چند کرپٹ دوستوں کو بچانے کی کوشش میں لگتا ہے، ہزاروں چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کو بھی بنا کسی احتساب بخشنا پڑ جائے گا۔ نیب قوانین میں ترمیم کے بعد جب سارے ارکانِ اسمبلی، وزرا، بیوروکریٹ، سرکاری ملازمین، ایسے لٹیرے جو بہت ہی حقیر سی رقم (50 کروڑ روپے تک) کی بد عنوانی کے مرتکب ہوں اور سارے تاجر حضرات پر نیب ہاتھ نہیں ڈال سکے تو پھر رہ کون جائے گا؟ جس کا احتساب کیا جائے؟ اب رہ جاتے ہیں وہ رکشہ ڈرائیور، دودھ اور سبزی فرش جن کے نام پر کھربوں روپوں کے جعلی اکاؤنٹ کھلے ہوئے ہیں، وہ شاید نیب کی گرفت میں آ جائیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا رکشا ڈرائیورز، دوھ اور سبزی فروش کسی بھی قسم کی تجارت کی درجہ بندی میں شمار نہیں کئے جا سکیں گے؟
موجودہ حکومت آئی ہی اس لئے تھی کہ وہ پاکستان کے کسی بھی کرپٹ فرد کو نہیں بخشے گی۔ کرپٹ افراد کو نہ صرف ان کے انجام تک پہنچائے گی بلکہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت کو بھی واپس لیکر آئے گی۔ یہ نعرہ اتنا پُر اثر تھا کہ “قومِ یوتھ” ہی نہیں، پاکستان کے 22 کروڑ سے زیادہ افراد ہر قسم کی مہنگائی اور تنگ دستی برداشت کرنے کیلئے تیار تھے، لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ خواہ انھیں گھاس ہی کیوں نہ کھانی پڑے، پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے نہ صرف اپنی سزا کو پہنچیں بلکہ اب تک پاکستان کو لوٹنے کے بعد جو سرمایہ بھی باہر منتقل کیا جا چکا ہے وہ ملک میں لوٹ کر واپس آئے تاکہ حال میں نہ سہی لیکن مستقبل میں پاکستان بد عنوانی سے پاک ایک روشن اور ترقی کرتا ہوا ملک نظر آئے۔
انسانوں کی بنائی ہوئی کوئی بھی شے کیوں نہ ہو، اس میں تبدیلیاں آتی ہی رہتی ہیں خواہ وہ ایجادات ہوں یا زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط، جس میں ملک کا آئین و قانون بھی شامل ہے۔ ہم اکثر آئین و قانون کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ ہمارا آئین ”مقدس “ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ”مقدس “ صرف اور صرف اللہ کا دیا ہوا آئین (قرآن مجید) یا آسمان سے اتارے گئے صحیفوں کے علاوہ کوئی بھی کتاب یا آئین ”مقدس “ ہو ہی نہیں سکتی۔
کیوں کہ انسانوں کی بنائی ہوئی کوئی بھی ایجاد یا کوئی بھی تحریر ”تقدیس“ کے درجے پر فائز ہو ہی نہیں سکتی اسی لئے اس میں لمحہ بہ لمحہ ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔ کسی بھی ایجاد یا تحریر میں تبدیلی و ترمیم کا مقصد صرف اور صرف ان میں مزید حسن و نکھار پیدا کرنا، مزید مفید بنانا یا انسانوں کی مزید فلاح و بہبود کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ ایجادات میں مزید بہتری لانے یا انسانوں کے بنائے ہوئے آئین و قانون کی نوک پلک سنوارنے کا ایک یہی مقصد ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں پہلے سے زیادہ آسانیاں پیدا ہوں اور معاشرہ فلاح و ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔
معاشرے کو مزید سنوارنے کیلئے جو بات بہت زیادہ ضروری ہے ان میں اور بہت ساری باتوں کے علاوہ اہم بات جرائم کا خاتمہ بھی ہے اور جرائم میں کرپشن یا کسی بھی قسم کی بد عنوانی بھی ایک سنگین ترین جرم ہے، جس کیلئے ضروری ہے کہ اس قسم کے عناصر کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی رعایت نہ کی جائے اور ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔ اس عمل میں دوستوں، دشمنوں، امیروں، غریبوں، بے بسوں، بااثروں، محکوموں اور حاکموں کے درمیان کسی بھی قسم کا کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ دنیا کے تقریباً سارے ترقیاتی ملکوں میں ایسا ہی ہے اور وہاں کسی کی بھی بد عنوانی کو برداشت نہیں کیا جاتا اور قانون سب عام و خاص کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے۔
پاکستان میں بھی احتساب کا سلسلہ شروع ہوا تو عوام کو اس بات کا اطمینان ہوا کہ چلو ایک اچھا کام تو شروع ہوا اور اب جلد یا بدیر، سارے چور لٹیرے اور ڈاکو قانون کی گرفت میں آہی جائیں گے۔ نیب قوانین میں ترمیم کے ساتھ ہی مہنگائی، ٹیکسوں اور بد عنوانی کے شکنجے میں کسے جانے والے عوام کو اس وقت سخت مایوسی ہوئی جب معاملات اس کے برعکس سامنے آنا شروع ہوئے۔ ایک ایسا عمل جو تمام تر انتقامی کارروائی کا تاثر لئے ہوئے ہونے کے باوجود امید کی یہ رمق پیدا کر تا ہوا دکھائی دے رہا تھا کہ آج نہیں تو کل بچ جانے والے لٹیرے بھی قانون کی گرفت میں آہی جائیں گے، اس امید نے پہلے سے گھُٹ جانے والے دم کو بالکل ہی توڑ کر رکھ دیا۔ جب ملک کا وزیر اعظم یہ کہہ رہا ہو کہ ترمیم کے اس اقدام سے میرے ان چند دوستوں کیلئے خوشخبری ہے جو نیب کی پنجہ احتساب کی گرفت میں ہیں تو پھر باقی رہ ہی کیا جاتا ہے۔
نیب کے قوانین میں ترمیم ایک ایسا قدم ہے جو آج کل سخت تنقید کی زد میں آیا ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہی کیا، اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور سب سے بڑھ کر خود حکومتی صفوں میں شامل افراد اس ترمیم کو” این آر او “ کا نام دیتے نظر آ رہے ہیں۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ ”حکومت نے پارلیمنٹ کوبے وقعت بنا دیاہے۔ احتساب کے نام پر آنے والی حکومت نے 15ماہ میں احتساب کو مذاق بنا دیا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے حکومت نے نیب کے پر کاٹنے کی کوشش کی ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمران بھی نیب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں“۔ دیگر سیاسی جماعتوں، دانشوروں، تجزیہ و تبصرہ نگاروں اور ٹی وی اینکر پرسنوں کی طرح پی پی کی جانب سے بھی نیب ترمیمی آرڈیننس پر شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ پی پی پی نے نیب آرڈیننس کو مدرآف این آر او قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب آصف علی زرداری نے کہا کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے تو کہا گیا کہ ہم این آر او مانگتے ہیں، آج نیب آرڈیننس لاکر حکومت نے اپنے ساتھیوں کو این آر او پلس دیدیا ہے۔
نیب کے قوانین میں کی جانے والی ترمیم پر نہ صرف پورا پاکستان حیران ہے بلکہ ملک کا کوئی ایک بھی سنجیدہ طبقہ ایسا نہیں جو اس پر تنقید نہ کر رہا ہو۔ عمران خان سے امیدیں باندھنے والے سارے ہمدرد بھی اس ” یوٹرن“ پر شدید حیران ہیں ، اس لئے کہ وہ اب اس پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ اس ترمیم کے بعد اس کے حق میں کسی دلیل کا سہارا لیکر قوانین میں کی جانے والی ترامیم کا دفاع کر سکیں۔
کسی بھی پارٹی کے ہمدردوں کیلئے کوئی بھی ایسا مرحلہ جس کا وہ دفاع نہ کر سکیں، سخت امتحان ہوتا ہے۔ یہی معاملہ آج کل پی ٹی آئی کے ہمدردوں کو درپیش ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت مسلسل یو ٹرن پر یو ٹرن لیتی آئی ہے۔ وہ کسی بھی جذباتی ماحول کی وجہ سے یا کسی بھی قسم کے دباؤ کا شکار ہوکر کوئی فیصلہ تو کر گزرتی ہے لیکن جیسے ہی اس پر بیشمار حلقوں کی جانب سے منفی رد عمل آنا شروع ہوتا ہے وہ ایک” موڑ “ کاٹ لیتی ہے اور اپنے ہی کہے گئے یا کئے گئے دعوئوں یا فیصلوں سے پھر جاتی ہے۔ موجودہ فیصلہ جو نیب کے قوانین میں ترمیم کی صورت میں سامنے آیا ہے اس پر ظاہر ہونے والے اپنے اور پرایوں کے رد عمل سے لگتا ہے کہ حکومت ایک مرتبہ پھر سخت الجھن کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت ترمیمی آرڈیننس کا نوٹیفکیشن نکالنے کے بعد اس آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں لانے کے متعلق سوچ رہی ہے، چنانچہ حکومت کی جانب سے یہ کہا جانا کہ وفاقی حکومت نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 پارلیمنٹ میں لائے گی، ایک اورموڑ کاٹنے کی جانب اشارہ ہے۔
حکومت نے اب تک جو جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے عوام پہلے ہی سخت مایوسی کا شکار تھے لیکن سیاسی ہمدردیاں ایک دن میں ختم نہیں ہوجایا کرتیں۔ مہنگائی اور بدامنی بے شک عوام کیلئے ایک بہت مایوس کن بات تھی لیکن عوام کو ایک امید خان سے یہ ضرور تھی کہ خان ملک کے کسی بھی کرپٹ انسان کو نہیں چھوڑے گا۔ نیب ترمیمی آرڈیننس نے خان کے چاہنے کو سخت دھچکا پہنچایا جس کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا جس پر خان کے چاہنے والے کسی بھی صلے کی تمنا دل میں لئے اس کے ہر ہر اقدام کی تعریف یا دفاع کرتے نظر آتے تھے، ان کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور اگر ان ترامیم کو واپس نہ لیا گیا تو اس بات کا شدید امکان ہے کہ ہمدردوں کی امید کا آخری چراغ بھی گل ہو جائے۔
یہ صورت حال دیکھ کر اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ موجودہ ترمیمی آرڈیننس کا دفاع تو مشکل ہے ہی لیکن نہ صرف اس ترمیم کی بقا مشکل نظر آ رہی ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ موجودہ حکومت کا وجود بھی کچھ غیر یقینی سا نظر آنے لگا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر قسم کے غیر دانشمندانہ اقدامات سے گریز کرے اور فوری طور پر ایسے فیصلے کرے جس کا براہ راست فائدہ عوام تک پہنچے۔