عزیز بہنوں ہم میں سے اکثر خواتین وقت کی کمی اور ذمہ داریوں کے انبار کا گلہ کرتی نظر آتی ہیں -بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آج کے اس جدید ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کے دور میں نت نئے مشاغل اور تفریحات میسر ہونے کے باعث ہر شخص ہوا کے گھوڑے پر سوار ، وقت کی ڈگر پر سرپٹ دوڑتا دکھائی دیتا ہے ۔
چونکہ خواتین پرذاتی مصروفیت کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوںخصو صا”بچوں کی نگہداشت اور پرورش کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ،جو کہ ایک ”فل ٹائم جاب “ ہے، لہذا ان کی مصروفیت بھی دوگنی ہو جاتی ہے ۔
ہمارے پیارے” نبیﷺ نے فرمایا “ عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی نگران ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی بھی نفس پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے گا “ یقین جانیں کہ جو ذمہ داریاں اور فرائض ہمیں دی گئی ہیں انہیں پورا کرنے کی مکمل صلاحیت بھی اس پاک پروردگار نے ہمیں عطا کر رکھی ہے ۔
مسئلہ صرف اس صلاحیت کواستعمال کرنے کے طریقۂ کار میں ہے ۔
اس کائنات کی تخلیق سے پہلے ربَ کائنات نے ہماری بقا اور سلامتی کے سارے اسباب اور وسائل بنائی اور مکمل physibility planing ( منصوبۂ عمل )کے تحت قیامت تک کے آنے والے انسانوں کا لائحہ عمل تر تیب دیا۔
کائنات کا یہ نظم وضبط اﷲ تعالی کی سنت ہے ، اور بحیثیت نائب کے ہم سے بھی وہ ایسے ہی طرز عمل کی توقعہ رکھتا ہے ۔
سال2020ء کا آغاز ہوگیا -دنیا کے باقی تما م ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی سب کچھ اسی کیلنڈر کی مناسبت سے ہوتا ہے مثلا” گرمیوں کی چھٹیاں جون ، جولائی ہی میں ہوتی ہیں ،سالانہ امتحا نات مارچ میں ،قومی بجٹ جون میں یہاں تک کے شادی بیاہ میں تاریخ طے کرنے کے لیے بھی اسی کیلنڈر سے مدد لی جاتی ہے ۔
لہذا یہ بہترین موقعہ ہے آئندہ آنے والے سال کی منا سب پلاننگ کر لیں ۔مثلا” مارچ کے سالانہ امتحانات کے بعد جب بچے نئی اور بڑی کلاس میں جائیں گے تو فیس میں بھی یقینا ”اضافہ ہو گا اور سلیبس خریدنے کے اخراجات بھی ہوںگے ۔۔آپ اس یقینی خرچ سے نمٹنے کے لیے سال کے آغاز ہی سے کچھ نہ کچھ بچت کریں تاکہ عین وقت پر کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
اسی طرح اگر اس سال کے دوران کسی قریبی عزیز کے گھر شادی کی تقریب متوقع ہے تو اپنے کچھ غیر ضروری اخراجات کو روک دیں ،اور عقلمند خاتونِ خانہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے تحفے کا بندوبست پہلے ہی سے کر رکھیں ۔
پیاری بہنوں موجودہ دور بلا شبہ فتنوں کا دور ہے ۔ بحیثیت ایک مسلمان عورت کے ہمیں خود کو اور اپنے اہل وعیال خصوصا”اپنے بچوں کو ان سے بچانا ہے ۔
ہمارے نبیؐ کا ارشاد ہے کہ “ مومن کبھی غافل نہی ہوتا “
اور عربی زبان کی کہاوت ہے جو شخص فتنوں سے نا واقف ہو تو بد ترین انجام سے وہ کیسے فتنوں سے بچ سکتا ہے؟
اس کے لیے ہمیں چوکنا رہنا ہے ، اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں، انہیں اپنے سےقریب رکھیں ، اگر گزشتہ سال ہم مصروفیت کے باعث ایسا نہی کر پائی اور ہمیں یہ لگ رہا ہے کہ بچے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر غیر ضروری وقت صرف کر رہے ہیں تو نئے سال میں بچوں کو وقت کی قدر کرنا سکھائیں اور انہیں تعمیری کاموں میں مصروف کرنے کی کوشش کریں۔
مثلا ” انہیں اچھی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دلائیں۔ ہو سکے توگھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنا لیں ، جس میں بچوں کی دلچسپی بڑھانے کے لیے اسلامی ، سائنسی اور تاریخی کتب کے ساتھ تفریحی کہانیوں کی کتب بھی ہوں تاکہ بچے یکسانیت کا شکار نہ ہوں،اور کتابوں سے لگائو بڑھے ۔
عزیز بہنوں ہمارا ملک شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے ، جس کی وجہ سے نئے ٹیکس اور قیمتوں میں اضافے کا بوجھ بھی عوام پر بڑھتا جا رہا ہے ،اس آنے والے سال میں بھی ہمیں اسی نوعیت کے مسائل سے گزر نا ہوگا۔ جبکہ ہمارے گھروں کے کمانے والے مردوں کی آمدنی میں تو اضافہ ہوتا نظر نہیں آرہا ۔
اس سلسلے میں ہم خواتین ان کا ساتھ دینے اور مشکل وقت سےنکلنے کے لیے زیورات ، کپڑوں اور میک ا پ جیسے لوازمات کی لا محدوداور غیر ضروری خریداری سے گریز کریں اور اشد ضرورت کے بغیر کچھ نہ لیں ۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اوقات گھروں سے باہر کچرا پھینکنے کی ذمہ دار ہم خواتین ہی ہوتی ہیں، صفائ نصف ایمان ہے پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے گھر کو تو خوب صاف ستھرا کرلیتی ہیں مگر گھر کا کچرا چپکے سے باہر پھینک دیتی ہیں۔ گندگی کے باعث مختلف قسم کے امراض پھیل جاتے ہیں۔ اس کچرے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے ارد گرد کے لوگ ہوتے ہیں جو سخت بد تہذیبی کی بات ہے ۔
پیاری بہنوں قیامت کے روز سب سے پہلے حقوق العباد میں دو پڑوسیوں کا مقدمہ ہی پیش ہو گا ۔اس نئے سال کے آغاز ہی سے آپ اصول بنا لیں کے اچھے مسلمان اور اچھی پڑوسی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے گھر کے ساتھ اپنے محلےاور علاقے کی صفائ کاخیال رکھیں گی اور آئندہ کبھی گھر سے باہر کچرا پھینک کر دوسروں کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث نہیں بنیںگی ۔
اگر بہن بھائیوں پڑوسیوں یا سسرال والوں سے کوئی رنجش ہےتو نئے سال کا آغاز اﷲ کی رضا کے لیے ، تمام گلے شکوے معاف کر کے صلح میں پہل کریں ۔
کچھ نہ کچھ وقت نکالیں اور غور وفکر کی عادت بنائیں ۔ گزشتہ سال حقوق اﷲ اور حقوق العباد میں جو بھی کمی کوتاہی سرزد ہو گئ اسے دور کرنے کی پوری کوشش کریں ۔کیونکہ جو وقت گزر گیا وہ لوٹ کر نہیں آئیگا ، اور آنے والے وقت کا کچھ پتہ نہیں ، ہماری مدت عمل نجانے کب ختم جائے؟
پختہ تر ہےگردشِ پیہم ہے جامِ زندگی
ہے یہی اے بے خبررازِدوامِ زندگی ۔