دیا جارہا ہے جو طلاق لے کر یہ رتبہ ختم کر چکی ہے اور زنا جیسے صریح جرم کو محض بے وفائی کہہ کر معافی کی درخواستیں کی جارہی ہیں۔
کیا زنا جیسے عمل کی یوں عام معافی ہے؟ ؟یا یہ کوئی قابل مذمت جرم ہی نہیں۔۔۔؟
کیا ہمارے پاس کہانیاں ختم ہوگئی ہیں؟ جن پر ڈراموں کو تشکیل دیا جانا چاہیے؟
کیا ان ڈراموں کو کسی مثبت سوچ کا ذریعہ نہیں بنا سکتے؟
کیوں ہمارے ٹی وی چینلز ہماری تہذیبی،ثقافتی اور اسلامی اقدار کے خلاف پلاٹ بنارہے ہیں؟جو عوام میں منفی سوچ پیدا کررہےہیں۔خدارا ایسے ڈراموں کی تشہیر روکیں۔جو ذہنوں کو کشمکش میں مبتلا کرکے غلط پہلو کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
عمدہ تحریر