ایک وصف تو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے لیکر آج تک اپنی کسی بات پر قائم رہ کر ہی نہیں دیئے اور دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ جو بھی تقریر کرتے ہیں، اس کا ایک ایک لفظ دل میں اتر جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ میدانِ خطابت کے مردِ غازی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کے اندر تو ان کی دھوم ہے ہی،
اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر سے بھی ملیشیا اور ترک کی حکومت نے متاثر ہوکر اور جوش میں آکر انھوں نے مسلمان ممالک کا نہ صرف ایک الگ بلاک بنانے کا ارادہ کر لیا بلکہ ہر قسم کی غیرملکی کرنسی کے متبادل کرنسی بنانے کا کا بھی اعلان کردیا۔ اس تحریک کی روح رواں وہی اقوام متحدہ میں کی جانے والی دھواں دار تقریر تھی لیکن افسوس کہ جب دھوئیں کے مرغولے چھٹے تو معلوم ہوا کہ ایک غبارہ تھا جو پھٹ گیا اور سارا دھواں یک دم پھیلنے کے بعد ایسا سمٹا کہ ہر وہ جذباتی منظر جو دھوئیں کے مرغولوں نے کھینچ رکھا تھا فضا میں تحلیل ہو کر رہ گیا۔
ہمارے وزیر اعظم جس فورم پر بھی تقریر کرتے ہیں لوگوں کا دل موہ لیتے ہیں اور لوگ ان کے ایک ایک لفظ پر امیدوں کے مینارے تعمیر کر لیتے ہیں لیکن لفظوں کا سحر جیسے ہی ختم ہوتا ہے آس کے سارے مینار دھڑام کرکے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
بجلی کی قیمتوں میں کمی لائی جائے گی، گیس سارے پاکستانیوں کو فری میسر ہوگی، پٹرول کوڑیوں کے مول کر دیا جائے گا، کھانے پینے کی اشیا حکومت کی جانب سے مفت تقسیم ہونگی، بچوں کی تعلیم حکومت کی ذمہ داری ہوگی، کوئی گھر کے بغیر نہیں رہے گا، نوکریاں تو ایسے بانٹی جارہی ہونگی جیسے اللہ نے ہوا اور پانی مہیا کیا ہوا ہے اور اسی قسم کی کتنی ہی من موہ لینے والی تقاریر ایسی ہیں جس کو سن کر پاکستان کے عوام پہلے تو سر دھنا کرتے تھے لیکن اب عالم یہ ہے کہ سارے کے سارے اپنا اپنا سر پیٹتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے وزیر اعظم نے “ہنرمند پاکستان” پروگرام کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ “کہ دوسروں کی لڑائیاں لڑنا بڑی غلطی تھی، اب پاکستان کبھی کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، ہماری پوری کوشش ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں دوستی ہو جائے پاکستان ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہہ دیا ہے کہ ہم واشنگٹن اور تہران کو بھی قریب لائیں گے، پاکستان دنیا میں امن کا داعی بنے گا، نوجوان ملک کا بڑا اثاثہ ہیں، ہم ان کو طاقت دیں گے تو یہ پاکستان کو اٹھا سکتے ہیں”۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دوسروں کی لڑائی میں شامل ہوکر بڑی سخت غلطی کی تھی لیکن یہ غلطی “تھی” کب سے ہو گئی۔ لڑائی تو مسلسل جاری ہے اور پاکستان تاحال اس سے باہر آنے میں سخت ناکام ہے۔ موجودہ افغان پاکستان کشیدگی اسی طرح برقرار ہے اور پاکستان تا حال امریکی پالیسی سے اپنے آپ کو باہر نکالنے میں سخت ناکام ہے۔ ہر وہ ملک جو اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے دوسرے ممالک کا دست نگر ہو وہ اپنے “محسنوں” کی مرضی و منشا کے خلاف کیونکر جا سکتا ہے؟ جس کی حالیہ مثال ملیشیا کانفرنس میں شرکت کے وعدے سے پھر جانا ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا درست نہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ہم اس کوشش میں ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کی دوستی ہو جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں ممالک میں یہ دوریاں پیدا کس نے کی ہیں؟ جس ملک نے مسلمان ممالک کو پارے کی طرح پھاڑ کر رکھا ہوا ہے اسی ملک کی غلامی میں خود پاکستان شامل ہے۔ جب پوری امت مسلمہ کو پھاڑ کر رکھنے والے ملک کے ہم خود غلام ہونگے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک ایسا کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو “آقا” کے پسندیدہ مشغلے کے خلاف ہو۔ اب خود ہی سوچیں کہ جب ہم اپنی مرضی و منشا کے مطابق ملیشیا تک نہ جاسکتے ہوں تو پھر واشنگٹن اور تہران کو ایک دوسرے سے قریب کیسے لا سکتے ہیں؟
