دوسری اور آخری قسط
نظم و ضبط کے متعدد معنی اور تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔بامقصد سرگرمیوں میں ایک تناسب سے ترجیحات کی بنیاد پر لائحہ عمل کے تعین کو نظم و ضبط کہتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر نظم و ضبط تدبیر اور کام کی تقسیم اور مستقبل میں اسے انجام دینے کے فیصلے سے عبارت ہے۔”کام کی انجام دہی سے قبل تدبیر اور منصوبہ بندی آدمی کو پشیمانی سے محفوظ رکھتی ہے۔“کردار کو ابتدائے آفرینش سے آدمی کے برتاﺅ پر قابوپانے والی ایک طاقت ور عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے جو کسی کے طرز عمل اور صحیح طرز عمل کوسمجھنے ،مطلوبہ عادات و برتاﺅ کی تشکیل اور زندگی کی کارکردگی میں توازن و حسن پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔درس و تدریس کے دوران ماہر اساتذہ عمدہ برتاﺅ و کردار کی اہمیت، وضاحت اور اسے مثبت طرز زندگی سے مربوط کرنے میںہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔عمدہ برتاﺅ،پسندیدہ رویوں ،بہترین کردار کو طلبہ کی زندگیوں کا جزو لاینفک بنانے کے لئے اسکول تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی خاص اہتمام کریں اور کردار ورویوں کی تشکیل و فروغ میں اساسی نکات پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔اچھے اساتذہ کے ذریعے روبہ عمل لائے جانے والے بہتر پروگرامس جو بچوں میں عمدہ کردار کی قدرو قیمت کو اجاگر کرتے ہیں دراصل طلبہ میں خود انضباط(Self Control)کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔اساتذہ مدارس میں ایسے پروگرامس کا آغاز کریں جوانفرادی شخصیت کی نشوونما،اعتماد،تحفظ اور احترام کے احساس کو جاگزیں کرنے میں معاون ہوںتاکہ طلبہ کی ایک متوازن ہمہ جہت و ہمہ گیر شخصیت ابھر اور نکھر سامنے آسکے۔طلبہ کی شخصیت وکردار کو موثر و بہتر بنانے کے لئے ان کے اند پائے جانے والے جذبہ خیرخواہی و نیک نیتی کی مناسب حوصلہ افزائی اورمسلسل رہبری ورہنمائی کی انجام دہی ضروری ہے۔ انسان کے اچھے یا برے ہونے میں عموماً تین عوامل اثر انداز ہوتے ہیں
(1)فطری صلاحیتیں جو بچے کو میراث میں ملتی ہیں جسے وہبی صلاحیت کہا جاتا ہے۔
(2)دوسرا بچوں کی ذہنی، جسمانی نشوونما ، تربیت و کردار سازی میںوہ ماحول جہاں وہ اپنی عمر گزارتا ہے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بچہ اپنے ماحول سے اچھائیاں اوربرائیاں سیکھتا ہے۔
(3)شخصیت و کردار کی تعمیر میں تیسرا عامل تعلیم و تربیت ہے۔تعلیم و تربیت میں اساتذہ کے علاوہ سب سے بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے۔والدین سب سے پہلے بچے کے ذہن میں اچھائی اور برائی کا تصور پیوست کرتے ہیں۔والدین ہی اچھائیوں اور برائیوں کے درمیان تمیز اور احساس کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔بچوں کے کردار میں والدین کے اثرات،گھر کا ماحول ،خاندان،پڑوس ،محلہ اسکول،اساتذہ اور تدریسی مواد (نصابی کتابوں)کا اہم کردار ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ مذکورہ عوامل انسان کی شخصیت پر اس حد تک اثراندازہوتے ہیں کہ یہ انسان کی فطرت تک کو بدل سکتے ہیں۔ایک بچے کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو اس کی ابتدائی زندگی گھر(خاندان،محلہ )،ماحول اور مدرسہ کے اردگرد گردش کرتی نظرآتی ہے۔بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں ان تینوں مقامات کا بنیادی کردار ہے۔ان تینوں مقامات میں کسی ایک مقام پر کہیں کچھ نقص رہ جائے تو بچے کی نشوونما پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچے کی ذہنی،جسمانی ،روحانی،تعلیمی،اخلاقی نشوونما کے لئے ان تینوں اداروں کے مابینہم آہنگی ،یکسانیت اور تعاون نہایت ضروری ہے۔ اسی لئے بچوں کی تربیت کے لئے ان تینوں مقامات کی اصلاح بے حد ضروری ہے تاکہ بچے کے کردار پریہ مثبت اور موثر طریقے سے اثر انداز ہوسکےں۔مستقبل کا معاشرہ بچوں سے تعمیر ہوتا ہے ۔ تربیت کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو بچوں کی نظرسے ہی دیکھا جائے،ان کی شخصیت کو تسلیم کریں ،ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے،ان پر بھروسہ و اعتبارکریں۔
