روز نامہ جسارت (اخبار) میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ “دینِ عمرانی” کی ریاست مدینہ میں خرابی کی اصل جڑ کہاں پر واقع ہے اور اسی لئے پتوں، شاخوں اور تنوں کو کاٹنے سے کسی بھی قسم کی خرابی کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔
خبر کے مطابق “سائیٹ (کراچی) سپر ہائی وے تھانے کی حدود میں جمالی پل کے نزدیک بنگلے میں شیشہ بار کی آڑ میں منشیات کا اڈہ قائم ہے”۔ ایک تو یہی بات سمجھ سے باہر ہے کہ
” شیشہ“ خود ایک ممنوعہ” منشی“ چیز ہے تو پھر شیشہ بار کی ”آڑ“ کی کیا تک بنتی ہے۔ اس جملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیشے کا نشہ کرنا، اس کے نام پر کسی کاروبار کو کھولنا اور نوجوانوں کو تباہ برباد کرنا نہ صرف کوئی جرم نہیں بلکہ “دین عمرانی” کی ریاست مدینہ میں اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ اس حرام کام کے ذریعے جو بھی دولت حاصل کی جائے گی وہ حلال اور جائز ہوگی اور اس دولت کے جمع کرنے اور اپنے کاروبار کو مزید ترقی دینے کی حکومت پاکستان کی جانب سے مکمل آزادی حاصل ہوگی۔
یہ بات ہر عام وخاص کے علم میں خوب اچھی طرح ہے کہ پاکستان میں شیشہ بار یا ہوٹل کھولنے پر سخت پابندی ہے تو کسی بھی مقام پر شیشہ بار کھولنے یا شیشے کا روبار کرنے کی اجازت کسی کو بھی کیسے حاصل ہوئی۔ جب ایک غیر قانونی کار و بار کی اجازت دی ہی گئی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس اجازت کی آڑ میں دیگر ناجائز کام یا کار و بار نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ خبر کی تفصیل میں کہا گیا ہے کہ ” چائے بیٹھک کے نام سے قائم منشیات کے اڈے پر آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو حقہ شیشہ، چرس، آئیس اور شراب فراہم کی جاتی ہے”۔ غضب یہ ہے کہ اس ہوٹل میں بات شیشے، چرس اور آئیس سے بھی آگے نکل کر ناچ رنگ، رقص و سرور اور شباب تک جا پہنچی ہے، لہٰذا اس کام کیلئے اس “چائے خانے” میں بہت سارے ایسے “خانے” بھی بنا دیئے گئے ہیں جہاں سخت ترین سردیوں میں بھی گرم گرم بستر اور بستروں کو مزید حرارت بخشنے والے ساز و سامان میں مہیا کئے جاتے ہیں۔
ویسے تو پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر یا قصبہ ایسا ہو جہاں عیاشیوں کے اڈے قائم نہ ہوں جو ایک نہایت قابل افسوس بات اور لائق تعزیر جرم ہے لیکن اس سے بڑھ کر جو افسوس اور اذیت کا مقام ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں اس قسم کے زیادہ تر کاروبار قانون نافذ کرنے والوں کی سر پرستی میں ہو رہے ہیں۔ اسی خبر کی تفصیل میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ شیشے کے نام پر کھولے گئے اس ہوٹل کو مقامی پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔
خبر کچھ یوں ہے کہ ” اڈہ تھانہ سائیٹ سپر ہائی وے کے ایس ایچ او کی سرپرستی میں قائم کیا گیا ہے”۔ اس سر پرستی کے عوض مقامی پولیس کو خوش رکھنے کیلئے شیشہ ہوٹل والے بھتا پہنچاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور تھانے کے اہلکار اس شیشہ ہوٹل سے صرف بھتا ہی وصول کرتے ہونگے یا وہ تمام شیطانیت بھی حاصل کرتے ہونگے جو نوجوان نسل اپنی بربادی کی صورت میں حاصل کر رہی ہے؟۔ کوئی بھی صاحب فہم اس بات سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ جب ہر قسم کے ناجائز اور حرام کاروبار کی سر پرستی کی جائے گی تو سرپرست اعلیٰ اور ان کے گماشتے کیسے اس لعنت سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
اس میں کسی قسم کا کوئی بھی شک نہیں کہ ایسے کاروبار پر نظر رکھنا اور کسی بھی جگہ و مقام پر ایسا ہوتے دیکھ کر اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کا ہوتا ہے، لیکن جب قانون نافذ کرنے والے ادارے خود ہی لا قانونیت پر اتر آئیں تو پھر مجرموں پر ہاتھ ڈالنا کسی بھی طورپر ممکن نہیں رہتا۔ کسی بھی قسم کی غیر قانونی سر گرمیوں میں شریک ہو کر، ان کی عیاشیوں میں اپنے اپنے منھ کالے کرنے کے بعد، ان سے بھتوں کی شکل میں لاکھوں کی حصے داری کرنا اور ان کیلئے آسانیاں اور تحفظ فراہم کرنا جیسے مذموم امور انجام دینے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ پھر کسی جمے جمائے کاروبار کی بیخ کنی کی جا سکے۔
اس قسم کا تعاون مجرموں کے حوصلے بڑھا دیا کرتا ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ بلیاں اور کتے شیر بن جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسی ساری شراکت داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے اور پھر یہی ذلت و رسوائی عوام میں اداروں کا اعتماد ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔ بلیاں اور کتے کیسے شیر بنتے ہیں اس کا اندازہ مہران ٹی وی کی ٹیم کی جانب سے کیے گئے اسٹنگ آپریشن کے دوران اس اڈے کے انچارج کے بیان سے خوب اچھی طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ “پولیس کے ساتھ معاملات طے ہیں وہ اس اڈے کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کرسکتی”۔ ظاہر ہے کہ جب تھانے کا ایس ایچ او اور اس کا عملہ گھنائونے کاروبار کا شریک ہوگا اور اڈا اس کے منھ میں ہر روز ہڈی ڈال دیا کرتا ہوگا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تھانے کا انچارج یا وہاں کا عملہ فحاشی کے اڈے کے انچارج کے سامنے غرا سکے۔
کسی بھی قوم، رہنما، ادارے یا فرد کو خراب کرنا ہو اور ان سب کو اپنے اپنے فرائض منصبی سے باز رکھنا ہو تو اس کا آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اس کر “حرام” اور “مردار” کھانے اور فحش حرکات میں لگادیا ئے اور اس طرح ان کو اس گدھ کی مانند بنا دیا جائے جو مردار خوری کی وجہ اپنی پر واز میں “کوتاہ” ہوکر اپنے سے کہیں چھوٹے شاہین و شہپر کی پرواز کے مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔
یہی حال ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہو چکا ہے جو خواہش نفس کا شکار ہو کر اپنے فرائض منصبی کو بھول بیٹھے ہیں اور جس کی وجہ سے گلی کوچوں کے آوارہ کتے بھی بستی بستی، گاؤں گاؤں اور شہر شہر شیروں کی طرح دہاڑتے اور غراتے پھر رہے ہیں، یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم نامے اور اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے منشیات کے خلاف جہاد کے اعلانات کے باوجود شہر بھر میں اس طرح کے اڈوں کا قیام ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔
تمام قانون نافذ کرنے والوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی اس غفلت کا شکار صرف عام شہری اور ان کے بچے ہی نہیں ہونگے بلکہ ان کے اپنے ذاتی کردار کی خرابی کا زہر خود ان کی اولادوں کے اندر تک بھی ضرور اترے گا اور پھر ایک زمانہ وہ بھی آئے گا کہ وہ جس مجرم پر بھی ہاتھ ڈالیں گے وہ خود ان کے اپنے ہی بچے ہونگے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک یہ بات بھی اچھی طرح نوٹ کر لینی چاہیے کہ وہی تمام مجرمان اور غیر قانونی سرگرمیوں میں سرگرم افراد یا ان گروہوں کے سرخیل جن کا تحفظ، دانستہ یا نادانستہ طور پر ادارے فراہم کر رہے ہوتے ہیں، ایسے گروہ یا افراد رازوں کا ایک بہت بڑا خزانہ اپنے پاس، خود اپنے تحفظ کیلئے جمع رکھتے ہیں اور اپنی سزا سے بچنے کیلئے ان کو افشاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
جس کی ایک مثال “حریم شاہ” کی صورت میں پاکستانی قوم کے سامنے ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی عزت پر سوالیہ نشان کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ ایک عام سی عورت جس کا کوئی مضبوط ماضی بھی نہیں ہے، آج کل وہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بہت اہم شخصیت کے روپ میں دیکھی جا رہی ہے۔ اسے نہ تو کسی بھی قسم کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی اپنی کسی بے غیرتی پر پشیمانی۔ جس عام سی “گشتن” کا یہ حال ہو کہ وہ حساس ترین مقامات تک کی پہنچ رکھتی ہو اور کسی بھی اہم شخصیت کی پگڑی اس کی جوتی کی نوک پر رکھی ہو، تو پھر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گے گی کہ اسے کسی ادارے یا پولیس کی فوج ظفر موج نے نہیں، ان رازوں نے محفوظ رکھا ہوا ہے جو اس کی پٹاری میں بند ہیں۔ وزیراعظم سے لیکر حکومت کی مشینری کے سارے اہم عہدیدار اس کی مٹھی میں کسے ہوئے ہیں اور بقول “حریم شاہ” اس کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لئے کہ ایک جم غفیر “حریم زدگی” کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ حکومتی عہدیداروں کو ہی نہیں، تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر یہ چاہتے ہیں کہ وہ آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں تو لازم ہے کہ ان سب کو “گڑ کھانا” چھوڑنا پڑے گا ورنہ دین عمرانی کی ریاستِ مدینہ میں نہ تو کبھی قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے کی عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔
پاکستان کو اگر تمام پشیمانیوں سے بچانا ہے، قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے اور اس کو ایک فلاحی مملکت کی جانب گامزن کرنا ہے تو ہر قسم کی گناہوں اور لغزشوں اور ہر قسم کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکتوں سے بہر صورت دور رہنا ہے بصورت دیگر انجام کار دیواروں پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے۔