شہر قائد سیاست کی نذر

حادثاتی طور پر وجود میں آنے والی ایم کیو ایم اپنے پینتیس سالہ دور میں کئی نشیب و فراز سے گزری، بہت سی جماعتوں سے اتحاد بھی کیا اور تقریباً ہر بار ہی حکومت کا حصہ رہی، موجودہ وقت میں سندھ کی نمائندہ جماعت کو تاریخ کے مشکل ترین حالات کا سامنا ہے، اپنے عروج سے زوال تک MQM بہت سے تلخ و شیریں تجربات و مشاہدات سے گزری لیکن طرز سیاست اور روش میں تبدیلی نہ آئی، یہ جماعت جتنی بار بھی حکومتوں کا حصہ بنی ہمیشہ ناراضگی اور اتحاد اس کا خاصا رہا یعنی کہ چھوڑنا کا کھیل انکی طرز سیاست کا اہم ہتھیار رہا ہے۔

عام طور پر مہاجر حلقوں میں اسے بلیک میلنگ کی سیاست کے نام سے پکارا جاتا ہے، جس کا متوسط طبقے کی نمائندہ جماعت کو ہر سطح پر نقصان ہی نقصان ہوا، اس قسم کے طرز سے فرد یا مخصوص لوگوں کو تو فائدہ ہوجاتا ہے لیکن جماعتی سطح پر اس کے اثرات کبھی مثبت نہ آئے، روایت کے مطابق متحدہ نے ایک بار پھر کابینہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا ہے جو آگے چل کر اتحاد سے علیحدگی کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

اگر موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو شہر قائد ایک بار پھر ستر کی دہائی میں پہنچ گیاہے جب مذہبی جماعتیں مہاجر کارڈ کو استعمال کرتی تھیں اور اب PTI سےPP تک اس کارڈ کو ہتھیانے کے لیے زور آزمائی کررہی ہیں، جس طرح ستر کی دہائی میں بھٹو اور مہاجر دانشوروں کے مابین طے پانے والا فارمولا 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری کوٹہ سیاست کی نذر ہوگیا اسی طرح خستہ حال کراچی کی ڈویلپمنٹ کے منصوبے ایک بار پھر سیاست کی نذر ہوگئے، تحریک انصاف کے لارے لپے اور ٹال مٹول نے متحدہ کے لیے شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ شاید PTI متحدہ کو کراچی کے منظرنامے سے ہٹاکر اس کی جگہ لینا چاہتی ہے، ویسے اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو کچھ کچھ ایسا بھی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اس بداعتمادی کی وجہ سے (جو 1989 میں پیدا ہوئی) آج تک شہر کو اس کے حقوق سے جبراً محروم کیے آرہی ہے، 1989 میں بینظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں MQM نے اتحادی ہوتے ہوئے مخالف ووٹ دیا اور ساتھ ہی مختلف نعروں کے ساتھ شہری سندھ میں فسادات پھوٹ پڑے تو دیہی سندھ میں وڈیروں کے ہاتھوں بیسیوں لاکھوں مہاجروں کو شدید نقصان برداشت کرنا پڑا اور یہ سلسلہ بینظیر حکومت کے خاتمے پہ جا کر تھما، اس کے بعد سے پیپلزپارٹی نے شہر سے ہمیشہ غیرجمہوری و غیرآئینی سلوک برتا حتیٰ کہ یونیورسٹی جیسے عظیم مطالبے تک کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی جس کا درحقیقت نقصانPP ہی کو پہنچا نہ صرف شہری سندھ میںPP کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا بلکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کی خستہ حالی کا اثر پنجاب و KPK میںPP کی ساکھ پہ ہوا، اگر پیپلزپارٹی جمہوری تقاضوں کو پورا کرتی تو یقیناً آج صورتحال اس کے برعکس ہوتی جیسا کہ PP کے لیے شہری علاقوں میں سوچ پائی جاتی ہے، ماضی میں یہی PP تھی جب جنرل ضیا کے دور میں 1979 میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تو کراچی سے عوام نے PP پر بھرپور اعتماد کیا لیکن دو کونسلروں کے اغوا نے PP کو میئر شپ سے محروم کردیا اور ڈپٹی میئر پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