گھر اور ماحول: ایک مثالی معاشرہ جس معیار کے انسانوں کا ہم سے تقاضہ کرتا ہے درحقیقت وہ آسمان سے نہیں اترتے ہیں بلکہ ان کی نمو بھی اسی خاک سے ہوتی ہے۔معاشرہ افراد کی یکجائی کا نام ہے۔کسی بھی فرد کی تربیت میں اس کا گھر اہمیت کا حامل ہوتاہے۔بیشتر گھروں کا ماحول ہی ایسا ہے جہاں بچے والدین کی توجہ،محبت وشفقت سے محروم ہیں روحانی اور اخلاقی تربیت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔خاص کر مسلم گھرانوں میں ضروری ہے کہ گھر کی اینٹیں اللہ کی اطاعت اور حب رسول پر رکھی جائے۔اسلام بچوںکوابتدائی عمر سے ہی اخلاقی اور معاشرتی خوبیوں کا خوگر بنا ناچاہتا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں ہم اپنی اولاد کا حق ادا کررہے ہیں۔والدین پر بچوں کی جو ذمہ داری ہمارے مذہب نے ہم پر عائد کی ہے کیا اس سے ہم عہدبرآں ہورہے ہیں۔جہاں باپ کی کمائی شرعی کسوٹی پرپوری نہیں اترتی ہے وہیں ماں کی جگہ انٹرنیٹ،موبائل فون اور ٹی وی معلم بن کر بیٹھی ہے۔اب تو مائیں بچوں کو کھانا کھلانے اور انھیں چپ کرانے فون دے کر گلوخلاصی میں عافیت سمجھ رہی ہیںتاکہ انھیں کسی قسم کی مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ماضی بعید کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نہ تو باضابطہ اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں ہواکرتی تھیں نہ آج کی طرح تعلیم کا آسان چلن عام تھاپھر بھی ناخواندہ ماﺅں نے اپنے پانچ پانچ چھ چھ بچوں کو حافظ قرآن بنایا اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ان ناخواندہ ماﺅں کے بچوں نے اپنے علوم و فنون کا ساری دنیا میں لوہا منوایا۔آج اعلیٰ ٹکنالوجی وسیع و وافر وسائل رکھتے ہوئے بھی نہ ہم اچھے والدین بن سکے اور نہ ہی اچھے استاد۔بچوں کی کردار سازی کے لئے اپنے گھروںکے ماحول کو پاک بنانا بے حد ضروری ہے۔تربیت میں نفرت ،سختی اورکجی کے بجائے محبت،شفقت اور نرمی سے کام لیں۔عربی کا قول ہے ”قلوب الرجال وحشیتہ فمن تالفھااقبلت علیہ“ ترجمہ ؛انسان کا قلب وحشی ہوتا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ اس کی جانب جھک جاتا ہے۔والدین اپنی اولاد سے محبت و شفقت کا اظہار کرنے لگیں گے کہ تو بچے بھی ان کی باتوں کو مزید توجہ سے سننے اور ماننے لگیں گے۔اپنی محبت سے والدین بچوں سے عاطفی و قلبی تعلق خاطر کو مستحکم کرسکتے ہیں اور انھیں نیکی اور بھلائی کے کاموں کی جانب راغب و مائل کرسکتے ہیں۔
اسکول معاشرے کی تعمیر میں دوسری اینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر مردم سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے۔جہالت کی ظلمتوں میں بھٹکتی انسانیت کے لئے اسکول ایک پاور ہاﺅس کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے ساری انسانیت کو روشنی کی تقسیم عمل میں آتی ہے۔بچہ جب اپنے گھر سے باہر اسکول کی دنیا میں پہلا قدم رکھتا ہے تب تک وہ آداب ،ظرافت ،شائستگی،نظم و ضبط سے بڑی حد تک بے خبر رہتاہے۔اسکول صرف معلومات کی فراہمی کا کام انجام نہیں دیتا ہے بلکہ بچے کو صحیح طرز زندگی سے واقف کرواتا ہے۔ اسے مثبت اور کارآمد زندگی گزارنے کے رہنما اصولوں سے آگاہ کرتا ہے۔اسکول بچے کو اچھائی اور برائی میں تمیزسکھانے کے ساتھ خوف خدا،سچائی وحق پرستی سے کام لینے و اس کا ساتھ دینے ،انسانیت ،محبت ،مروت،مودت،احسان ،سلوک کی تعلیم و تربیت فراہم کرتا ہے ۔تغیر پذیر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے تیار کرتا ہے۔باہمی تعاون و اتحاد اور عمدہ اخلاق ،عادات و کردار کی تشکیل و فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔صبر وتحمل اور اجتماعیت کا درس بھی بچے اسکول سے ہی سیکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت و کردار سازی میں مذکورہ عناصر نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کا منشاءو مقصد بچوں کو نیک و صالح بنا نا ہوتا ہے۔اگر ان تینوں اداروں میں سے کوئی کوتاہی یا خراب کا شکار ہوجائے یا ان میں صحیح تامیل و تعاون نہ ہو تب انجام کار بہت ہی خراب ہوتا ہے۔والدین ،ماحول اور مدرسے کو منظم و مربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔گھروں میں اگر اچھے برے کا التزام ہوگا تب بچے بھی ان اصولوں کے تحت پرورش پائیں گے اور جب اسکول کا رخ کریں گے تب حقیقی معنوں میں تعلیم وتربیت سے فیضیاب ہوسکیں گے۔اگر گھر میں نظم و ضبط ،اخلاق و کردار پر توجہ نہ دی جائے تو ایسے گھروں کے بچے اسکولوں میں داخل بھی ہوجائیں تو بھی حقیقی معنوں مین تعلیم و تربیت سے فیض نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ایسے بچوں کی فکر و عمل میں لاشعوری طور پرتضاد پایا جاتا ہے جو مستقبل میں خطرناک نفاق کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ والدین ،اساتذہ اور ذمہ داران مدرسہ اپنے فرائض کو اتم طریقے سے انجام دیں۔والدین گھر کو اعلیٰ اخلاق اور نظم و ضبط کا نمونہ بنائیں۔اساتذہ طلبہ کو معاشرے کے لئے کارآمد اور انسانیت کا علمبردار بنائیں۔ذمہ داران مدارس تعلیم و تربیت میں مددگار وسائل و ذرائع کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ بچوں میں اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط ،اخلاق و کردار پروان چڑھ سکے۔
