کفران نعمت ہے تیری یہ ادا

عرشِ خداوندی کو فرشتوں کا گھر کہا جاتا ہے۔انسان کی تخلیق سے قبل ابلیس نامی فرشتے کو اہلِ نور کا استاد مانا جاتا تھا۔عبادت و ریاضت میں کوئی اُس کا ثانی نہ تھا۔زہد و تقویٰ میں کوئی اُس سے آگے قدم نہ بڑھا سکتا تھا۔حکمت و دانشوری میں بھی اُسے کمال حاصل تھا۔استاد ابلیس عزت و تکریم کے ایسے درجے پر فائز تھا جہاں پہلے آسمان والے اُسے عابد کہتے جبکہ دوسرے آسمان پر زاہد، تیسرے آسمان پر عارف، چوتھے آسمان پر ولی، پانچویں آسمان پر تقی، چھٹے آسمان پر خاشع اور ساتویں آسمان پر عزازیل کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ ابلیس کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا مگر وہ رب جب نوازتا ہے تو آزماتا بھی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے عزازیل کو تین عین عطا کیے تھے مگر ایک کمی رکھ دی گئی تھی جس کے سبب آزمائش کے سفر کی ابتداء ہوئی۔

ایک روز عزازیل لوحِ محفوظ پر دیکھتا ہے کہ ایک عبارت تحریر کی گئی ہے جس کے الفاظ تھے:

میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔

اس عبارت کو پڑھتے ہی عزازیل غالباً دو ہزار سال تک روتا رہا اور بارگاہِ الہیٰ میں حاضر ہوکر دریافت کرنے لگا کہ اے رب العالمین! یہ شیطان الرجیم کون ہوگا ؟ جس سے پناہ مانگی جائے گی؟ اللہ نے عرض کیا! ہمارا ایک ایسا بندہ جسے ہر نعمت سے سرفراز کیا جائے گا مگر ایک حکم نہ ماننے کی وجہ سے مردود ہوجائے گا۔عزازیل نے خواہش کی کہ میں اس ملعون کو دیکھنا چاہتا ہوں، جس پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عرض کیا گیا کہ تُو جلد اسے دیکھے گا۔ عزازیل ہر لمحے اسی سوچ میں غمگین رہتا کہ آخر کون ملعون ہوگا جو خدا کا حکم ماننے سے انکار کرنے کی جرات کرے گا اور اس سے پناہ بھی مانگی جائے گی۔اس خوف سے وہ مزید عبادت اور توبہ میں مصروف رہنے لگا یہاں تک کہ ہزار ہا سال بیت گئے جب ایک روز عزازیل کو معلوم ہوا کہ افلاک پر ایک پُتلا تیار کیا جارہا ہے جس کی مٹی زمین کے مختلف مقامات سے لی گئی اور ربِ ذوالجلال کی قدرت نے چار عناصر یعنی ہوا،آگ،پانی اور مٹی کو یکجا کردیا جس کے نتیجے میں آدم علیہ السلام کا پُتلا پیش کیا گیا۔

(بحوالہ: تفسیر دار المنثور، جلال الدین سیوطی)

جب مٹی پختگی اختیار کرکے کھنکھنانے لگی تو ربِ تعالیٰ کی جانب سے جسدِ خاکی میں روح پھونک دی گئی جس کے بعد مٹی کا پُتلہ یک بیک عقل و شعور اور فہم و ادراک رکھنے والا انسان بن گیا۔پھر اللہ نے تمام فرشتوں کو اپنی اشرف مخلوق سے آشنا کروایا۔ اُس کی تمام خصوصیات بیان کرکے اللہ نے اہلِ عرش کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرے۔جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ فرماتا ہے:

”اور ہم نے تمہیں پیدا کیا، پھر تمہاری صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔

(الاعراف:۱۱)

ابلیس نے اپنے غرور و تکبر اور حسد کی آگ میں جُھکنے سے انکار کردیا۔ابلیس کے امتحان و آزمائش کے لیے اللہ نے اس سے سوال کیا:

اللہ نے کہا: ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا؟

(الحجر:۲۳)

اس نے کہا: میں ایسا گرا ہوا نہیں ہوں کہ ایک ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔

                      (الحجر:۳۳)

فرمایا کہ تو یہاں سے نکل جا کہ تو مردود ہے۔اور بیشک تجھ پر قیامت تک لعنت ہے۔

(الحجر:۴۳،۵۳)

