معلمی بطور پیشہ یا پیسہ

حقیقت یہ ہے کہ ازمنہ قدیم سے دورِ جدید تک ہم انسانی زندگی کے تمدنی ارتقا کا اگر مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف اہل علم وفکر اور دانش بلکہ ہر مذہب نے اخلاقیات، تمدن اور اخلاقی اقدار کی بھرپور تلقین کی ہے اور انہی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اساس پر مذاہب اور ریاستی نظاموں کی عمارات کو بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ویسے بھی جن مذاہب اور اقوام کا دامن اخلاقی اقدار سے خالی ہوتا ہے وہ خالی ڈھول کی مانند ہی ہوتے ہیں، لیکن اگر انسان چاہے تو ان اقدار کی بنا پر ہی صحیح معنوں میں زندگی کو بامعنی وبامقصد بنا سکتا ہے۔جن معاشروں،اقوام اور ریاستوں نے اخلاقی اقدار کو پامال کیا ہے اور اصول وضوابط کا نظر انداز کیا ہے ان کی آج تاریخ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔یعنی نہ وہ باقی رہے اور نہ ہی ان کی تاریخ،بلکہ ان کی زندگی،اقدار اور عادات نشانِ عبرت بن کے رہ گئے۔ایسے ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اقدار کا احیا نوجوان نسل ہی کرتی ہے اور ان نوخیز کلیوں یعنی نوجوانوں کی اخلاقی تربیت ہمیشہ والدین اور اساتذہ کرام ہی کرتے ہیں۔

خالصتا تعلیم کا مفہوم لیا جائے تو اس سے مراد مناسب عادات کے ذریعے تربیت کا ہی نام ہے یا پھر اس سے مراد رویوں میں تبدیلی کا نام تعلیم ہے اور وہ بھی مثبت تبدیلی،یعنی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو انسان کے رویوں،اقدار،عادات اور سوچ وفکر میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کا باعث ہو۔یہ کا م بلا شبہ اساتذہ کے دم قدم سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔اساتذہ جہاں ایک طرف طلبہ کی ذہنی آ بیاری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں، وہیں علائق معاشرے سے روشناس کر کے انہیں معاشرہ کا بہترین فرد بھی بنا تے ہیں۔پاکستان میں جب بھی کسی کو اپنا پیشہ معلمی بتائیں تو دو طرح کے خیالات لوگوں کے ذہنی پردہ اسکرین پر حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں،کہ اسے کوئی اور نوکری نہیں ملی اس لئے اس شعبہ سے منسلک ہو گیا یا پھر فارغ وقت کے لئے اس پیشہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ معلمی ایک عجب پیشہ ہے بلکہ اس پیشہ کو عظیم اور ہمہ جہت خیال کیا جاتا ہے اور اس پیشہ کی ذمہ داریوں کے باوصف اسے پیشہ پیغمبری بھی کہا جاتا ہے۔

جو بیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی،اگرچہ اس کے اوقاتِ کار کم ہوتے ہیں لیکن اس کی ذمہ داریاں اتنی ہی زیادہ،اعلی وارفع ہوتی ہیں۔سال میں تقریبا سات یا آٹھ ماہ مسلسل ورکنگ استعداد کار بنتے ہیں لیکن اس پیشہ کا نتیجہ یہ ہے کہ فارغ اتحصیل طالب علم پوری زندگی فیض حاصل کرتے ہیں۔اگرچہ ان کے کام کا دورانیہ کم ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار حکومتی معاملات یا معلومات کے ذخائر کے لئے تدریسی اوقات ِ کار کے علاوہ بھی انہیں اپنی ذمہ داریاں سر انجام دینے کے لئے بلا لیا جاتا ہے۔چنانچہ اس لحاظ سے معلمی کا پیشہ مثالی خیال کیا جاتا ہے۔

