آج کا مرد مظلوم ہے اور میں اگر یہ مانتا ہوں تو یقیناً اس بات اور نظریے کے ثبوت کے لیے میرے پاس کچھ مواد بھی ہوگا-
یعنی خالی کہہ دیا اور چلتے بنے- نہیں جناب بات کو دلائل سے بتائیں-اب یہاں صرف کہنے سے کام نہیں چلنے والا تو اپنی بات کو ثابت بھی کرنا ہے- ایسے میں قطع نظر اسکے کہ اسلام میں مرد کے کیا حقوق ہیں اور کتنے پورے ہورے ہیں؟ اگر اس طرف گئے تو بات بہت دور تک نکل جائے گی- اس لیے آئیں ہم حالات حاضرہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہ نقطہ نظر کس حد تک جائز ہے؟؟’’مرد‘‘کہنے کو تو صرف تین حرفی لفظ ہے لیکن یہ تین حروف اپنے اندر ایک زمانہ ایک داستان رکھتے ہیں جسے سننے کے لیے بھی حوصلہ چاہیے-
مرد ابھی دنیا میں نہیں آیا ہوتا کہ اسکی آزادی سلب ہوجاتی ہے- جیسے ہی کسی خاندان میں پتہ چلتا ہے کہ انکا مستقبل میں آنیوالا بچہ لڑکا ہے تو خاندان بھر کے لوگ لگتا ہے سب کام چھوڑ کر بس اسکے سہانے مستقبل (پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر بنے گا) کے سپنے دیکھنے لگ جاتے ہیں- اور وہ پیدا ہوتے ہی ایک ایسے خودکار نگرانی کے نظام میں آجاتا ہے کہ اپنی مرضی سے ایک بھی فیصلہ کرنا اسکا اختیار نہیں رہتا-انسان کا ہی بچہ ہونے کے باوجود خاندان میں سب ہی اسکو انسان بنانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں- یوں اٹھو یوں بیٹھو، بری صحبت سے بچو دل لگا کر پڑھو، کھیل کود میں وقت برباد نہ کرو، آخر تم ہی تو ہماری امیدوں کا مرکز ہو، تم نے ہی تو سب باگ دوڑ سنبھالنی ہے وغیرہ وغیرہ۔کوئی اس سے نہیں پوچھتا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ تمہیں کیا بننا ہے؟ یا انسان ہونے کے ناطے آزادی تمہارا بھی حق ہے جو من میں آئے کرو لیکن ہر گز نہیں اگر اسے آزاد چھوڑ دیا گیا تو گھر بھر کی ذمہ داریاں کون سنبھالے گا؟؟؟؟
اب اگر پابند سلاسل یہ آزاد مرد کچھ بن کر دکھانے میں کامیاب ہوجائے توخاندان بھر میں اسکی شادی کو لے کر لڑکیاں پسند کی جانے لگتی ہیں، لیکن اس سے پوچھنا تو درکنار اگر وہ غلطی سے کسی طرف کوئی اشارہ بھی کردے تو اسکی گویا شامت آجاتی ہے- بہنوں کی ایک پسند ہوتی ہے اور ماں الگ سے کوئی حور لانا چاہتی ہے- مرتا کیا نہ کرتا، انکی ہاں میں ہاں ملانی ہی پڑے گی ورنہ تا عمر روگ کنوارگی بھی اسکے حصے میں آنے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے- وہی عورت جس نے ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھنے کو وعدہ وفا پہ دستخط کیے ہوتے ہیں آتے ہی ہٹلر کا رول نبھانے میں جت جاتی ہے-
مردبیوی کو سمجھائے تو جاہل ماں کی نا مانے تو جہنم میں جلایا جائے۔مردبیوی کو اہمیت دے تو رن مرید ماں کی خدمت کرے تو لاپروا۔مرد بیوی بچوں کا خیال رکھے تو اندھا ماں بہن بھائیوں سے پیار کرے تو ظالم۔مردبیوی کی بے جا فرمائشوں پہ اف تک نہیں کر سکتا، سمجھا نہیں سکتا، حالانکہ کہنے کو تو نگران ہے معاشرے میں بھی اور اسلام میں بھی۔