جنانچہ ابلیس کو ملعون کرکے جنت سے نکال دیا گیا اور بزرگی و برتری کا مرتبہ بھی چھین لیا گیا۔ ابلیس عابد بھی تھا، عارف بھی اور عزازیل بھی تھا۔مگر وہ عاشق نہ تھا۔ جب اللہ نے اشرف مخلوق سے آشنا کرواتے ہوئے فرمایا کہ انسان مجھ سے ”عشق” کرے گا اور یہی عشق اُسے میرے تک لے آئے گا تو عزازیل سمیت تمام فرشتے حیران ہوگئے۔ انسان کی صفات سے قائل ہوتے ہوئے فرشتے جُھک گئے مگر ابلیس نے پہلے تکبر کیا کہ وہ کسی مخلوق کے آگے نہیں جُھکے گا۔ پھر اُس نے حسد کیا کہ کوئی اور مخلوق مجھ پر برتری کیسے لے سکتی ہے؟ مجھے یہ درجہ عطا کیوں نہیں کیا گیا؟

ابلیس نے جنت سے ملعون ہوکر نکالے جانے کے بعد بجائے اللہ سے توبہ کرنے کے یہ استدعا کی مجھے تا قیامت زندہ رہنے کی مہلت دی جائے اور تمام اختیارات دیے جائیں۔اللہ نے اُسے یہ کہتے ہوئے مہلت دے دی کہ میرے مخلص بندے تجھ سے گھائل نہ ہوسکیں گے اور وہ محفوظ رہیں گے۔

چنانچہ حسد کا مارا ہوا شیطان اس عزم کو لے کر جنت سے نکل گیا کہ وہ نسلِ آدم کو راہِ راست سے بھڑکاتا رہے گا۔ زمین پر شیطان نے اپنا پہلا وار حضرت آدم کی اولاد پر کیا۔اس نے ہابیل کے خلاف قابیل کا دل ”حسد” سے بھردیا اور روئے زمین پر پہلا قتل بھی حسد کی وجہ سے ہوا۔

کسی انسان کے پاس کوئی نعمت دیکھ کر اس پر صبر نہ کرنا اور یہ خواہش کرنا کہ اس شخص سے یہ نعمت چھین لی جائے، حسد کہلاتا ہے۔

اولیاء کرام کے نزدیک یہ بیماری ”ایمان لیوا” ہے۔ حسد شیطانی عمل ہے کیونکہ شیطان نے آدم علیہ اسلام سے اس بنا پر حسد کی بنیاد رکھی کہ کسی اور مخلوق کو مجھ سے زیادہ مرتبہ کیوں دیا گیا؟ اور ہم انسان شیطان کے اس عمل کو فروغ دیتے ہوئے بے شمار ایمان لیوا برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

جب کسی دوسرے شخص کے پاس کوئی ایسی نعمت دیکھتے ہیں جس کی ہمیں حاجت ہو تو ہم اس سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ ابتداء حسد سے ہوتی ہے پھر وہ نعمت حاصل کرنے کے لیے ہمیں مزید کتنی برائیوں کا لبادہ اوڑھنا پڑتا ہے، اس کا ہمیں خود بھی ادراک نہیں ہوپاتا۔ حسد انسان کو اندھا کردیتا ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو انسان کو عرش سے فرش پر پھینک کر سوال کرتی ہے کہ وہ تمام نعمتیں جو تجھے رب نے عطا کی تھیں ان کی قدر کیوں نہ کی؟صرف کسی دوسرے کی ایک نعمت حاصل کرنے کے لیے اپنی ہزاروں لاکھوں نعمتوں سے کیوں منہ موڑ لیا؟ اور حاسد انسان کہنے سننے کی ہر نعمت سے منہ موڑ کر صرف آگ میں جلتا رہتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” نہ مال و دولت کی حرص میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور نہ آپس میں حسد کرو۔”

                                                   (بخاری، مسلم، ابوداؤد، مسنداحمد)

الغرض، اس واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ ”حسد” ایسی بیماری ہے جس نے شیطان کو سجدہ کرنے سے روک دیا اور روئے زمین پر پہلا قتل بھی کروادیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی یہ سوچیں کہ کہیں اس بیماری میں مبتلا ہوکر ہم بھی سجدہ کرنے سے انکار تو نہیں کررہے؟ نعمتوں پر راضی رہنا شکر ہے جبکہ نعمتیں ہونے کے باوجود شکوے کرنا اور دوسروں کی نعمتیں چھیننے کی کوشش کرنا حسد ہے۔ حسد شیطانی عمل ہے اور شکر رحمانی عمل۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم قول و عمل سے رحمن کے بندے بن کر زندگی گزارتے ہیں یا شیطان کے بندے بن کر؟.

جواب چھوڑ دیں