اپنے ملک کانام اسلامی جمہوریہ پاکستان لیتے ہوئے دل کو خوشی اور سکون محسوس ہوتا ہے۔ خدا تعالی نے ہمیں کتنی عظیم ریاست سے نوازا ہے، لیکن ہم ہیں کہ اس کی ناقدری میں دن بدن اضافہ کر رہے ہیں، کیا عوام اور کیا خواص۔کسی ملک میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اس ملک کی بقاء کو سلامت رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک شعبہ بھی اگر اپنی لائن سے ہٹ جائے تو ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی گہری کھائیوں میں جا گرتا ہے۔ اسی طرح ان تینوں شعبوں کی ہم آہنگی بھی ملکی بقا کے لئے نہایت ضروری ہے۔
مقننہ کا کام کوئی قانون سازی کرنا، انتظامیہ کاکام اس پر عمل درآمد کرانا اور عدلیہ کا کام اس کی مخالفت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچاناہے۔اور تینوں شعبوں کا اپنی ذمہ داری کو بغیر کسی قیل و قال نبھانہ نہایت ہی ضروری ہے۔ آج کل آرمی ایکٹ کی باتیں بڑے زور و شور سے چل رہی ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے بل کمیٹی سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ اور وہاں سے ہوتا ہوا سینیٹ جا پہنچا ، اور بالآخر کامیابی کی چوٹیاں سر کر گیا۔ یہ کام مقننہ کا تھا، ہاں اختلاف رائے ہو جاتا ہے، کوئی حمایت میں مصلحت یا بعض اوقات مجبوری سمجھتا ہے، تو کوئی مخالفت کو کامیاب جمہوریت کا سبب قرار دیتا ہے۔ غرض یہ کہ اختلاف کا ہو جانا ایک فطری چیز ہے۔
لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا تعلق سیاست سے ہے اور نہ ہی اختلاف سے، بلکہ ان کاتعلق اخلاقی اقدار سے ہے، کہ اس سے اتنا پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے کیا اخلاق کے اس درجہ پر فائز بھی ہیں یا نہیں جس درجہ پر فائز ہونا اس مقدس پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ہمارے منتخب نمائندوں کاکام ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلے کرنا ہوتا ہے جو کسی معمولی انسان کے ہاتھوں کروانا مناسب نہیں، اس عظیم کام کے لئے غیر سنجیدہ اور مہذب نمائندوں کا ہونا ضروری ہے۔ اور کسی بھی قسم کے لوگوں کو ایوان زریں و بالا تک پہنچانے کا صرف اورصرف عوام کو حق حاصل ہے، اس کے علاوہ کوئی شخص زبردستی کسی انسان کو پارلیمنٹ کا حصہ بنا ڈالے تو اسے حقیقی معنوں میں جمہوریت کہنا جمہوری ممالک کے منہ پر طمانچہ کی مثل ہے۔
ہمارے آج کل کے پارلیمنٹ میں براجمان نمائندےکس قدر اخلاقی اقدار سے گرے ہوئے ہیں ؟ اس کا ندازہ لگانے کے لئے کچھ چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ سوشل میڈیا پر ہمارے ملک میں انسانی حقوق کی خاتون وزیر شیریں مزاری کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ وزیر دفاع کے ساتھ والی سیٹ پر بر اجمان غیر سنجیدہ حرکتیں کر رہی تھیں، اس سے ان کا کیا مقصد تھا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، لیکن بحیثیت ایک پاکستانی ، ووٹر ہونے کے اتنا حق ہمارا ضرور بنتا ہے کہ ہم اتنی آواز ضرور بلند کریں کہ ایسی حرکت کیوں کی گئی جس سے پارلیمنٹ کے تقدس کی پامالی ہوتی ہو۔ اسی طرح کچھ دن پہلے نون لیگ کے راہنما خواجہ آصف صاحب نے فواد چوہدری صاحب اور پی ٹی آئی راہنماؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نامناسب الفاظ کا استعمال کیا۔ اختلاف اپنی جگہ لیکن جب آپ پارلیمنٹ فلور پرکوئی بات یا حرکت کر رہے ہوں تو اس وقت آپ کو پوری دنیا دیکھتی ہے، اور یہ مقام کسی بھی نمائندے کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنی ذاتی بغض و عناد کو سامنے رکھ کر اختلاف کریں۔ لہذا کم از کم انسانیت کا تقاضی یہ تھا اخلاقی حدود کا مکمل لحاظ کیا جائے۔
اسی طرح ہمارے سیاسی راہنماؤں کو چاہئے کہ اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ کا استعمال بڑی احتیاط سے کریں، کہ پچھلے دنوں وزیر اعظم صاحب کے اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں تحقیقی پہلو بالکل نظر انداز کیا گیا ، جسے ملکی اور بین الاقوامی طور پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس کے بعد اگر بات ہو جائے ٹک ٹاک کی تو اس نے بھی خوب اندھی مچائی ہوئی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ کیا ماجرہ ہے۔ ہم اس بات کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتے جس کے پس منظر اور پیش منظر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو ، لیکن ظاہری منظر نامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے حل کیا جائے، اگر یہ کوئی سازش ہے تو اسے بے نقاب کرتے ہوئے اس کا سد باب ہونا چاہئے۔
اس طرح جب کبھی پارلیمنٹ میں کسی بات پر اختلاف رائے ہو جائے تو اس وقت پارلیمنٹ میں عجیب و غریب قسم کی آوازیں اور اخلاق سےعاری نعرہ بازی سننے کو ملتی ہے، اور اس کے علاوہ میڈیا ٹاک شو میں الفاظ کا جو تبادلہ ہمارے صاحب منصب لوگوں کے درمیان ہوتا ہے انسان اس گفتگوکو سن کر حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو اس قسم کی گفتگو کو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر سننا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ یاد رہے کہ یہ ہمارے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، جو پورے ملک کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔
ان تما م باتوں کو نظر انداز کئے بغیر اگر سوچا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ایک عجیب قسم کی مضحکہ خیز سیاست ہمارے ملک میں پروان چڑھ رہی ہے، جس میں اختلاف سے زیادہ نفرت، اور کسی مؤقف کی تردید سے زیادہ تضحیک پائی جاتی ہے۔ اپنے مفادات میں سنجیدہ جبکہ عوامی مفادات میں غیر سنجیدہ رویہ ہمیں تشویش میں ڈالے ہوئے ہے۔اور پھر ہمارے عوام بھی انصاف سے کام نہیں لیتے جس سیاسی جماعت کا وہ چشمہ پہن لیں اس کی غلط بات کی بھی اچھی تاویل کر ڈالتے ہیں اور جس سیاسی جماعت سے نفرت ہو اس کی اچھی بات میں بھی تاویل کر کے اسے غلط قرار دیا جاتا ہے، اور بعض اوقات کسی خاص انسان سے ذاتی بغض وعناد کو سامنے رکھ کر رائے قائم کی جاتی ہے۔اور نتیجہ یہ ہی نکلتا ہے کہ پھر گھما پھرا کر یہی لوگ جانے انجانے میں ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں۔
جب تک بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے میں اخلاق کے دائرہ میں رہ کر غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنےکی عادت پیدا نہ ہوگی، تب تک ایک حقیقی لیڈر شپ سے محرومی ہمارا مقدر رہے گی، اور ہم اپنی ترقی کےخواب صرف خواب کی حد تک محدود دیکھیں گے۔اور اس مضحکہ خیز سیاست کے نتیجے میں اخلاقی پستی اور شائستہ تہذیب سے عاری معاشرہ کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