رویوں کی نگرانی(Monitoring the Behavior):۔
نظم و ضبط (ڈسپلن) ،اچھے رویے و کردارکی تعمیر پر جہاں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی وہاں بداخلاقی برے برتاﺅ جیسے چوری،فریب،دھوکے بازی،کذب بیانی(جھوٹ)، ہم جماعت ساتھیوں سے لڑائی جھگڑا،اسکول کی املاک کو نقصان پہنچانا یا تباہ وبرباد کرنا،خلل پیدا کرنا(Creating Distrubances)،گندی اور فحش زبان کا استعمال،دوسروں کو پریشان کرنا،اساتذہ سے بے عزتی سے پیش آنا اور اس طرح کے کئی خراب رویے طلبہ میں جگہ بنانا لیتے ہیں۔عموماً اساتذہ بچوں کے ان خرابوں رویوں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اگر کبھی طلبہ کے خراب رویوں سے ان کا سامنا بھی ہوجاتا ہے تو اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کے لئے ”ہم طلبہ کے ہر مسئلے پر نظر نہیں رکھ سکتے“جیسی لنگڑی تاویلات سے کام لیتے ہوئے اپنے فرائض سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اساتذہ اگر اپنے پیشے سے حقیقی و دیانتدارانہ وابستگی رکھتے ہیں تب انھیں ایسے مسائل کو حل کرنا اور بچوں کے خراب برتاﺅ پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ ان میں عمدہ کردار و اخلاق کو فروغ دیا جاسکے۔ہر تغیر وتبدیلی کے عمل میں جس طرح شعور (آگہی)،عمل پیرائی اور تبدیلی کی خواہش کلیدی کردار ادا کرتی ہے بالکل برتاﺅ کی تبدیلی میں بھی شعور(آگہی)،عمل پیرائی اور تبدیلی کی خواہش یہ تین عنا صر بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
برے برتاﺅ کی تبدیلی کا آغاز خراب برتاﺅ کے شعور واادراک سے ہوتا ہے اور جب خرا ب برتاﺅ کا ادراک ہوجائے تو اسے درست کئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہئے۔عمل درآمدگی یا عمل پیرائی سے مراد دوسروں کے مقبول و پسندیدہ رویوں کو اپنی زندگی کا جزو بناناہے۔ اپنے تمام خراب اور مستردشدہ رویوں کو مقبول و پسندیدہ رویوں سے تبدیل کرنے کو تبدیلی کہا جاتا ہے۔اساتذہ حدود سے تجاویز کرنے والے ،معاشرتی و سماجی اصولوں سے روگردانی اور غیر پسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث طلبہ پر گہری نگاہ رکھیں۔طلبہ کے خراب اور برے برتاﺅ کے جو مسائل عمومی طورپرمشاہدے میںآئے ہیں ان میںہم عمر ساتھیوں سے تال میل ومیل جول کی خرابیاں ، ٹکراﺅ،سماج دشمن رویے،خود تخریبی (خود اذیتی)رویے،شخصیت کی خراب شبیہ ،عزت نفس کا فقدان و کمی کے مسائل جذباتی عدم توازن سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں ان میں از خود ایک ادارکی صلاحیت فروغ پانے لگتی ہے جوصحیح اور غلط کے درمیان فرق کو سمجھنے میں معاون و رہنما ہوتی ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ضمیر کی حقیقی طاقت طلبہ کے اچھائی اور برائی کے مابین تمیز کرنے کے واقعات و تجربات کی شرح پر منحصر ہوتی ہے۔طلبہ کو مختلف اقدار سے روشناس کرتے ہوئے اساتذہ تدریسی حالات و تجربات کو موثر طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے بچوں میں اچھی راہوں ا ور بہتر اقدارکی منتقلی کا کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ کے برتاﺅ کی نگرانی میں اساتذہ کو غایت درجہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ اپنے خراب برتاﺅ و رویوں کو درست وتبدیل کرنے یا پھر ان پر قابو پانے کے لئے اگراساتذہ سے مدد نہ بھی طلب کریں تب بھی اساتذہ پوری دیانت داری سے طلبہ کے برتاﺅ و رویوں کی اصلاح میں مددفراہم کریں۔ خراب برتاﺅ و طرز عمل کے مسائل کا علیحدہ جائزہ لئے بغیر اصول ،ضوابط ور تحدیدات کے سہارے اساتذہ اگر خراب رویوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے منفی عواقب و نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بچوں کا طرز عمل اور بدتر ہوجاتا ہے ۔اساتذہ ان حقائق کی روشنی میں بڑی سنجیدگی و توجہ سے طلبہ کے برتاﺅ اور رویوں پر مبنی مسائل کا جائزہ لیں،ان کے تدارک کے لئے موثر طریقے کار اور ضروری اقدامات کریںجو خراب و غیر پسندیدہ رویوں کی اصلاح میںمعاون و مددگار ہوتے ہیں۔ مثبت شخصیت کی نشوونما میں حائل خراب و نا پسندیدہ رویوںسے طلبہ کو شخصی طور پر آگاہ کریں۔اساتذہ کی جانب سے بروقت کئے جانے والے یہ بیش قیمت اقدامات بچوں میں ہر طرح کے برے رویوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
بعض اوقات اساتذہ کوطلبہ میں پائے جانے والے رویوں و برتاﺅ کے مسائل کی تجزیاتی تشخیص انجام دینی ہوتی ہے۔موثر لائحہ عمل اور اصلاح و رہبری کے لئے مسائل کی وجوہات و حل سے متعلقہ تمام مناسب اعداد و شمارکو اکٹھا کرنا ضروری ہوتا ہے۔بعض طلبہ اپنے رویوں کی خرابی کے مسائل جو ان کی شخصی نشوونما اور ترقی میں سدراہ بن جاتی ہے سے لا علم رہتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے مسائل کا علم تو رہتا ہے لیکن خود سے اسے حل کرنے یا قابو پانے سے قاصر رہتے ہیں ۔اساتذہ کوچاہئے کہ وہ ایسے مسائل کا جائزہ لیں اور ان کا سد باب کریں۔طلبہ کو جذباتی عدم توازن سے نبرد آزمائی کے راستے اور طریقے تلاش کرنے ،مناسب رویوں کے فروغ کی اساتذہ تحریک دیںتاکہ وہ ان مسائل کا کامیابی سے سامنا کریں اور ان میں مثبت طرز زندگی بسرکرنا کا جویا پیدا ہو۔
برتاﺅ و رویوں کے مخصوص مسائل:۔
اسکولی زندگی میں موثررویوں کے انصرامی پروگراموں پر کامیاب عمل آوری کے لئے پہلے سے موجودا و ردرآنے مختلف رویوں کے مسائل کا علم و آگہی ،وسیع پیمانے پر ان خراب رویوں اور ان مسائل سے مرتب ہونے والے منفی اثرات ،اس کے تدارک او رسدباب کا علم اساتذہ کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ذیل میں بچوںمیں پائے جانے والے متعدد طرزعمل و رویوں کے مسائل کی اہم وجوہات بیان کی گئی ہیں جس سے بچوں میں برتاﺅ ورویے کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
(1)بچوں کا ذہنی خلفشار و کشمکش جو کہ عموماًگھریلو حالات کی بنا پیدا ہوتاہے یہ بچوں میں بدنظمی اور چڑچڑا پن پیدا کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔
(2) جذباتی عدم توازن اور جذباتی خلفشار کا سامنا کرنے کی وجہ سے بچوں میں بد نظمی اور بے قابو طرزعمل کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
(3)اساتذہ اور طلبہ کے مابین بہتر تعلقات اور گفت و شنید کے فقدان کی وجہ سے بچے ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان سے باغیانہ برتاﺅ کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(4)پست عزت نفس کے حامل طلبہ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جو خراب برتاﺅ کی زمرے میں آتی ہیں اور اس طرح کے برتاﺅ کے مسلسل ارتکاب سے ان میں برے برتاﺅ کی خراب عادت جڑپکڑلیتی ہے۔
(5)اساتذہ جب طلبہ کو ان کے حقیقی جوہر ،اختراع،تخلیقیت اور قابلیت کی نمائش و اظہار کے مواقع فراہم نہیں کرتے ہیں تب بچوں میں عدم اطمینان کی فضا پیدا ہوجاتی ہے جو انھیں برے برتاﺅ پر مائل کرتی ہے۔
(6)طلبہ جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کو اساتذہ کی محبت اور شفقت حاصل نہیں ہے تو وہ خود کو جذباتی طور پر جکڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان میں عدم تحمل اور بے صبری کی کیفیت جاگزیں ہوجاتی ہے جو انھیں خراب برتاﺅ پر ابھارتی ہے۔
(7)طلبہ کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ دوسرے طلبہ کی طرح پڑھائی نہیں کرسکتے ہیں اور ان میں صلاحیتوں کا فقدان ہے تو ان میں پڑھائی سے عدم دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اسکولی اوقات کو ایسی سرگرمیوں میں صرف کرنے لگتے ہیں جو ہرگز قابل قبول نہیں ہوتی ہیں۔ایسے طلبہ کو جب مناسب طریقے سے نہیں سنبھالاجائے تب ان کا برتاﺅ دیگر کئی جماعتوں کے لئے باعث تشویش ہوجاتا ہے۔
(8)کمرئہ جماعت میں خود کو الگ تھلگ رکھنا،دوسروں سے تعاون و تعامل میں ہچکچاہٹ وگریز کرنا،معمولی معمولی بات پر پریشان ہوجانا،لگاتار خراب مظاہرہ کرنا وغیرہ بچوں کے ذہن کوسیکھنے کے اصل دھارے سے کاٹ دیتا ہے اور اس طرح کے یہ منفی ردعمل ان کے لئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔
اچھے برتاﺅ و نظم و ضبط کا فروغ
کمرئہ جماعت ہی مدرسہ کی (کلاس روم) وہ واحد جگہ ہے جہاں نظم و ضبط (ڈسپلن) کے تمام اصول و ضوابط کا اطلاق اور عمل پیرائی ممکن ہے۔کمرئہ جماعت میں اساتذہ اپنی بھر پور شفقت توجہ اور اخلاق کردار اور رویوں کی احسن تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ میں اطاعت فرمانبرداری اور اصولوں پر عمل پیرائی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص سخت گیری ،ترش روی اور طاقت کے زور پر بچوں میں اطاعت ،فرمانبرداری اور نظم و ضبط کی فضا کو ہرگز پروان نہیں چڑھا سکتا ۔یہ آفاقی حقیقت ہے کہ سخت مزاجی اور طاقت کے ذریعہ نظم و ضبط قائم ہی نہیں ہوسکتاہے ۔چند سخت اصولوں کو بچوں پر مسلط کرتے ہوئے ہم نظم و ضبط کی صورت حال کو ہرگز درست نہیں کرسکتے۔ ایسے اقدامات توانائی اور وقت کے ضیائع کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔نظم و ضبط کے حاکمانہ طریقے ،یہ مت کرو،وہ مت کرو کی بے جا بندشوں سے بچوں میں صحت مند آزادی اظہار وآزادی بودو باش کے جذبات تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔لگاتار سزاﺅں،ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ نظم و ضبط کی حقیقی روح کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اساتذہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا لازمی ہے کہ سخت گیر رویے اور دھمکی آمیز مکالمات و اقدامات سے عمدہ نظم و ضبط کی فضاکبھی بھی ہموار نہیں کی جاسکتی۔