دوسری جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ کہ معلمی کا پیشہ سماجی کردار میں بھی اعلی رہا ہے تو اس لحاظ سے معاشرہ میں عزت وتکریم کا حامل رہتا ہے،معاشرے میں اعلی وارفع مقام کی بنا پر ہی مغربی ممالک میں تدریسی پیشہ کو ترجیحی طور پر منتخب کیا جاتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں چونکہ سماجی،اخلاقی،معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کا دور دورہ ہوتا ہے تو وہاں معلمی پیشہ کو حقیر اور کم تر سمجھا جانا انہونی بات نہیں ہوتی۔

اسی لئے ترقی پذیر ممالک میں اساتذہ غربت وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان ممالک میں معلمی پیشہ کی آمدنی قلیل ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اساتذہ گوناں گو معاشی وسماجی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی کہ ان کی آمدنی قلیل ہونے کی بنا پر ان کی ذات مسائل کا شکار ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس معاشی تنگ دستی سے اور بھی متعلقہ مسائل سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں جیسے کہ کلاس میں ایسے طلبا بھی موجود ہوتے ہیں جن کے والدین کی آمدنی یا کاروبار اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اس کے سامنے استاد احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔کم آمدنی طریقہ تدریس کو بھی متاثر کرتی ہے، جو طلبہ اور استاد کے درمیان خلا،فاصلہ اور بعض اوقات نفرت کا بھی باعث بن جاتا ہے۔یہ احساس رفتہ رفتہ جب سب کے علم میں آجاتا ہے تو طلبہ استاد کے درمیان جو خلیج پیدا ہوجاتی ہے وہ نفرت سے حقارت میں بدل جاتی ہے جو پیشہ اور شاگرد کے لئے کسی طور بھی خوشگوار نہیں ہے۔

لیکن یہ بات بھی اظہرمن الشمس ہے کہ پیشہ معلمی پر ہی کسی بھی نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت کا انحصار ہوتا ہے۔اور یہی نوجوان نسل کسی بھی معاشرے کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہوتے ہیں۔گویا ایک معاشرہ کا مستقبل،ایک نسل کا کل اس پیشہ سے منسلک افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔جو معاشرے میں بلاشبہ اعلی ارفع مقام کے مستحق ہوتے ہیں۔لیکن وطن ِ عزیز پاکستان میںترقی یافتہ ممالک کے برعکس معلمی پیشہ کو آخری ترجیح کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔

ہوتا ایسے ہے کہ جن اصحاب کو کسی اور شعبہ زندگی میں ملازمت نہ ملی تو وہ بحالتِ مجبوری تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایسے تمام اساتذہ کرام جو کسی مجبوری کی بنا پر اس پیشے سے منسلک ہوتے ہیں وہ اپنی تمام ملازمت کی عمر میں مطمئن دکھائی نہیں دیتے اور نہ ہی ان کی دلچسپی اس استعداد کار جیسی ہوتی ہے، جو کوئی بھی انسان اپنی مرضی سے ملازمت کے انتخاب کے بعد دکھاتا ہے۔

یہ سب وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ایک استاد معاشرے میں اخلاقی،معاشی اور سماجی مقام کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتا ،جس کے ردعمل استاد کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے۔معاشی عدم استحکام بھی استاد کو اشرافیہ کی نظر میں تکریم وتوقیر سے دور کردیتا ہے۔ اس ایک عمل سے معاشرہ تعلیمی انحطاط کا شکارہو کر تنزلی،عدم استحکام اور افراط وتفریط کا شکار ہوجاتا ہے، یہ صرف معاشی وسیاسی عدم استحکام ہی نہیں بلکہ معاشرہ کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا اوراخلاقی کجی کا بھی باعث ہوجاتا ہے۔لہذا ہمیں بطور معاشرے کے افراد ایک استاد کو وہ حیثیت،مقام اور مرتبہ دینا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری نسل ِآئندہ خوش حال پاکستان کی ضامن بن سکے۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں