ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بہت بڑا معرکہ سرکرلیا ہے ۔کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے۔ ایک ہجوم ہے جو کہ دو قیدیوں کے گرد جمع ہے۔یہ واقعہ غزوہ احد کے بعد کا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی جنگ میں حاصل ہونے والی فتح کا جشن ہے۔مکّے والوں کی ایک بڑی سازش تھی جو کہ انہوں نے دوقبیلے بنی عضل اور بنی قارہ کے ساتھ مل کر کی تھی۔ دونوں قبیلوں کا وفد حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہمارے قبیلے کے لوگ ایمان لانا چاہتے ہیں۔آپ ﷺ کچھ معلّمین کو ہمارے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ قبیلے کے لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کریں اور وہ ایمان لائیں۔
حضورؐ نے چھ صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو بطور معلّمین بنا کر ان قبائل کی طر ف روانہ کردیا مگرسازش تو پہلے ہی تیار تھی، جب یہ معلّمین کا چھوٹا سا قافلہ مقام رجیع کے مقام پر پہنچا۔ دو سو جنگجوؤں نے ان پر گھات لگا کر حملہ کردیا نہتّے ہونے کے باوجود مقابلہ کیا چار ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیااور دو صحابی گرفتار ہوئے ۔ گرفتار ہونےوالوں میں خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ رضوان اللہ اجمعین تھے ۔ دونو ں کو باندھ کر مکّے لے جایا گیاجب مکّے میں یہ دونوں داخل ہوئے تو ان میں سے خبیب بن عدی کو عقبہ بن حارث نے خریدا تاکہ اپنے باپ حارث بن عامر کے قتل کا بدلہ لے سکے اور دثنہ بن زید کو صفوان بن امیہ نے خرید تاکہ اپنے باپ امیہ بن خلف کے قتل کا بدلہ لے سکے یہ دونو ں مشرکین میدان جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے۔دونوں قیدیوں کو اہل مکّہ نے الگ الگ مکانوں میں محبوس کردیا اور ان پرعرصہ حیا ت تنگ کردیا گیا ان کو کئی کئی دن بھوکا پیاسہ رکھا جاتاہے۔اس مکان کے مالک کی ایک کنیز تھی جس کا نام ماویہ رضی اللہ عنہا تھا، وہ بعد میں مسلمان ہوئیں وہ بیان کرتیں ہیں کہ وہ جب قیدی کے کمرے میں دیکھتیں تو حضرت خبیب بن عدی کے ہاتھ میں تازہ انگوروں کا خوشہ ہے ۔اور وہ اس سے کھارہے ہیں ۔ وہ بیان کرتیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے تروتازہ انگور نہیں دیکھے۔ قید کے دوران وہ ایک اور واقعہ بیان کیا کہ پھانسی سے قبل حضرت خبیب نے ان سے استرا مانگا انہوں نے اپنے چھوٹے بچے کے ہاتھ سے وہ استرا بھجوا دیا ،مگر بعد میں اس خیال نے ان کے ہوش اڑا دئیے کہ دشمن کو انہوں نے تیز دھار آلہ اپنے چھوٹے بچے کے ہاتھ بھجوا یا ہے کہیں وہ ان کے بچے کو قتل نہ کردیں ۔ اس خیال کے آتے ہی وہ تیزی سے اس کمرے کی طرف گئیں مگر وہاں دیکھا تو حیران رہ گئی کہ بچہ ان کی گود میں کھیل رہا ہے ۔ ماویہ کو دیکھ کر حضرت خبیب بن عدی نے کہا کہ تو نے سمجھا کہ میں تیرے بچے کو قتل کردو گا ؟ نہیں مسلمان کبھی غدر نہیں کرتا۔
جب تختہ دار پر لٹکانے کا دن آیا تو حضرت خبیب بند عدی کو اس مقام پر لے جایا گیا جہا ں پر ایک درخت کے ساتھ پھانسی کا پھندا لٹکایا گیا تھا یہ مقام حرم سے باہر تھا۔ مشرکین یہ خون حدود حرم میں نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس دن بھی جشن کا سما تھا تمام مرد عورتیں اور بچے اس مقام پر جمع تھے ۔ان بزدلوں نے ان قیدیوں کے سامنے اپنی گردنیں اونچی کررکھی تھی۔
حضرت خبیب نے مشریکین مکّہ کی طرف دیکھا اور ان سے دورکعت نماز ادا کرنے کی مہلت مانگی جو انہوں نے قبول کی اس کے بعد آپ نے نماز ادا کی جو کہ آج تک جاری و ساری ہے جو بھی راہ حق کا راہی پھانسی یا اپنے مقتل تک جاتاہے وہ بھی آپ کے طریقے کے مطابق دو رکعت نفل ادا کرتا ہے ۔ نفل ادا کرنے کے بعد حضرت خبیب نے مجمع سے کہا میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اللہ کے حضور لمبے رکوع اور لمبے سجدے کرتا مگر اس خیال سے میں نماز جلدی مکمل کی کہ تم لوگ یہ نہ سمجھوکہ خبیب موت کے ڈر کی وجہ سے لمبی نماز ادا کررہاہے۔
حضرت خبیب نے ایک نظر سولی کی طرف دیکھا اور ایک نظر مجمع پر ڈالی اس دیار غیر میں ان کو تمام لوگ ہی دشمن نظر آئے جن کے ہاتھوں میں پتھر ،لاٹھیاں ، نیزے اور تلواریں تھیں جو کہ بیتاب تھے کہ اس راہ حق کے سپاہی کے خون سے اپنی پیاس بجھائیں۔ یہ منظر دیکھ کر آپ نے دعا فرمائی کہ اے میرے رب یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو کہ میرا سلام تیرے حبیبؐ تک اور صحابہ تک پہنچا دے ۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس وقت آپؐ خطبہ دے رہے تھے اس عاشق صادق کی دعا قبول ہوئی اور سرکار دوعالم تک سلام اللہ نے پہنچادیا آپؐ منبر پر تھے آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور تمام صحابہ اکرام اجمعین کو اس واقعہ کی خبر دی ۔ ادھر مکّے میں حضرت خبیب اور دثنہ بن زید رضوان اللہ اجمعین کو سولی کے قریب لے جایا گیا اور مسلح نوجوانوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے جسموں کو نیزے سے چیرکے لگائیں ایک شقیق القلب مشرک نے حضرت خبیب بن عدی سے کہا کہ کیا تو چاہے گا کہ تیری جگہ محمدؐ ہوں اور تو اپنے بیوی بچوں میں ہوں عاشق صادق نے کہا :خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میری جان بچ جائے اور محمدؐ کے پیروں میں کوئی کانٹاچبھ جائے ۔ اس کے بعد آپ کے جسم کو چھیدا گیا اور سخت اذیت دے کر سولی پر لٹکادیا گیااور اس طرح یہ عاشق صادق راہ حق کا سپاہی پہلا شہید ہے جس نے سولی پر اپنی جان کا نذرانہ اپنے رب کو پیش کیا ۔
“اور جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں”
(سورۃ البقرہ)