واقعی ایسا ہی ہے انصاف ہی وہ چیز ہے جو اگر نہ ملے تو انتقام خود بخود جنم لیتا ہے اور نا انصافی ٹھہری تمام برا ئیوں کی جڑ۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ جہاں جہاں لو گ نا انصافی کرتے ہیں ، کام میں ڈنڈی مارتے ہیں، گو یا لوگوں کا حق مارتے ہیں وہا ں کہیں نہ کہیں بھیانک اور غیر متوقع انتقامی کاروائیاں سننے اور دیکھنے اور سہنے کو ملتی ہیں ۔
گھر میں اگر بڑے انصاف سے کام نہ لیں تو چھوٹے ان سے نہ صرف بد ظن ہو جاتے ہیں بلکہ انتقام ان کی خدمت کرنے اور حقوق ادا کرنے میں کتراتے ہیں ۔
کسی بھی نوعیت کی انتقامی کاروائی مثلاً تڑاک سے جواب دینا ، کہنا نہ ماننا ، کچھ نہ سننا یا ان کا کوئی کام دلچسپی سے نہ کرنا تمام اہل خانہ کے لئے کشیدگی کا باعث بنتا ہے اور بچے الگ لاشعوری طور پر نفرتیں اور غلط روئیے اپنانے لگتے ہیں ۔
باہر نکلیں اگر رکشے والے نے جائز کرائے سے زیادہ پیسہ مانگا تو سوار بیچارا آئوٹ ہو جاتا ہے ۔رکشے والے کا تو سفر پر خطر بن جا تا ہے ۔ سارا راستہ نوک جھونک ، تو تو میں ، میں یا کبھی نوبت ہاتھا پائی تک آجاتی ہے ۔ ٹا ئم الگ خراب ہوتا ہے ۔ تماشا الگ اس کے برعکس اگر صبر کرے زیادہ کرایہ دے بھی دیا جائے تو دل کڑھتا ہے ، آہ نکلتی ہے جو کبھی کسی کے لئے اچھی صاف بات ہے کسی کے لئے نہیں ہو سکتی ۔
اسی طرح راستوں میں روڈوں کو دیکھیں ، روڈوں کی حالتوں کو دیکھیں جن کی ہر وقت مرمت ہوتی ہے ، انہیں چاہئے کہ ہر کسی کا سفر آسان ہو وقت کم لگے ۔ لیکن سڑکیں جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی کہیں تو بجری مٹی، گاڑ ی کی رفتار نہ ہونے کے برابر کہیں کھڈے ، کہیں اونچ، کہیں پانی، کچرا پتھر نہ جانے کیا کیا جبکہ ارد گرد سنبھلنے کی بھی گنجائش نہ ہو تو سواروں کو نہ پیدل چلنے والوں کو تو اس نا انصافی سے کتنی انتقا می کارروائیاں ہوتی ہیں ، آپ سوچ سکتے ہیں؟
گالی گلوچ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا حکومت کو کوسنا ، اپنی قسمتوں کو رونا ، رہا سہا غصہ ڈرائیور حضرات پر نکال کر ان کو جلا بھنا کر کبا ب بنا دینا جن کے سبب سے حادثات کو نہ صرف فروغ ملے بلکہ جان ہتھیلی پر رہے ۔ محض بلدیاتی اداروں کی ناانصافی ! کہ اپنا کام احسن طریقے سے نہ انجام دے کر لوگوں کی آہ لیتے ہیں ۔
اگر حکومتی ادارے چوکس رہیں، عوامی مسائل کو سمجھتے ہوئے سڑکوں کی مرمت اور بحالی کا کام مستقل بنیادوں پر کرتے رہیں تو اتنا منفی ماحول کبھی بھی نہ بنے ؟
اسی طرح ایک نا انصافی عوام کی طرف سے بھی ہوتی ہے ابھی پچھلے دنوں ہمارے گھر کے سامنے والی سڑک پر مختلف جگہوں پر شادی بیاہ کی تقریبات اور سالگرہ کی تقریب کی خاطر شامیانے لگائے گئے کئی جگہوں سے سڑک کے سینے پر لوہے کے بھالے گاڑے گئے ، پر زور ہوا سے بچنے اور سردی سے بچنے کے لئے سڑک کو جگہ جگہ زخمی کیا گیا، جگہ جگہ سے وہ ٹوٹ پھوٹ گئی جب گاڑیاں گزرتی جائینگی انکو مزید اکھاڑ پھینکیں گی اور یوں چند دنوں میں اتنی نازک سڑک کچی، کھڈوں کا پتھر یلا راستہ رہ جائیگی اور سڑک اپنا مقام کھودے گی۔ اس کی ذمہ داری کس کو جاتی ہے ؟
خوشیاں بناکر دوسروں کو دکھ دینا کیا اچھا عمل ہے؟ جب دوسرے دن شامیانے ہٹ چکے ہوتے ہیں تو بچاکھانا کچرےکا ڈھیربن جاتا ہے۔
جب مقدس قربانی کرتے ہیں تو بھی اہل محلہ کے ساتھ نا انصافی کرجاتے ہیں ، انکے حقوق سلب کرکے صفا ئی ستھرائی کا اچھا انتظام نہیں کرتے اور یوں بدبو تعفن اور آلائشیں مہینوں تک لوگوں کو نہ صرف مشتعل رکھتی ہیں بلکہ مختلف نوعیت کے انتقام جنم لے کر محلے کا سکون غارت کردیتے ہیں ۔ جگہیں پاک صاف ہوں، نظارے پاک صاف ہوں تو فضا خود بخود پر سکون ہو جاتی ہے۔
اسپتالوں کی سیڑھیاں ، عدالتوںکے راستے ، دکانوں کے آگے ، دکانوںکے اوپر نیچے ارد گرد کچرا کونڈی کب جچتی ہے ؟ ظاہر ہے ہر کسی کوکھلتی ہے ۔
ضرورت ہے عوام کو عوام دوست اور مہذب ہونے کی ، اپنی دینی کمی کو دور کیجئے خوف خدا اجا گر کیجئے ۔ صفائی کو اپنا کر ہی ہم لوگوں کا نا صرف حق ادا کرسکتے ہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنا بھرپور کردار نبھا سکتے ہیں ۔
کتنے دنوں سے ٹی وی پر کتوں سے متاثرہ لوگوں کی خبریں آرہی ہیں ۔ ہزارہا لوگوں نے حکومتی اداروں کو متوجہ کروایا کہ کتا مارمہم کو فوری طور پر فعال بنایا جائے مگر بے سود !
