نوجوان کسی بھی قوم کا کل اثاثہ ہوتے ہیں، انہی کے کاندھوں پر ملک کا معاشی انحصار ہوتا ہے اور یہی جوان طاقت اپنی صلاحیتوں سے ملک کا نام ہر شعبے میں روشن کرتے ہیں، دیکھا جائے تو با صلاحیت ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونہار نوجوانوں میں معاشی استحکام اورروزگارکے سلسلے میں بے یقینی پائی جاتی ہے۔ دنیا میں نوجوانوں نے جب بھی کسی تحریک کا آغا ز کیااس نے اپنا ثمرات سے بہترین مثالیں قائم کی۔ بلا شک و شبہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی عزم کے منزل بننے تک کا جو سفر طے ہوتا ہے، اس میں مستقل جدجہد کرنا پڑتی ہے،قربانیاں دینی ہوتی ہیں۔
اگر دنیا بھر کی تحریکوں پر نظر ڈالی جائے تو ہمیںان میں نوجوانوں کا بہت اہم کردار دکھائی دے گا،مثلاََ قائد اعظم ؒ کی آواز پر بر صغیر کے مسلم نوجوان نے لبیک کہہ کر تحریک پاکستان کا پیغام گلی گلی قریہ قریہ پہنچایا،نوجوانوںکی انتھک محنت کا پھل مسلمانوں کو ایک آزاد مسلم ریاست پاکستان کی صورت میں14اگست1947 کوملا۔ ماؤزے تنگ نے نوجوانوں کے ساتھ مل کر افیون زدہ چین کوخاص بالادست طبقہ سے چھڑایا،تو روس کی انقلابی تحریک کہ جس میں کسانوں نے غیر مساوی طبقہ اشرافیہ کے خلاف اعلان جنگ کیاتھا جس میں سب سے زیادہ تقویت نوجوانوںکو بخشی، جنہوں نے اپنی حسین جوانیاں تحریک کی کامیابی کے لیے کھپا دیں۔نوجوانوں کی ان قربانیوں کے نتیجہ میںدنیا نے دیکھا کہ روس میں غیر مساوی نظام کی جڑیں کھوکھلی ہوئیں اور انقلاب روس کی کامیاب تحریک نے کسان کی طاقت کا ڈنکا بجایا،اگر انقلاب ِروس کی تحریک میں نوجوان نہ ہوتے تو یہ تحریک کمزور نحیف کسانوں کے کاندھوں پر کب تک اور کتنا عرصہ چل سکتی تھی؟
سیاسی ، سماجی ،معاشی سطح میں نوجوانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ہر شعبہ میں نوجوانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجودیہ طبقہ ہر طرح کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوکر قوم کی نمائندگی کے لیے تیار ہے لیکن ملک پر 5 فیصد طاقت ور لوگ قابض ہیں،جس کی وجہ ملک دن بدن پڑھے لکھی سمجھدارا جوان قیادت کی توانائیوں سے محروم ہو رہا ہے۔ ملک سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد اس لیے باہر ملک جاری ہے کہ یہ بات اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ، حکومت نے ہمیشہ سے اسی طبقہ سے سراسر ناانصافی،بے توجہی برتی ہے۔ انہیں نوکری ملتی ہے نہ ہی حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی۔ جس ڈگر پر گورنمنٹ نوجوانوں کو دھکیل رہی ہے وہاں سوائے مایوسی کے اندھے کنوائیں کے کچھ نہیںہے، یہ اس طبقے کے ساتھ سفید دھوکہ نہیں تو کیاہے؟
حکمران تو اپنی رعایا کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں، وہ سچ بولتے ہیں ، سچ سنتے ہیں ، جھوٹ سے نفرت کرتے ہیں اور حقیقت چاہے سخت تلخ کیوں نہ ہو عوام سے نہیں چھپاتے۔لیکن ہمیں گزرے ماہ و سالوں میں کسی ادوار میں جھانک کر دیکھنے کے بعد ایسے نگینے نہیں ملتے جنہوں نے کبھی کڑوی گولی کھا کرعوام کے سامنے سچ کہاہو اور اس حقیقت سے منہ نہ موڑا ہوکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے تین گناہوں میں سے ایک چھوڑنے کا وعدہ کیا کہ میں جھوٹ ، شراب نوشی اور چوری میں سے کسی ایک کو چھوڑ سکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جھوٹ چھوڑ دو‘‘ ۔ مگرجھوٹ چھوڑنے کی برکت سے وہ دوسرے دوگناہوںچوری اور مہ نوشی سے بھی بچ گیا۔
موجودہ حکومت کو بھاری اکثریت سے عوامی نمائندگی دینے کے پس پردہ کوشش یہی کارفرما تھی کہ موجودہ حکومت نے ملک پر سیاسی باریاں لینے والوں کا کھل کرتیاپانچا کیا،عوام کو باور کرایا گیا کہ جنہوں نے کئی کئی سالوں تک ملک پر حکمرانی کی انہوں نے عوام کو سوائے مہنگائی،بے روزگاری ،نا انصافی اور غریب کو کچھ نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے ملک قرضوں میں ڈوب گیا، زندگی کی جملہ ضروریات کی فراہمی مشکل تر ہوگئی ،پانی ،بجلی ،گیس دینے کے وعدے کرنے والے،روٹی کپڑا ،مکان کے خواب دیکھانے والوں نے عام آدمی کو مجبور کردیا تھا کہ وہ ایسی منتخب سیاسی مشینری کو ووٹ دیں جو عام آدمی کی آسودہ حالی کے لیے دن رات کام کرے۔
انصاف بلا تفریق مہیا ہو، اقتصادی زبوں حالی کا خاتمہ ہو،افسر شاہی نظام کا قلع قمع ہو اور پہلی بار ملک کا مستقبل بوڑھے کاندھوں سے نوجوان کاندھوںپر منتقل ہو،لیکن عوام کی توقعات بر آور نہ ہوئیں۔ یہاں بھی وہی اپنوںکی نواز سازی ہوئی، انصاف کا جنازہ بڑے دھوم سے نکلا ، سیاسی مفاہمت کو سرے بازار الٹا لٹکا دیاگیا، سیاسی دشمنیوں کی آڑ میں عوام کی رگ وپے سے ٹیکس کے نام پر باقی ماندہ خون بھی نچوڑ لیا گیاکیوں کہ وہ سیاست ہی کہ جس میں دھڑکتا ہوا دل ہو۔