ا ساتذہ جب طلبہ کو ایسے حالات جو انھیں صحیح طرزعمل،ردعمل کے درست طریقہ کار،زندگی کے صحیح و بہتر رویوں سے روشناس کرنے اور ان کی اہمیت و معنویت پر غورو فکر کرنے پر مائل کرتے ہیں تو ان میں اپنی تبدیلی کا ایک جذبہ ومحرکہ ازخود جنم لینے لگتا ہے۔اساتذہ بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا جب اہتمام کرتے ہیں تو بچے اپنے رویے اور برتاﺅ پر قابو پانے کے لئے خود سے چند اصول و طریقے وضع کرلیتے ہیں۔اساتذہ اچھے طرز عمل ،صحیح رویوں اور مطلوبہ پسندیدہ عادات کو طلبہ میں استوار کرنے کے لئے کلاس روم کی سرگرمیوں کے دوران ہونے والی گفتگو اور مواقعوں سے بہتر طریقے سے استفادہ کریں۔ کلاس روم کو اگر تبدیلی کی مثالی تجربہ گاہ (Ideal Transforming Laboratories)سے معنون کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کمرئہ جماعت ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں شخصیت کی کامیاب نشوونما میں معاون ،مقبول و پسندیدہ رویے جیسے تعاون،اکتساب بذریعہ امداد(Learning by Helpiing) ،باہمی احترام واکرام ،مہذب و شائستہ طریقہ اظہار اور دوسروں کے بارے میں احساس فکرمند ی جیسے تجربات کامیابی سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔یہ تجربہ گاہیں (کلاس رومس) بچوں کو آنے والی زندگی کے نشیب و فراز میں بھی اخلاق و اقدار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ طلبہ میں پائے جانے والی ہر قسم کی بے راہ روی جو عام طورپر سرکش رویوں، زبانی جارحیت،توڑپھوڑ،مارپیٹ ،لڑائی جھگڑے اور غنذہ گردی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو زندگی کے حسن و نغمگی کو تباہ کردیتی ہے کی بروقت اصلاح کی متقاضی ہوتی ہے تاکہ منفی رویوں کا تدارک ہوسکے۔
بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنا اور نظم و ضبط کے کارگر اصولوں کو ان کے ذہنوں میں پیوست کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بچوں میں تعمیری نظریات،ذمہ داری اور رواداری کی برقراری کے لئے اسکولی سطح پر تمام ڈسپلن پالسیوں پر فعال عمل آوری سے قبل موثرمنصوبہ بندی،نتیجہ خیز اقدامات اور گہر ے فکر و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ ہمیشہ ایک نکتہ اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیں کہ مناسب اور تعمیری ڈسپلن کے بغیر درس و تدریس کے مطلوبہ مقاصدکا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اساتذہ طلبہ کے علم و معلومات کے افق کو وسعت دینے کے ساتھ ان میں معیاری طرز عمل اور پسندیدہ اطوار کے فروغ کی باقاعدگی سے سعی و کوشش کریں۔اساتذہ کی یہ کوشش نہ صرف طلبہ کو ایک خوشحال اور محفوظ زندگی فراہم کرنے میں مددگار ہوگی بلکہ طلبہ سماج اور معاشرے کی آرزﺅ ں اور ارمانوں کی تکمیل کا بھی ذریعہ بن جائیں گے۔اساتذہ بچوں میں ایک ایسا احساس جاگزیں کردیں جو انھیںہمیشہ صحیح کاموں کی انجام دہی اور ترقی کی سمت آمادہ کرتا رہے۔ذیل میں چند ایسے بنیادی عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے جو طلبہ میں اچھے طرزعمل(برتاﺅ) اور نظم و ضبط کو تقویت دینے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
(1)اساتذہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرئہ جماعت کے حالات ان کے سبق کی ضروریات کے لئے موزوں و مناسب ہوں اورجو طلبہ کی زندگی میں صحیح طرزعمل(برتاﺅ) اور عمدہ اخلاق و اقدار کو جاگزیں کرسکیں۔
(2)طلبہ میں ایک زندہ و متحرک ضمیر کو یقینی بنائیں تاکہ وہ اچھی عادات ،عمدہ اخلاق ،بہتر رویوں اور اقدار کے انتخاب میں ان کی رہبری کرے ۔مذکورہ رویوں کا طلبہ میں جاگزیں ہونا ہی درحقیقت اخلاقی نشوونما کی معراج ہے۔
(3)کلاس روم کے انضباطی کاروائیوں کا ایک خاکہ تیارکریں،جو لکچدار ہو لیکن مضبوط کردار کی تعمیر میں معاون رہے۔انضباطی اصول بہت زیادہ سخت اور قابل تعزیر نہیں ہونے چاہئے کیونکہ ایسے اصول سخت ناراضگی اور آزردگی کا باعث بنتے ہیں۔
(4)کمرئہ جماعت میں دوران تدریس طلبہ کواخلاقی اقدار سکھانے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔زندگی میں اصول اور اقدار کی اہمیت کو اجاگر کریں اور بتلائیں کہ زندگی اور دنیا کا حسن ان ہی سے قائم ہے۔ طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات نقش کردیں کہ اخلاق و کردار کی قدر و قیمت اور اہمیت تمام مادہ پرستانہ کامیابیوں اور فوائد سے بالا تر ہے۔