افسوس صد افسوس ابھی پڑسوں صبح میں نے اپنے ہی گھر کی بالکنی سے صبح فجر کے وقت ایک شخص کے پیچھے دوکتے لگے دیکھتے جو آگے بڑھتے بڑھتے چھوٹے بڑے ملا کر دس ہو گئے ۔ چیخ و پکار کتوں کی بھی بندہ نمازی اللہ کی حفاظت میں گزرتا گیا شکر ہے بچ گیا مگر میں سوچنے لگی ایک گلی میں ہی ہر دوسری تیسری گاڑی کے نیچے اوپر کتوں کی فیملیوں نے اپنا ٹھکانا بنایا ہواہے۔ اسپتالوں میں ادویا ت نہیں کتے مار مہم کا نام و نشان نہیں ؟
اللہ بہتر جانتا ہے اس نا انصافی کا انتقام کب اور کیسے جنم لے گا ہم تو صرف رب سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں احساس کرنے والے اور ذمہ دار حکومتی اہل کار عطا فرمائے تا کہ وہ انصاف سے کام کرے ورنہ انصاف نہ ملنے پر ہمیشہ انتقام ہی جنم لیتا ہے جو بہت بھیانک اور غیر متوقع ہوتا ہے ۔
اللہ اپنی پناہ میں سب کو رکھے ۔ عوام اپنے طور پر خدمت خلق کا فریضہ ادا کرے ، اللہ کی خاطر تا کہ ڈر خوف دور ہو اور ماحول پر سکون ہو ۔کر بھلا ہو بھلا پر کب عمل ہو گا ؟زندگی کا کیا ہے آج ہے کل نہیں اور کوئی حل نہیں ۔
کتنی عجیب بات تھی صبح فجر کی اذان اور صرف ایک آدمی نماز پڑھنے جارہا ہے باقی سڑک خالی اذان اللہ کا اعلان ، کوئی فلاح اور صلاح کی طرف آنے کو تیار نہیں سردی لگی ہے۔
نیند ہے ، دکانیں بند ، کاروبار بند، سوائے دودھ والے بیکری والے تھوڑا دن چڑھے تو پراٹھے حلوہ پوری پر وہ بھی چھوٹی دکانوں پر چائے کے کیبنز پر چائے والے باقی سارا کاروباری طبقہ سو رہا ہے ، اپنی عمر کھو رہا ہے ۔
صبح ہی صبح قدرت مہربان روشنی اور گرمی گویا توانائی کا بھر پور استقبال کرتی ہے ۔ سورج کی پہلی کرن سے آخری کرن تک خوب محنت کریں کاروبار کریں ۔
جب سہانی صبح کو ٹھکرایا ۔ راتوںکو جاگ کر فضول کاموں میں گزار دیا اور ذرا بھی فرا ئض اور سنتوں کی قدر نہ کی تو پھر ہمیں کب اور کہاں سے رحمتیں ملیں گی ؟ یہ کس کی نا انصافی ہے ؟ صحت اور رزق میں تنگی کا ذمہ دار کون ہے ؟ نا انصافی کہاں ہے ؟ سورج تو سب کے لئے روشنی ہے چراغ ہے ، آدھا دن گنوا دیا تو خسارا تو یہی نقد ہے کیسے پورا ہو گا ؟
ضرورت ہے اس بگاڑ کو سدھا رکر صحیح معنوں میں وقت اور کاروبار کا صحیح وقت کا تعین کرکے انتہائی کشیدہ صورت حال کو قابو کیا جائے اور عوا م کو دونوں جہاں کے خسارے سے بچایا جائے ۔ اچھی نیت کے ساتھ اور خود بھی بچا جائے ۔