پریشان حال لوگوں کیساتھ ہمدردی، محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس اور ربّ تعالیٰ کو راضی کرنے کانسخہ بتایا گیاہے۔
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورۃ البقرۃآیت177)۔
قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ البقرہ ہی میں ارشاد ہے’’ (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ تعالیٰ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ آیت 215)
سماجی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوری کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے۔دین اسلام سراسرخیر خواہی کا مذہب ہے، اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیاگیا ہے۔ اور دوسروں کی خیر خواہی اور مدد سے جو حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے وہ اطمنان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے ۔
محسن انسانیت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپ کے پاس آئی ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنیں اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر مطمئن کر کے بھیجا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کیلئے میں مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی فرمائے گا۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے خادم (محتاج )تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کردیا ہے۔پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جو کھانا خودکھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور اس سے ایسی مشقت نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپر د کر ے تو خود بھی اس کی مدد کر ے۔ (بخاری ومسلم)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے یقینا صدقہ اللہ ربّ العزت کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اوربری موت کو دور کرتا ہے۔ ‘‘ (ترمذی)
لیکن آج ہم دیکھیں اسلامی کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر ہمارا طرز زندگی، ہمارا طرز معاشرت بہت عجیب سا ہوگیا ہے، بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں ، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے ۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بچے روٹی کو ترستے ہیں اور ہم اپنے بچے پر ضرورت سے زائد خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں اس بے حسی اور بے جا اصرا ف پر شرمندگی بھی نہیں ۔ ہمیں فلاح انسانیت کے لئے اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا ۔
جیسا کہ صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے کہنے پر اپنی جان ومال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیا ر رہتے تھے، اسی طرح آج ہمیں بھی اسلامی تعلیمات پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ رشتہ داروں ، غرباء و مساکین ، ہمسایوں اور ملازمین کے ساتھ ہمارا برتاؤ کیسا ہے ۔ کہیں ہم اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے جہنم کا ایدھن بننے کی تیار ی تو نہیں کررہے ۔ آج ہمیں خود کو نکھارنے ، اور اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں ، کیوں نہ دوسروں کے لئے جیا جائے ، دوسروں کی مشکلات ومسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بٹایا جائے ۔ ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے، کسی کی مشکل آسان ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کا علاج ہوسکتا ہے ، کسی کے حصول رزق میں معاونت ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کی بیٹی کی شادی ہوسکتی ہے ، کسی کے بچوں کا طرز زندگی بہتر ہوسکتا ہے ، کسی کو حصول علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے لئے باعث اعزاز اور باعث راحت ہے ۔لہٰذا ہمیں زندگی کو اس انداز سے گزارنا چاہیے تاکہ دین و دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ قلبی اطمینان بھی ہمیں حاصل ہو۔