چلو ایک بات تو طے کر لی گئی کہ پاکستان کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے وہاں وہاں مسلمان اتنے بیدار ہو چکے ہیں کہ وہ خود ہی اپنے اوپر ہونے والے ظلم سے نمٹ لیں گے۔
ویسے تو ہونا یہی چاہیے تھا کہ جس دن سے پاکستان بنا تھا اس دن سے تا حال اگر پاکستان اسی پالیسی پر قائم رہتا اور دنیا میں ہونے والے کسی بھی ظلم و جبر پر زبانوں پر تالے لگا کر بیٹھا رہتا تو پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی صف اول میں نظر آ رہا ہوتا۔ دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم و ستم پر بولنے کی وجہ سے ہی پاکستان مسلسل دشواریوں میں گرفتار ہوتا گیا اور پوری دنیا سے مخاصمانہ رویے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی خراب ہو کر رہ گئی بلکہ اندورنی حالات بھی ان ہی مداخلتوں کی وجہ سے بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔
وزیر اعظم عمران خان درست ہی کہہ رہے ہیں کہ “مودی بھارت میں مسلمانوں سے وہی کرنے جارہا ہے جو ہٹلر نے یہودیوں سے کیا تھا، پاکستان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، بھارت کے مسلمان اب نریندر مودی کے خلاف کھڑے ہوں گے”۔ ہٹلر نے جب یہودیوں کے کشتوں کے پشتے لگانے شروع کئے تو یہودیوں میں (بقول ان کے) اتحاد کا جذبہ پیدا ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہودیوں نے اپنا ایک الگ ملک بنا لیا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ اگر ظلم و ستم کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے اور نکلتا آیا ہے تو بھارت میں ہونے والا امتیازی سلوک اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انجام بھی یہی ہونے والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کی بات میں بڑا وزن ہے اور بعید نہیں کہ ایسا ہی ہوجائے کیونکہ پاکستان کے سامنے اس کے اپنے تجربات بھی ہیں اور وہ ان ہی امتیازی رویوں کی وجہ سے اپنا آدھے سے بھی زیادہ ملک کھو چکا ہے اور مزید کئی علاقوں پر اپنی گرفت بجائے حسنِ سلوک سے مضبوط کرنے کے طاقت کو مصرف میں لا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل آزمائش کا شکار ہے۔
بات یہ ہے کہ یہودیوں کے ساتھ جس قسم کا سلوک ہٹلر نے کیا تھا تو صرف وہی ظلم یہودی ریاست کے وجود میں آنے کا سبب نہیں بنا تھا بلکہ یہودی ریاست بن جانے کے پس پشت امریکہ کی حمایت تھی جو آج تک یہودیوں کو حاصل ہے ورنہ نہ تو یہودیوں کی کوئی الگ ریاست وجود میں آ سکتی تھی اور نہ جس طرح اب تک یہودی ریاست کا وجود نظر آ رہا ہے، وہ ممکن تھا۔
اگر صرف ظلم و ستم ہی کسی ریاست کو جنم دے سکتا ہوتا تو چین، کشمیر، فلسطین اور میانمار کے مسلمان بھی اپنی اپنی ریاستوں کے مالک ہوتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اندرونی خلفشار بے شک ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ کا ایک بڑا سبب ضرور ہوتا ہے لیکن جب تک ان کو اپنے علاقے سے باہر کی مدد میسر نہ ہو تو عام طور پر وہ ظلم سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ مشرقی پاکستان کے حالات کو کون نہیں جانتا کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے میں بھارت کا کتنا ہاتھ تھا اور اسی طرح بلوچستان اور پاکستان کے پختون علاقوں میں افغانستان اور افغانستان کے ساتھ بھارت کی شراکت کی وجہ سے پاکستان ہر وقت کن مشکلات کا شکار نظر آتا ہے۔
بھارت کے بالکل اندرونی حالات سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو جو اس وقت کشمیر میں ہو رہا ہے وہ بے شک ناقابلِ بیان ظلم و ستم ہے۔ ایک قیامت ہے جو ان پر ٹوٹی ہوئی ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کشمیری گزشتہ 72 سال سے بھارت کے ہاتھوں اذیتوں کا شکار ہیں اور اپنی آزادی و خود مختاری کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن کیا کبھی پاکستان نے اس پر غور کیا کہ وہ تمام تر قربانیاں دینے کے باوجود اپنی جد و جہد میں کیوں ناکام ہیں؟۔ جب اسی کشمیر کو اپنا کہنے اور سمجھنے والے ہی ان کے ظلم و ستم پر کوئی عملی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تنہا اپنی جنگ جیت سکیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایک ایسی وادی جس کو پاکستان ہمیشہ سے اپنا کہتا آیا تھا، بھارت کی بھر پور کارروائی کے بعد ایسی سانس روک کر بیٹھا ہوا ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ یہی وہ موقعہ تھا جب کشمیریوں کو ذرا بھی سہارا مل جاتا تو انھیں لمحے بھر میں آزادی مل سکتی تھی۔ پاکستان کے سامنے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سارے اسباب تھے۔ بھارت کی ذرا سی مدد مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کتنا بڑا کردار ادا کر گئی تھی۔ اس سے کہیں خراب حالات (بھارت کے نقطہ نظر سے) کشمیر کے تھے اور ایک ایک کشمیری پاکستان سے مدد کی دہائیاں دے رہا تھا اور اب بھی دے رہا ہے، یہی وہ موقع تھا کہ اگر پاکستان کی جانب سے ذرا بھی سخت ایکشن لے لیا جاتا تو کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل کر پاکستان کی جھولی میں گر گیا ہوتا لیکن مصلحت پسندی نے پاکستان کو ایسا کرنے سے باز رکھا جس کی ساری کی ساری سزا کشمیریوں کو تنہا بھگتنا پڑ رہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ “مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے نریندر مودی ضرور آزاد کشمیر میں کوئی واردات کرے گا”۔ وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ “وہ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی آگاہ کرچکے ہیں، آرمی چیف نے بار بار کہا ہے کہ پاکستان تیار ہے”۔ ان کا یہ کہنا کہ مودی اپنے اندرونی حالات اور کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتا ہے، بے شک اپنی جگہ درست۔ یقیناً ان کا اشارہ اس جانب رہا ہوگا کہ وہ یا تو اس کشمیر کی جانب رخ کر سکتا ہے جو پاکستان کے زیر سایہ ہے یا ممکن ہے کہ وہ پاکستان پر بھی کوئی کارروائی کر گزرے۔ یہ سب خدشات اپنی جگہ لیکن کیا بھارت پاکستان ہی کے کشمیر (مقبوضہ کشمیر) پر حملہ آور نہیں ہوا۔ کیا جس کشمیر پر بھارت بہر لحاظ قابض ہو چکا ہے وہ پاکستان کا حصہ نہیں تھا؟ وہ کشمیر جس پر پاکستان کا ہمیشہ دعویٰ رہا، وہ اچانک بھارت کا کیسے تسلیم کر لیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے علاوہ کبھی کوئی تنازعہ رہا ہی نہیں تھا اور اب تک جتنی بھی جنگیں ہوئیں وہ ہمیشہ اسی تنازعہ کے سبب ہوئیں۔ جس کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے وہ بھارت ہی کا تھا تو پھر دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کس بات کا تھا؟
رہی یہ بات کہ بھارت اپنے حالات سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کے “آزاد” کشمیر پر کوئی کارروائی کر سکتا ہے تو میں اس بات پر حیران ہوں کہ کیا اب تک بھارت اپنی توپوں کے دہانے، گنوں کی نالیاں اور جنگی ہوائی جہازوں کے انجنوں کو بند کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جارہا کہ وہ “ایل او سی” کی خلاف ورزیاں کرکے شہری علاقوں میں رہنے والے مردوں، بچوں اور عورتوں کو شہید نہ کر رہا ہو اور فوجی جوانوں کی شہادت کا سبب نہ بن رہا ہو۔ کیا یہ ساری چھیڑ چھاڑ مذاق مذاق میں ہو رہی ہے؟ کیا یہ جارحیت پاکستانی علاقوں پر حملے کے زمرے میں شمار نہیں ہو تی؟
ملک میں بڑے پیمانے میں لگائے گئے ٹیکسوں، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا آسمان سے باتیں کرنا، صحت جیسی بنیادی ضرورت کا فقدان، معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال، خارجی اور داخلی معاملات میں پیچیدگیاں اور سیاسی چپقلیشیں جیسی صورت حال کبھی کبھی بہت ہی خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں یہ سب حالات تھے اور یہ حالات اس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ اسلام کی زنجیر تک اس کو پاکستان کے ساتھ جکڑے رہنے پر مجبور نہ کر سکی اور بقول چیف جسٹس سعید کھوسہ، امیتازی سلوک شہریوں کو علیحدگی کی جانب لیجاتا ہے، والی بات غالب آئی اور سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے نے جنم لے لیا۔
وزیر اعظم کوبھی چاہیے کہ وہ ملک سے غربت، بے روزگاری، سیاسی تناؤ، علاقوں علاقوں کے درمیان دوریوں اور انصاف میں ہر قسم کے بے اعتدالیوں کا خاتمہ کریں، مہنگائی کا سد باب کریں اور “میں نہیں چھوڑونگا” کو چھوڑ کر محبتوں کو فروغ دیں تاکہ قوم کسی بھی مشکل حالات میں دشمن کا آلہ کار نہ بن سکے۔ یہی ایک واحد راستہ ہے جو پاکستان کو مضبوط، متحد اور بیرونی مداخلت سے بچا سکتا ہے بصورتِ دیگر ضروری نہیں کہ صرف طاقت کے استعمال سے ہی کسی جنگ کو جیتا جا سکے۔
I’ve been troubled for several days with this topic. totosite, But by chance looking at your post solved my problem! I will leave my blog, so when would you like to visit it?
We want to for sharing this insightful details on always believed in the power of touch and its ability to promote relaxation and overall well-being body to body massage centres in bangalore is more than just a luxurious treat it’s an investment in your health and well-being.
Hot stone massages use heated stones to relax and soothe muscles. It’s perfect for those who want a unique and calming experience body to body massage centre in chennai
b2b spa near me with a citrus aroma infused with Jojoba seed oil and Woodsy Laurel Leaf, this oil will leave your skin feeling soft and smooth.
Take care of yourself for once, and let us do all the work. Get rid of those tension headaches with our body to body massage spa near me
You will then be taken to a private room where you will undress and get on the body to body massage centres in bangalore . The massage therapist will then apply oil or lotion to your skin and begin the massage.
body massage in hyderabad provide talented therapist technicians will leave your hands and feet looking and feeling fabulous, come and enjoy with our therapists
Create a calming ambiance with soft lighting, soothing music, and scented candles. Ensure the room is warm and comfortable visit female to male spa near me
you’ll probably feel quite relaxed and maybe even sleepy, so give yourself plenty of time to unwind. Savour the feeling of having every muscle in your body gently stretched and smoothed out at female to male spa near me 24 hours
yoga is not only important to keep the body healthy but also body massage are very important so come to our female to male body massage in chennai center soon without delay and choose and manage the hot massage girl therapists with your own service
body to body massage speeds up your circulation, allowing for skin to heal and repair itself a lot quicker from the damage and traumas you put it through on a daily basis.
all kinds of services are available only at b2b massage in chennai center, all the hot massage girl therapists here are quite capable of serving you, you can enjoy with the beautiful girls of your choice if you want
If you’re looking for a way to improve your physical and mental health because it’s solution is massage and b2b massage in bangalore is a relaxing and rejuvenating treatment that can help to improve circulation, relieve pain, and reduce stress.
Are you worried to daily life like office tension, family tension then don’t worry rati gives you more relax of your body and mind. visit body to body massage centres in bangalore
Lisha suggest that massage may have a positive impact on the immune system, potentially increasing the body’s ability to fight off illness. so take female to male spa near me 24 hours .
Book your appointment today through our website or give us a call to full service spa in hyderabad near me centre, our receptionist always free for receive your call