عشق ٹوٹا تواستخارہ کیا
اور پھر عشق ہی دوبارہ کیا
یہ اُس خوبرونوجوان کی کہانی ہے جس نے زیست کی26بہاروں میں ایک محبت دو عشق کئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں لڑکوں کا پہلا پیارا کالج کی میڈم، کلاس فیلو یا پھر پارک، ریسٹورنٹ کی لڑکی ہوتی ہے۔
مگر اس کاپیدائشی طور پر پہلا عشق پاک فوج تھی ہر نماز ادا کرکے یہی دعا مانگاکرتااللہ میاں مجھے کرنل جرنل بنا دے، اُس کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی مگر کہیںخاکی وردی میں کھڑا سپاہی یا سڑک سے گزرتے ہوئے آرمی کی گاڑی میںبیٹھے کسی کیپٹن پر نظرپڑجاتی زبان سے جذبات کالامحدود سمندررواں ہونے لگتا۔اُسکے ہم عمر بچے کرکٹ، فٹ بال، ہاکی وغیرہ کے کھیلوں میں مصروف رہتے جبکہ یہ بچہ اپنے دادا ابو کے پاس اخبار میں سے افواج پاکستان سے متعلق تحریریں اور کہانیاں ڈھونڈتا رہتاا گر کوئی مل جاتی خوشی ایسی جیسے محبوب سے پہلی ملاقات ہو۔ ذوق مزید آگے بڑھا تو جاسوسی ناول ، آرمی پر ریسرچ کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی پیدا ہونے لگی کچی عمر کا سورج غروب ہونے لگا جوانی کی شروعات تھی جذبات بے قابو تھے۔
گائوں کی فضا میں دم گھٹنے لگاشہر کی ہوا اپنے دامن میں لینے لگی خواب میں پرستان کی شہزادی آنے لگی اسی دوران قریبی شہر کی سادہ مگر قیامت نظرآنے والی لڑکی سے محبت ہو گئی اب لڑکا خود تعلیم حاصل کرنے بڑے شہر آگیا، بھلا ہو موبائل فون کا جس نے انکی محبت کو زندہ رکھا کال پر تپاک کے ساتھ ملتے چند دن ہی گزرے تھے کہ دونوں کی مجبوری نے جیتی جاگتی محبت کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا دونوں جانب ضبط کا معیار بہت بلند تھاانکا آخری میسج یہی تھا میں بُرا تم اچھے ہوشاید ایک دوسرے کی عادت ہو چکی تھی عادت محبت سے بھی بُری ہوتی ہے۔ اگر محبت سچی ہو یہ دو جسموں میں ایسا لمس چھوڑ جاتی ہے جو روح کے پرواز کرنے تک ساتھ نبھاتی ہے، ان دونوں کابھی خالص پیارا تھاصرف دو لوگ جدا نہ ہوئے بلکہ دو روحیں پرواز، دوبدن، عمر بھر کیلئے مردہ ہو گئے۔
دو پُر رونق شہر کے سب سے حسین چہرے دیکھتے ہی دیکھتے ماند پڑنے لگے شادی کی تقریب ہویا دوست احباب کی محفل مسکراہٹ انکے لبوں پربرف بن کے جمی رہتی جبکہ دل میں اُداسی کا قبرستان تیار ہوچکا تھا، جس کی ہر قبر میں الگ قسم کی وحشت دفن تھی۔
پھر چاند کا شہر کی ماڈرن اکیڈمی میں ایڈمیشن ہوگیااس شرط کے ساتھ کہ جب تک شریف رہے گااکیڈمی میں رہے گا کیونکہ یہاں کوایجوکیشن تھی یہاں اس لڑکے نے اپنے حُسن اخلاق کے ذریعے اساتذہ کرام سمیت کلاس فیلو ز کو بھی بے حد متاثرکیااور خوب عزت کمائی ۔کسی کی بکھری ہوئی یادوں کو سمیٹ کراپنی طاقت بنایااور امتحان میں اول پوزیشن حاصل کرنے سے آرمی کالج کی میرٹ لسٹ میں نام آگیا، اس کامیابی پر اسکی فیملی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی، یہ ا میرخاندان کا بگڑا ہوا شہزادہ تھاباپ نے بیٹے کاشاہی خرچ ڈبل کر دیا۔ اسی کالج کے ہوسٹل میں ایک روم لے لیاشروع میں خوب محنت کی پروفیسرزاسکو میچور لڑکاسمجھ رہے تھے، قدرت کی طرف سے آزمائش کی گھڑی تھی پھراس کالج میں پرستان کی شہزادی آگئی وہ اس قدر جاذب نظر تھی کہ شہزادہ دل وجان ہار گیا، یہ جوانی میں قدم رکھتے ہی اسکے سپنوں میں مسلسل رہی اور آج اس سےا سٹاف روم کا پتہ پوچھ رہی تھی؟ جیسے صدیوں کاخواب ایک لمحے میں پورا ہو گیا ہواُس سے بے تکلف باتیں کرتے جا رہا تھا،آنکھیں چار ہوتی گئیںوہ بھی رسپانس دیتی گئی اور اسٹاف روم آگیا۔پہلے پہل دوستی ہوئی تو فیصلہ کیا اسی تک محدود رہے گے مگر انہیں بھی خبر نہ ہوئی محبت کی سرحد کب پار کر گئے پھر آہستہ آہستہ عشق کی قد آور چوٹی سر کرنے لگ گئے اوروقت تیزی سے بیت گیا ۔انہوں نے زمانے کی وہ تمام روایات کوخط بنا کے جلا ڈالاجس میں دو پیار کرنے والیوں کو ہمارے معاشرے نے کہیں ذات ،مذہب اور مسلک کے نام پرجدا کر رکھا ہے، عشق کی کوئی ذات مذہب مسلک یا سرحد وغیرہ نہیں ہوتی۔ اسی حوالے سے اقبال طارق صاحب نے کیا خوبصورت شعرکہاہے!
عشق مذہب ہے کوئی دین نہ مسلک طارق
آدمی کی تو کوئی ذات بھی ہو سکتی ہے
پاکیزہ رشتے کوحلال کرنے کی خواہش تھی مگر اس میں رکاوٹ منافق پرست معاشرہ تھا ، جسے یہ بندھن قابل قبول نہ تھاجانتے تھے یہ سب مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی، آگ کی شاہراہ پر چلتے چلتے، یہاں سے ایک قدم بھی آگے بڑھتے، دو گھر مکمل راکھ ہو جانے تھے ،باپ دادا کی عزت خاک میں مل جانی تھی، سو اسی لیے ایک دوسرے سے بدتمیزی کرتے بچھڑ گئے، عزت بچ گئی پر بدن زندہ لاشیں بن گئے دل کے اُداس ہم نگر میں دفن تمام و حشتیں جاگ پڑیں ایک جسم میں موجود ر وحوں پر حملہ آور ہو گئیں ۔
کتنی بےرخی سے پیٹا گیا ہوں
تلوار کی نوک لگی ہوجیسے