مر دوست احباب چھوڑ چکا، پسند ناپسند دفن کردی، آرام و سکون زندگی سے نکال دیا لیکن رہا پھر بھی بے وفا کا بے وفا۔۔۔۔۔کیونکہ بیوی بھی تو اسکے پیچھے اپنا سب کچھ جی ہاں سب کچھ چھوڑ آئی ہوتی ہے۔
سسرال میں کسی فنکشن میں دیر سویر ہوگئی تو وہ طوفان اٹھا کہ الامان الحفیظ۔
مردہمدرد اور بے لوث دوست بننا چاہتا تھا لیکن سخت گیر باپ بنا دیا جاتا ہے۔مرددوستوں میں رن مرید، ماں باپ، بہن،بھائیوں کی نظر میں رن مرید، دفتر میں رن مرید لیکن بیوی کی نظر میں کبھی خیرخواہ تک کا رتبہ بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
ماں باپ روٹھے، بیوی خوش نہیں اولاد کو باپ کے رول سے نفرت مرد پھر بھی ظالم۔۔۔۔۔کونسا انصاف ہے یہ؟
مرد سب سہہ بھی لیتا ہے لیکن رو نہیں سکتا تاکہ کہیں غم غلط نہ ہوجائے- معاشرے میں ناک کٹ جائے گی۔ مرد ہو کے روتا ہے؟
شرم کرو لوگ کیا کہیں گے؟؟؟؟
بیوی کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے، نافرمان ہے، ساس سسسر سے ہرروز الجھتی ہے، تو بھی ٹھیک ہے لیکن مرد ہاتھ اٹھانے کا دکھاوا بھی کرے تو اسے جنگلی اور وحشی قرار دے کر زندگی جہنم بنا دی جاتی ہے اور یہ کام صرف بیوی ہی نہیں معاشرہ مل جل کر اور ثواب سمجھ کر انجام دیتا ہے۔
مرد مسیحا ہے، محافظ ہے، منصف ہے، بہترین مبلغ ہے، رشد وہدایت کا مینار ہے، اچھا ایڈمنسٹریٹر ہے اچھا ورکر ہے، لیکن سب کچھ ہے تو کیا ہوا ساتھ میں ایک مظلوم بھی تو ہے۔
قارئین یہ سب تصویر کا ایک رخ تھا جو موضوع کے عین مطابق ہے، اسکی تائید میں ہے- لیکن ہمیں یہاں دوسرا رخ قطعی طور بھی بھولنا نہیں چاہیے کیونکہ یہی عین انصاف ہے- یہی مرد جو مسیحا بھی ہوتا ہے لیکن قاتل بھی ہوتا ہے، محافظ ہوکر بھی لٹیرا بھی ہوتا ہے، بے انصاف بھی ہوتا ہے، ذاتی مفاد کو اہمیت دینے اور صرف خود کے لیے جینے اور تبلیغ کرنے والا بھی مرد ہی کہلاتا ہے- ایڈمنسٹریٹر کی پوسٹ پہ بیٹھ کر بد اعمالیاں کرنے والا بھی مرد ہوتا ہے- اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والا، بے شرم، بد لحاظ،ننگ قوم، ننگ وطن، غدار، دہشت گرد، ضمیر فروش، اپنے اہل و عیال پہ ظلم کے پہاڑ توڑنے والا، ماں باپ کا نا فرمان، بیوی بچوں کے حقوق سلب کرنے والا بھی بد قسمتی سے مرد ہی کہلاتا ہے-
تو آخری بات یہ ٹھیک رہے گی کہ اس رنگ برنگی دنیا میں طرح طرح کے لوگ ملیں گے اس لیے کسی بھی طبقہ کے متعلق ایک خاص سوچ بنا لینا یا اسکی ترویج کرنا ایک طرح سے ضمیرمیں نقب اور انصاف کا خون ہوگا-
اس لیے خود کو ظالم اور مظلوم کی فہرست سے نکال کر سچائی اور محبت کے اصولوں کا سوداگر بنانا ہوگا تاکہ حقیقی اور سچی خوشیاں ہمارے در، ہمارے آنگن اور ہماری زندگی میں بہار لا سکیں- اجازت چاہوں گا ساحر لدھیانوی کے ایک شعر کے ساتھ۔
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم