ہمارا معاشرہ اور ذوق ِ انفرادیت

انسان کو اللہ رب العزت نے اپنا نائب بنایا ، انسانوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے اس بات کو اپنے مطلب سے سمجھا اور نعوذ باللہ زمین پر اپنی خدائی کے دعوے کرنے بیٹھ گئے، یوں خود نمائی یا ذوق انفرادیت کو خوب تقویت پہنچی ۔ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ دنیا کو اپنی پہچان نمایاں سے کرائے، اپنے ہونے کا ہر ممکن احساس دلائے اب اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کائنات پر یا پھر کم از کم اپنے اردگرد رہنے والی قدرت پر غور کرے ۔ انسانوں کی اکثریت تو اپنے انسان ہونے کی دلیل تلاش کرتے کرتے ہی اس دار فانی سے منتقل ہوچکی ہے ۔

ایک اور بات بھی زیر مطالعہ رہی کہ لوگوں نے انفرادی شہرت کے نشے کیلئے دولت اور طاقت کا بھی بے دریغ استعمال کیا ۔ ایک وہ دوربھی تھا جب عقیدت اور احترام کیساتھ شہرت سینہ با سینہ ہوا کرتی تھی، لوگ نام تو کیا حوالوں کو سن کر نظریں جھکائے ہاتھ باندھے تعظیم سے کھڑے ہوجایا کرتے تھے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو آج بھی شہرت کے حقیقی منسب پر براجمان ہیں جن کی تصویریں تک تخیلاتی بنائی گئیں۔ ایسی شہرت پانے والوں نے انسانیت کیلئے کام کیا جس کا منہ بولتا ثبوت انکی شہرت ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں ہوئی اور ہر خطے میں ہوئی یہاں تک کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں انکے کام کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تراجم پیش کئے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی خدمات الغرض تھیں ، یہ وہ لوگ تھے جو تعبیدار تھے، جن کا وقت قدرت کی کاریگری کو سمجھنے میں گزرتا تھا، پھر یہ قدرت کے ماتحت ہوتے چلے گئے اور قدرت نے انکی عقیدت اور احترام کے بدلے میں دنیا والوں کو انکا عقیدت مند بنا دیا ۔ جبکہ محدود ذرائع ابلاغ بھی محدود لوگوں کو منتخب کرنے کا سبب بنے رہے ہونگے۔

معاشرے میں مختلف قسم کے ڈھب (فیشن)ہمیشہ سے ہی آتے جاتے رہے ہیں ایک مخصوص طبقہ اس ڈھب کو متعارف کرانے پر خود کو معمور کئے ہوئے تھا اور اس طبقے کا فعل معاشرے کے دوسرے طبقوں تک مختلف طریقوں سے منتقل کیا جاتا تھا یا پھر ہوجاتا تھا۔ خود نمائی یا ذوق انفرادیت کی وجہ سماجی میڈیا نہیں کیونکہ یہ تو اکیسویں صدی کی پیداوار ہیں ۔

اخبارات ، رسائل اور پھر ٹیلی میڈیا کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ انسان نے ہمیشہ خود نمائی کی تگ و دو کی ، لوگوں نے فلاحی کاموں کا بھی لبادہ اوڑھا کہ کسی طرح سے دنیا انہیں پہچان لے ۔آج انفرادی نظر آنے کیلئے لوگ مذہب جیسے حساس موضوع پر بیدریغ بحث کر رہے ہیںاور بد قسمتی تو دیکھیں کہ اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ایسی ایسی دنیاوی دلیلیں دے رہے ہیں کہ خدا روز محشر اپنے غیظ سے محفوظ رکھے۔ ایسی صورت حال کا فائدہ سماجی میڈیا کے میڈیا ہائوسسز بنانے والوں نے خوب اٹھایا ہوا ہے اور مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) سے بات شروع ہوئی اور اب تو براہ راست ساری دنیا میں کہیں بھی اور کبھی بھی بیٹھ کر یا جیسے بھی چاہیں رابطے ہوسکتے ہیں۔

گھوم پھر کر یہ بات ذہن میں آرہی تھی کہ آج ہر فرد ہی انفرادیت کی کوششوں میں کیوں مصروف دیکھائی دے رہا ہے ؟ پھر ایک بار اس شوق کے پیچھے سماجی میڈیا دیکھائی دے رہا ہے، جس کی مرہون منت لمحوں میں شہرت کی بلندیوں کو چھوا جاسکتا ہے اور لمحوں میں ہی پاتال کی تہہ کو دیکھ کر آیا جاسکتا ہے ۔ اس بات سے شائد ہی کوئی اختلاف کرے کہ انسان خود پسندی اور خودنمائی کا شوق ہمیشہ سے ہی رکھتاہے ، لیکن تعلیم کی کمی اور اعتماد کے فقدان نے اس شوق کو سسکیاں لیتا چھوڑ دیا ۔ بدلتے ہوئے وقت میں ہمارے معاشرے میں سماجی میڈیا کہ توسط سے جتنی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یقینا اتنی تبدیلیاں صدیوں میں بھی رونما نہیں ہوئیں ۔بنیادی طور پر معاشرے میں رائج ڈھب اپنی اقدار کے منافی نا ہوں تو اقدار کو تقویت ملتی ہے اورمتعارف کیا جانے والا ڈھب کسی بھی طرح سے معاشرے پر منفی تاثر نہیں چھوڑتا، لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈھب کا اقدار کے ساتھ تصادم نا ہوا ہو، کیونکہ بغیر تصادم کے ڈھب کی پہچان ہی نہیں بنتی جو کہ ایک منفی طرز معاشرت کی طرف توجہ مبذول کرتا دیکھائی دیتا ہے۔

عمر کے ایک مخصوص حصے میں انسان میں خود نمائی کا شوق امڈ کر آتاہے اور وہ اس بات کا منتظر رہتا ہے کہ اب کوئی اسکی خدمات کا، اسکے کارنامے کی اور یا پھر اسکے ملبوسات کی تعریف کرے گا اور اسے نسلِ نو کی صحیح معنوں میں رہنمائی کرتا بتائے گا ، اسکے نام کا طوطی بولے گا، جب کبھی اس خود نمائی کو تقویت ملی تو ذوق انفرادیت بڑھنا شروع ہوا۔ اب وقت آیا کہ ہر وہ کام کیا جائے جو اب تک کسی نا کیا ہو یا پھر جس کے بارے میں ہر عام نا جانتا ہو۔تقلید کو خیرباد کہنے کی ٹھانی اور نئے راستوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔

زندگی مختلف مدارج میں تقسیم کی گئی ہے ۔ لیکن ایک اشرف الخلق دوسرے انسان کو ہر درجے میں مرعوب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جسے جس مدارج میں موقع میسر آتا ہے اور یہ موقع نہیں جانے دیتا۔ کوئی اپنے خاص طرز زندگی سے متاثر کرنا چاہتا ہے تو کوئی اعمال سے دنیا کو زیر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔آج کھرے کھوٹے کا پیمانہ ، کھوٹہ ہوچکا ہے۔ یہ تو سوچ لیں کہ کسی کو بدنام کرکے نام بنایا تو کیا بنایا ، کسی کی لاش پر پیر رکھ کر فتح کا جشن منایا تو کیا منایا، کسی کو دربدر کرکے محل بنایا تو کیا بھلا کیا بنایا۔خود نمائی سے خدانمائی پر کام کریں جو سرعام نہیں بلکہ رات کی تاریکی میں ملتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس نے خدا کو پالیا وہ پھر خود ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے پھر اسے کبھی بھی کسی سماجی میڈیا کی ضرورت نہیں پڑتی۔

جہاں تک راقم الحروف کی دانست میں ہوسکا تحریر کیا گوکہ اس بات سے بھی انحراف نہیں کے یہ ایک مکمل اختلافی مضمون ہوسکتا ہے لیکن حقائق کو تو ہمیشہ سے ہی مخالفت کا سامنا رہا ہے اور مخالفت نہیں ہوگی تو پھر اس مضمون کا تاثر تو معاشرے پر کچھ خاص پڑا ہی نہیں۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں