تعلیم انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ یہی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس کے سبب حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ۔ اور انسان نے اس کائنات کو مسخر کیا۔ زمانہ قدیم سے انسان تعلیم کی جستجو میں رہا، دور دراز کے سفر اختیار کیے اور اپنا وقت اور مال علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے صرف کیا۔
زمانہ جديد میں تعلیم ایک نیرنگ کی شکل اختیار کر گئی ہے، جس کے فسوں کو عجائبات زمانہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ تعلیم کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ان گنت پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کو مدنظر رکھنا انتہائی اہم ہے۔ جس پر ماہرین تعلیم اپنے علم اور تجربہ کی روشنی میں طریقہ کار وضع کرتے ہیں اور اپنی سفارشات پیش کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ نصاب تعلیم انہی ماہرانہ آراء کی روشنی میں دور جدید کی ضروریات سے مکمل ہم آہنگ ہے اور تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم کی تکمیل پانے والے طلباء عملی زندگی میں قدم رکھنے کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں۔
ایک اہم پہلو جو توجہ طلب ہے وہ نظام ہائے تعلیم میں تنوع ہے جو معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا بھی سبب بنتا ہے اور تعلیمی اداروں اور نصاب کو درست انداز میں سمجھنے میں بھی رکاوٹ بنتا ہے۔ تاہم اس امر کو نظرانداز بھی کیا جا سکتا ہے۔ قومی سطح پر ہر درجے اور تعلیمی سال کے لیے ایک خاص کریکولم مہیا کیا جاتا ہے جس کے مطابق مختلف طباعتی (Publishing) ادارے کتب تیار کرتے ہیں جن میں کافی ورائٹی دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ مجموعی طور پر ایک خاص تعلیمی سال کی تکمیل کے بعد طلباء کی تعلیمی اہلیت اور استعداد متساوی (equivalent) ہوتی ہے جو فرق ہم محسوس کرتے ہیں وہ محض ایک احساس کے سبب ہے یا طریقہ تدريس کے مختلف ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ تعلیم انسانی رویوں کی تبدیلی اور ذہنی تربیت کا نام ہے۔ یہ عمل وقت طلب ہے مگر والدین بچے میں فوری تبدیلی چاہتے ہیں اور بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ جو علم و تجربہ انھوں نے اتنی عمر گزر جانے کے بعد حاصل کیا ہے کیوں کمسن بچوں کو حاصل ہو سکتا ہے؟
دوسری غلطی بچوں میں موازنہ کرنا ہے۔ اکثر اوقات والدین اپنے بچوں کا ان کے دوستوں یا ان کے ہم عمر دیگر بچوں سے موازنہ کرتے ہیں۔ بعض صورتوں میں تو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں سے کہتے ہیں کہ تمہاری عمر میں میں یوں کر لیا کرتا تھا اور فلاں کام میں ماہر تھا ایک تم ہو کہ ایسا کوئی کمال تم میں نہیں۔ اس پر ایک لطیفہ پڑھیں یقیناً آپ محظوظ بھی ہوں گے اور بات سمجھنے میں آسانی بھی ہو گی۔
ایک والد جو بچے کی تعلیمی صورتحال سے خاصے فکرمند تھے بچے سے گویا ہوئے :” قائد اعظم محمد علی جناح جب تمہاری عمر میں تھے تو میٹرک کر چکے تھے۔”
بچے نے برجستہ جواب دیا :”جب قائد اعظم آپ کی عمر میں تھے تو انھوں نے ایک قوم کو آزادی دلا دی تھی۔ آپ نے کیا کیا ہے؟ “
تیسری اہم بات والدین کی طرف سے بچوں کی حد سے زیادہ معاونت ہے۔ جب والدین بچے کو کوئی بھی کام کرنے کو دیتے ہیں تو پہلے خوب تسلی سے لیکچر دیتے ہیں اور پھر بچے کو اپنی مرضی سے کام نہیں کرنے دیتے بلکہ بار بار مداخلت کرتے ہیں۔ جان لیں کہ اس طرح سے آپ بچے کی صلاحیتوں کو کچل رہے ہیں، آپ کی معاونت سے تو بچہ فوراً بہترین کام کر سکے گا مگر خود سے کچھ بھی کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا۔ لہذا بچے سے معلوم کریں کہ وہ کیا جانتا ہے ؟ اور چیزوں کو کس انداز سے سمجھتا ہے؟ اور اسے آزادانہ کام کرنے دیں اور مداخلت سے اجتناب کریں۔ جب بچہ بے بس نظر آئے تو اس کا حوصلہ بڑھائیں کہ تم کر سکتے ہو، کوشش کرو، مجھے تم پر اعتماد ہے۔ بچے کو آزادی کا احساس دیں اور جو وہ کر سکتا ہے اسے کرنے دیں اس سے اس میں اعتماد (confidence) آئے گا اور ذہنی استعداد میں اضافہ ہو گا۔
ایک اور سبب بچوں پر حد سے زیادہ کام کا بوجھ اور طویل تدریسی اوقات بھی ہیں۔ دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر بہت سے والدین خیال کرتے ہیں کہ بچے کو دن بھر پڑھتے رہنا چاہیے تب ہی وہ زمانے کے ساتھ چلنے کے قابل ہو سکے گا۔ یاد رکھیں کہ تعلیم کا مقصد محض کتابی کیڑے پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ انسانیت کی تعمیر ہے۔ بچے کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ مناسب جسمانی ورزش اور کھیل کود بھی اہم ہیں۔ کھیل کود نہ صرف بچے کو چاک و چوبند بناتے ہیں بلکہ ذہن کو بھی صحت دیتے ہیں اور صلاحیتوں کوبھی نکھارتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے لیے فکرمند ضرور ہوں، مگر افراط و تفریط سے بچنا بھی ضروری اور اہم ہے۔ حد سے زیادہ فکر بچے کی ذہنی صلاحیتوں اور شخصیت کے لیے زہر قاتل ہے ، جس سے یہ یکسر ختم ہو کر رہ جائیں گے۔ بچوں کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہ کریں بلکہ مناسب ہدایات دینے کے بعد آزادانہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا موقع دیں اور فطری طور پر ایک نئی شخصیت کی تعمیر میں معاونت کریں ۔