اب کراچی میں خلا کو دیکھتے ہوئے اور ہر خاص و عام کی تنقید کے بعد سندھ حکومت کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں پہ توجہ دیتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن ابھی مزید کرنے کی ضرورت ہے، بلاول بھٹو جو پنجاب پہ خصوصی توجہ دئیے ہوئے ہیں وہ اگر اس کا دس فیصد بھی کراچی پر دے دیں اور ایک دو ماہ کراچی میں ڈیرے ڈال لیں تو PP نہ صرف دیہی سندھ بلکہ شہری علاقوں کی بھی نمائندہ جماعت بن جائے گی کیونکہ PTI کی عدم توجہی اور غیرسنجیدہ روئیے کی وجہ سے اردو اسپیکنگ PTI کو محض نعروں والی جماعت سمجھنے لگے ہیں، MQM جو اپنے قائد سے محروم ہوکر یتیم جماعت بن چکی تھی اب تقسیم در تقسیم کا شکار ہوکر بالکل مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔

وڈیرہ شاہی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والی جماعت کے کرتا دھرتا 30 سے 35 سالوں میں وڈیرانہ نظام کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن خود شہری وڈیرے بن کر بیٹھ گئے، اب اپنی چودھراہٹ کو جاتے دیکھ کر اندرون خانہ ایک نیا مہاجر اتحاد قائم کرکے ایک نئی سیاسی جماعت کو کھڑا کرنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن افسوس کہ جو سفر 35 سال پہلے مہاجر حقوق کے نام سے شروع کیا آج 35 سال بعد اردو اسپیکنگ کو وہیں لا کر کھڑا کردیا، 80 کی دہائی میں بھی مہاجر حقوق کا نعرہ تھا آج 2020 میں بھی مہاجر حقوق کا نعرہ ہے اگر کچھ حاصل ہوا تو وہ دو چار درجن افراد کی ہوائی چپل سے شہری وڈیرے کے طور پر ترقی حاصل ہوئی، اگر یہ اتحاد نیا جنم لیکر منظر پر آ بھی جائے تو نقشہ کیا ہوگا وہی شہری دیہی تفریق، وہی لسانیت وہی نفرتیں جس کے اب مزید متحمل نہیں ہوسکتے، اردو اسپیکنگ جو ملک کا سب سے پڑھا لکھا طبقہ تھا اور اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہونا ان کے شعور کی گواہی ہے لیکن ستم بالا ستم نعرہ تھا حقوق کا، نعرہ تھا جاگیردارانہ وڈیرانہ نظام کے خاتمے کا، نعرہ تھا مساوات کا، متوسط طبقے کا لیکن ان کا رخ لسانیت کی طرف موڑ دیا گیا، جدوجہد تو ظالم وڈیروں اور ظالم جاگیرداروں کی اقرباپروری کے خلاف کرنی تھی لیکن نامعلوم راز ہے کہ لڑوایا گیا عام سندھی عام پنجابی و عام پٹھان سے، کبھی ایک بار بھی عملی طور پر اسٹیٹس کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا گیا اور اب ایک بار پھر مہاجر اتحاد کی کوشش نتیجہ کیا نکلنا ہے وہی لسانیت بیشک مہاجر نہ سہی کوئی اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے لسانی تعصب کو ابھار سکتا ہے لہٰذا اب لسانی سیاست اور ایک مخصوص سوچ سے باہر نکل کر قومی سیاست میں قدم رکھا جائے اور موجودہ خستہ حال نظام کے خلاف عملی جدوجہد کی جائے تو یقیناً جلد ہی یہ نیا اتحاد پورے ملک کی سیاست پہ چھا جانے کے ساتھ ساتھ ایک انقلاب ثابت ہوگا۔

مسائل سب کے یکساں ہیں، مشکلات سب کی ایک سی ہی ہیں، خواہ دیہی ہوں یا شہری سب ہی اس نظام کے ستائے ہوئے ہیں ، ہر خاص و عام اس نظام سے بیزار ہے عوام بےچین ہے کہ کوئی چنگاری نظر آئے تو وہ آگ بن کر اس ظالم نظام کو راکھ کردے لیکن افسوس کوئی بھی ایسا نہیں جو عوام کے لیے نکلے، کراچی وہ شہر ہے جہاں سے ماضی میں بہت سی تحریکوں نے جنم لیا، کیا ہی اچھا ہو جو ایک بار پھر انقلابی تحریک منبع ثابت ہو۔

جواب چھوڑ دیں