عمران خان فرماتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں امن کا داعی بنے گا، بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان خود پاکستان کے اندر امن کا داعی بننے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو وہ دنیا میں امن کا داعی کیسے بن سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے اپنی اندرونی دہشتگردی پو قابو تو ضرور پا لیا ہے لیکن اب تک جو کچھ بھی ہوا ہے وہ محض طاقت کے بل بوتے پر ہی ہوا ہے اور طاقت کا توازن کب اور کس وقت بگڑ جائے، اس کا کچھ پتا نہیں۔
موجودہ حکومت کا یہ اعلان تھا کہ وہ جو کام بھی کریگی اور جو بھرتیاں بھی عمل میں لائے گی اس کی بنیاد میرٹ یعنی قابلیت پرہوگی لیکن کیا پاکستان میں ایسا ہی ہو رہا ہے؟
یہ ہے وہ سوال جو ہر عام و خاص کی زبان پر ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب پاکستان میں وزیر تعلیم کیلئے تعلیم یافتہ ہونا ہی شرط نہ ہو بلکہ معیار فرفر انگریزی بولنا قرار پائے تو پھر بیس بیس بائیس بائیس سال کسی بھی قسم کی تعلیم اور ہنر مندی سیکھنے کی بجائے ہر نوجوان صرف انگریزی سیکھنے پر ہی توجہ دیں ۔
وزیر اعظم کی تقریر بلاشبہ بہت پُر اثر اور دل موہ لینے والی تھی۔ انھوں نے فرمایا تھاکہ “حکومت نوکریوں کے لیے فضا پیدا کر سکتی ہے، آئندہ 4 برس میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر بھی کرنی ہے، قوموں کی زندگی میں برا وقت آتا ہے تاکہ اپنی اصلاح کی جائے، پاکستان مشکل وقت سے نکل رہا ہے اور استحکام کی جانب گامزن ہے، ریاست دو چیزوں پر کھڑی ہوتی ہے، ایک انصاف اور دوسرا سادگی”۔
50 لاکھ کو 42 ماہ سے تقسیم کرکے اب خود ہی حساب لگالیں کہ کیا ہر ماہ اتنے مکانات تعمیر کرنا حکومت کے بس میں ہے؟
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قوموں کی زندگی میں برا وقت آتا ہے لیکن دو چیزیں پاکستان میں ایسی ہیں جس سے پاکستان کو آج تک چھٹکارہ نہیں مل سکا ہے ایک ہنگامی صورت حال اور دوسری برا وقت۔ آپ ان ہی دو آفتوں سے پاکستانیوں کو نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ آئے تھے نہ کہ ان کا تذکرہ کرنے کیلئے۔ اب رہی بات انصاف کی فراہمی اور سادگی کی تو اس کا اگر از خود جائزہ لے لیا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ کیا 18 ماہ کے دوران انصاف سستا، سہل اور “منصفانہ” ہو جانے کی جانب پیش قدمی ہوئی ہے یا ایک نہیں دو پاکستان کی جانب تیر سیدھا ہوا ہے۔ رہی سادگی کی بات تو نہ تو وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، وزرائے اعلی کی رہائش گاہیں اور نہ ہی گورنر ہاؤسز یونیورسٹی، کالجوں اور تفریح گاہوں میں تبدیل ہو سکے ہیں اور نہ ہی ان کے اسٹاف اور اخراجات میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے حتیٰ کہ ان کے پروٹوکول میں بھی کسی قسم کی کوئی کمی نظر نہیں آئی۔
تقریر ایک فن ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے وزیر اعظم اس فن میں طاق ہیں۔ وہ جب بھی اور جہاں بھی تقریر فرماتے ہیں لوگوں کا لہو گرما کر رکھ دیتے ہیں اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے سابقین ہی کیا قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرح پرچیوں کا استعمال نہیں کیا کرتے بلکہ جو بھی کہتے ہیں بلا تامل اور برملا کہہ دیتے ہیں اسی لئے بہت ساری باتیں وہ ایسی بھی کہہ جاتے ہیں جو شاید وہ کہنا بھی نہ چاہتے ہوں۔
جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہونا، درختوں کا رات کے وقت آکسیجن کا اخراج، سال کے بارہ موسم اور فلاں پیغبر کا قرآن میں تذکرہ ہی نہ ہونا وغیرہ۔ اسی طرح ہنرمند پاکستان میں سارے انسانوں کو ایک بات یاد کرانا اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ دنیا تو کانٹوں کی سیج ہے، یہاں مصائب اور آلام کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر حقیقی سکون درکار ہے تو وہ انسان کو مر کر ہی نصیب ہو سکتا ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اگر مرکے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟ والی بات ہو گئی تو پھر کیا ہوگا؟
ہم عوام ان کی ساری تقریروں، دعوؤں اور وعدوں کے متعلق صرف اتنا ہی عرض کر سکتے ہیں کہ
علامہ اقبال نے کیا خوب کہاہے!
گفتار کا غازی بن تو گیا کردار کا غازی بن نہ سکا