(5) بچوں کی عزت نفس کو مجرو ح اور نقصان پہنچانے والے جارحانہ اظہار،دھمکی آمیز لہجوں اور انتہائی رویوں اور تاثرات سے اساتذہ گریز کریں۔یہ طرزعمل طلبہ کو ان سے متنفر کردیتا ہے اور ان میں خراب رویے جڑپکڑنے لگتے ہیں۔
(6)نیکی کے حسن اور بدی کی قباحتیں ،مثبت طرز عمل کے فوائد اور منفی برتاﺅ کے نقصانات سمجھانے سے طلبہ میں اچھے رویوں اور اخلاقی اقدار کی جانب رغبت بڑھتی ہے اور اعلیٰ طرزعمل رویوں اور اخلاقی اقدار کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
(7)کمرئہ جماعت یا کسی گروہ میں جب بچوں میںاجنبیت کا احساس باقی نہ رہے تب ان میں ایک مثبت محرکہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہتر طرز عمل اور رویے وجود میں آتے ہیں ۔یہ مثبت رویے طلبہ کے جذباتی استحکام اور ذہنی نشوونما میں آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔طلبہ سے اساتذہ کا رویہ ایسارہے کہ وہ خود کو اجنبی نہ تصور کریں اور اتنا دوستانہ بھی نہ ہو کہ ادب و احترام ملحوظ نہ رکھا جاسکے۔
(8)بچے کے کسی خاص برے سلوک پر جب ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو یہ بہت ضروری ہے کہ بچوں کو اس کے متباد ل مطلوبہ سلوک و طرزعمل سے آگاہ کیا جائے تاکہ خراب برتاﺅ کی جگہ اچھے اورعمدہ طرزعمل کو تقویت و فوقیت حاصل ہوسکے۔
(9)بچوں کو کبھی ایسے زبانی (Verbal)اور غیر زبانی(Non verbal)پیغامات کے ذریعے عتاب و سزا کا شکارنہ بنائیں جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو۔اگر بچوں میں عزت نفس کا جذبہ مفقود ہوجائے تو وہ خوداستحسان (خود کی خوبی کے احساس) سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں ان سے متعدد خراب رویوں اور بدتر طرزعمل (برتاﺅ) کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(10)طلبہ کو مختلف معاشرتی مہارتوں جیسے تعاون، اشتراک،رواداری،صبرو تحمل اور دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ کی تعلیم دینا ضروری ہے۔باہمی اشتراک اور تعاون کے جذبے کے ساتھ بچوں کو ایسے کام کرنے کے مواقع فراہم کریں جس سے گروہی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
(11)طلبہ کو کمرئہ جماعت کا ڈسپلن (نظم ضبط )کی برقراری کی ذمہ داری سونپنے سے طلبہ میں مثبت نظم و ضبط(ڈسپلن)جاگزیں ہوتا ہے۔اساتذہ طلبہ کو جب یہ ذمہ داری تفویض کریں تو ان کے برتاﺅ اور طرزعمل پر نگاہ رکھیںتاکہ نظم و ضبط ،رویوں اورطرزعمل کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے۔
(12)جب طلبہ کے برتاﺅکو اساتذہ درست کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو اپنا طرزعمل بالکل مثبت اور مہذب رکھیں ۔بچے اساتذہ کو اپنے لئے خطرہ نہ سمجھیں۔اساتذہ برتاﺅ اور اخلاق کی درستگی کے لئے درست لائحہ عمل اور اس پر بہتر طریقے سے عمل درآمدگی نہایت ضروری ہے۔
(13)کبھی کبھی کسی برتاﺅ کی وجہ سے پیدا ہونے والی گڑبڑ پر تادیبی نقطہ نظر سے سوچنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔اساتذہ تادیبی کاروائی میں تب تک تاخیر سے کام لیں جب تک کہ مناسب طریقہ کار وہ فیصلہ نہ کرلیں۔
(14) اساتذہ اپنی روزمرہ کے مضامین کی تدریس کے دوران ایسے اخلاقی اقدار کو بھی شامل درس رکھیں جس سے بچوں میں زندگی بسرکرنے کی چاہت اور زندگی کو کارآمد اور فیض مند بنانے کا جذبہ پیدا ہو۔
(15)بداخلاقی اور بدتمیزی کے مرتکب طلبہ کو علیحدہ علیحدہ طلب کرتے ہوئے ان سے اپنے برتاﺅ کو درست کرنے کے لئے کہاجائے ۔منفی و خراب برتاﺅ کو مثبت کردار میں وہ کس طرح تبدیل کرسکتے ہیں اس سلسلے میں ان سے گفتگو کی جائے ۔برتاﺅ کی خرابی کو دور کرنے میں معاون مشورے طلبہ کو دیں۔
(16)بچے اگر گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی خلفشار کا شکار نظرآئیں تو اساتذہ اولیائے طلبہ سے موثر گفتگو کا اہتمام کرتے ہوئے بچوں کی نفسیاتی مسائل کی جانب ان کی توجہ مبذول کروائیں جس کی وجہ سے بچے خراب اور پریشان کن برتاﺅ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
(17)بچوں کو شخصیت اور کردار کے اکہرے پن کی تعلیم دیںاور ایسے رویوں کو فروغ دیں جس کے سہارے وہ ایک متوازن ،بہتر ،پرسکون اور باہمی تعاون سے پر زندگی بسرکرسکیں۔
(18)جب آپ نوجوان و بالغ طلبہ کی اصلاح کا ارادہ کریں تو غایت درجہ احتیاط سے کام لیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے طرزعمل سے ان کی تضحیک و تذلیل نہ ہوتی ہو۔انھیں تنہائی میں تنبیہ کریں۔انھیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیں تاکہ آپ کو ان کے مسائل سے آگہی حاصل ہو۔مسائل کی روشنی میں مثبت متبادل رویوںسے طلبہ کو روشناس کریں جس سے وہ اپنی غلطی کی خود اصلاح کرنے کے لائق ہوسکیں۔
خود پر قابو و انضباط ذات(Self Control and Self Discipline)
کوئی بھی ڈسپلن(نظم وضبط) اور قانون اتنا موثراور دیر پا نہیں ہوتا جتناکہ وہ ڈسپلن اور ضوابط جو کوئی شخص جنہیںوہ خود اپنی ذات پر نافذکرتا ہے۔نظم و ضبط دراصل خود پر قابوپانے،شخصی عزائم وارادہ اوراپنی فکر وعمل کو درست سمت دینے کا نام ہے۔اپنی ذات پر قابو اور کنٹرول متعدد تجربات اور زندگی کے نشیب و فراز کے احساس و ادراک سے تدریجاً حاصل ہوتا ہے۔آج کل اساتذہ کی ایک کثیر تعدادخود کو مثبت نظم و ضبط کے اصول و قواعد سے آراستہ کررہی ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں خودانضباطی کااحساس فروغ پارہا ہے۔
موقع محل کی مناسبت سے طلبہ کو اس طرح چابکدستی سے رہنمائی اور تربیت فراہم کی جانی چا ہئے کہ وہ اپنے طرز عمل پر خود سے قابو رکھ سکیں۔اپنی منشاو مرضی سے یا پھربلاارادہ بے ساختہ ان سے مثبت و بہتر برتاﺅ کا اظہار ہونے لگے۔جب طلبہ اس طرح نظم و ضبط(ڈسپلن) کے مالک ہوجاتے ہیں تواساتذہ کے لئے آسان ہوجاتا ہے کہ وہ انھیں کچھ ذمہ داریاں تفویض کریں۔طلبہ جب دوسروں کے گمراہ کن محرکات و ترغیبات کا اثر قبول کئے بغیرکسی کاروائی یا ردعمل پر درست فیصلہ لینے لگتے ہیں تب ان میں بالغ نظری اور پختگی راسخ ہونے لگتی ہے۔
طلبہ میں ہمیشہ متحرک و فعال رہنے والا جذبہ خودانضباط نہ صرف کمرئہ جماعت کے مسائل کو کم کردیتا ہے بلکہ تدریسی ماحول کی برقراری میں بھی مددگار ہوتا ہے۔خود انضباط جیسے عظیم فن میں مہارت کے حصول کے لئے اپنی ذات اورنفس پر قابو اور اس پر عمل پیرا رہنے کے لئے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرچیکہ خودانضباط کا جذبہ نوجوانی اورعنفوان شباب میں کسی قدر کمزور ہوتا ہے لیکن اس کے استحکام کے لئے اولین شرط نوجوانوں کو مسائل سے دور رکھنا ہے۔سماج سے بہتر مطابقت رکھنے والے افر اد کی تیاری کے لئے طلبہ میں خودانضباط کو فروغ دینے والے درکار وسائل،ہدایات اور خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔طلبہ کو انفرادی اور اجتماعی (گروہی)طورپر موزوں ذمہ داریاں تفویض کرنے سے نظم و ضبط کے بہت سارے مسائل اور دشواریوںکو حل کیا جاسکتا ہے اور اس طریقہ کار سے طلبہ میں خودانضباط(Self Discipline)کے جذبے کو بتدریج آہستہ آہستہ فروغ ملتا ہے۔ اکتسابی ماحول کے دوران وقو ع پذیر واقعات و تجربات اور طلبہ میں نظم و ضبط کو پروان چڑھانے کے تیئں اساتذہ کی دلچسپی بچوں کو سلف ڈسپلن کی جانب راغب کرنے کا حوصلہ و ہمت فراہم کرتی ہے۔
نظم و ضبط اور مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے تمام دستیاب مواقع اور وسائل سے زیادہ سے زیادہ اور بروقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ڈسپلن کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر بہت سی مفید اورکارآمد عادتیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی بدولت وہ ہرکام بآسانی اور سہولت کے ساتھ احسن طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔نظم و ضبط سے انسانی زندگی اور اس کی پسندیدہ روش کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور آدمی زندگی کی دوڑ میں ان لوگوں پر سبقت حاصل کرلیتا ہے جو اپنی زندگی اور کام میں منصوبہ بندی اور نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔انسانی زندگی کی بیشتر پریشانیاں ،محرومیاں ،ناکامیاں اور نامرادیاں نظم و ضبط کے فقدان کا نتیجہ ہی ہوتی ہیں۔انفرادی و اجتماعی رویوں میں نظم و ضبط انسان کی فکری تنظیم کا مظہر ہوتی ہے۔آدمی کے جب سب کام منظم و مربوط ہوجائیں تو اس کی فکر میں ایک خاص نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے۔انسان میں جب نظم و ضبط جیسی قیمتی صفت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ ترقی اور کمال کے زینے باآسانی طئے کرنے لگتا ہے۔اگر طلبہ اپنی زندگی ،افعال و کردار میں نظم و ضبط پیدا کرلیں تو ان کی فکربھی منظم ہوجائے گی اور جب فکر منظم ہوجاتی ہے تو انسان خدا کے فکری نظام کا عکاس بن جاتا ہے۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
ٹوٹے،بکھرے گھر
آج ثانیہ اور جنید بہت خوش تھے اور کیوں نہ ہوتے آج ان کی سب سے بڑی آرزو اور زندگی کی سب سے بڑی خوشی پوری ہونے جارہی تھی۔ اکلوتے بیٹے کی ماں ہونے کی حیثیت سے اس کی خوشی دیدنی تھی ، یہ وہ خواب تھا جو وہ تب سے دیکھ رہی تھی جب اس کا بیٹا پہلی بار اس کی گود میں آیا تھا اور آج ۔۔۔۔اس کا یہ خواب تعبیر کی صورت میں اس کے سامنے تھا ۔
"ثانیہ ثانیہ! کہاں ہو بھئی"
" جی جی جنید بولیں میں بس تیار ہوکر آہی رہی تھی، آپ بتائیں کب تک نکلنا ہے" ثانیہ جو آج بیٹے کی بارات کے لئے کافی اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔
"ارے واہ ! آج تو تم پوری ساس ہی لگ رہی ہو" جنید نے طنزیہ انداز میں کہا
"نہیں جنید میں اپنی بہو کو ساس نہیں ماں جیسی بن کر دکھاؤں گی" ثانیہ نے سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا
"ارے تم تو سنجیدہ ہی ہوگئی میں تو مذاق کر رہا تھا " جنید جانتا تھا کہ ثانیہ یہ دن دیکھنے کے لئے کتنی بے تاب ہے
اور اسطرح آج سج دھج کر یہ دونوں اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر چل پڑے
ہر خواب کی طرح بیٹے کی شادی بھی ایک ماں باپ کیلئے حسین خواب ہوتا ہے ۔بچپن سے لیکر جوانی تک ،اپنی اولاد کی پرورش سے لیکر تعلیم تک، اور تعلیم سے لیکر نوکری تک،
ماں باپ بس یہ ہی سوچتے ہیں کہ بس اب یہ کام ہو جائے تو زندگی پرسکون ہوجائے گی۔۔۔۔۔اور ان کی سوچوں کا اختتام اپنی اولاد کی شادی پر جاکر ہوتا ہے۔
ایسا جنید اور ثانیہ نے بھی چاہا تھا۔ بہت ارمانوں ، چاہتوں، اور محبتوں کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کی دلھن اپنے چھوٹے سے جنت نما گھر میں لیکر آئے ۔۔۔جہاں صرف خوشیاں ہی خوشیاں ہی ان کا خیر مقدم کرنے والی تھیں۔
شادی کی گہما گہمی کب ختم ہوگئی انھیں پتہ ہی نہ چلا ۔۔۔۔۔ خوشیوں اور رونقوں کے دن بھی کتنے مختصر ہوتے ہیں انھیں وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا ،دل نے تو چاہا کہ یہ خوشیوں کے لمحے یہیں رک جائیں مگر ۔۔۔۔۔ایسا کہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ کی دن بھر کی تھکاوٹ اک پل میں اتر جاتی جب وہ اپنے بیٹے اور بہو کو خوش وخرم دیکھتی۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ثانیہ کو یقین تھا کہ اس کا گھر عام سسرال جیسا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے تو معاشرے میں سسرال میں ہونے والی زیادتیوں کی ہمیشہ مخالفت کی ۔۔۔۔۔
مگر اس کا یقین جب ٹوٹا جب اس کے بےحد پیار دینے کے باوجود وہ قصوروار ٹہرائی گئی۔۔۔۔۔۔اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی بہو کو اتنا پیار دے رہی ہے تو اس کے بدلے اسے اتنی تکلیف اٹھانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں جب بدگمانیاں اور بغض ہو تو سسرال میں عزت کیسے ہوگی۔۔۔۔
شادی کے چند ماہ بعد ہی الگ گھر کا تقاضہ،اور ہر بات پر بلا جواز اعتراض اس کے ارمانوں کو کچل رہا تھا۔۔۔۔
آج اس کا پیار محبت ،اتفاق سے بنایا ہوا آشیانہ اسے ٹوٹتا بکھرتا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بہت قربانیوں ، تکلیفوں اور دکھوں...
مداوا
آج سارہ کی امی کی برسی تھی اسے امی بہت یاد آرہیں تھیں ۔امی کے انتقال کو 8 یا 9 سال گزر چکے تھے۔انکے جانے کے بعد انکی قدر ہوئی۔ ابّا تو جب وہ دس سال کی تھی تب ہی گزر گئے تھے۔
وہ اپنی ماں سے بہت محبت کرتی تھی۔ لیکن دونوں ماں بیٹیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔وہ فیشن کی دلدادہ اور امی بڑی سادہ مزاج وہ جدید فیشن کی بات کرتی امی سادگی کا درس دیتیں۔ تو اسنے ماں کے بجائے سہیلیوں میں دل لگا لیا۔ 20 سال کی عمر میں امی نے شادی کردی میاں جی ہم مزاج ملے یوں زندگی آرام سے بسر ہونے لگی۔
تینوں بھائی بیرون ملک امی کو بڑے بھیا اپنے ساتھ کینیڈا لے گئے۔ ہر ھفتے وہ فون کر کے ان سے بات کرتی لیکن انکی باتوں میں وہ ربط ہی نہ رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی بڑھاپا ہے بڑھاپے میں ایسا ہی ہوجاتا ہے۔
ایک دن بڑے بھیا کا فون آیا امی کو جگر کا کینسر ہو گیا ہے تم آجاو۔ یہاں سب جاب پر ہوتے ہیں تم انکے ساتھ ہسپتال میں رہ جانا۔
میاں نے جانے کا بندوبست کیا اور ایک مہینے کے اندر وہ کینیڈا میں تھی اسی دن اماں سے ملنے گئی تھوڑی دیر تک وہ پہچان ہی نہ سکیں۔ بھابھی نے کہا ڈیمینشیا ہو گیا ہے (بھولنے کی بیماری) تھوڑی دیر بعد پہچانیں "کہنے لگیں تم سارہ ہونا" سارہ انکا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی۔ بھابھی بولیں "کچھ ہی لوگوں کو پہچانتیں ہیں"۔
کینسر کی آخری اسٹیج تھی انکو کمفرٹس زون میں رکھا ہوا تھا۔ وہ اولڈ ہوم تھا جہاں ان ہی مریضوں کو رکھتے تھے جن کا مرض لاعلاج تھا۔ سارہ کو ویزہ ہی دو مہینے کاملا تھا ۔ وہ روز صبح جاتی اور واپسی رات میں ہوتی۔ اس نے جوانی میں امی کی ساتھ جو رویہ رکھا اس کا مداوا کرنا چاہتی تھی۔کیا دو مہینے کافی تھےاس مداوے کے لیئے؟۔ سارہ کا آخری دن تھا کینیڈا میں ایئر پورٹ جانے کے لئے نکلی بھائی جان نے گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ لی۔ سارہ کی ان سے آخری ملاقات تھی۔
تھوڑی دیر انکے بستر کیساتھ لگی کھڑی رہی انکے سر پر ہاتھ پھیرتی رہی امی بولیں" کہیں جا رہی ھو"سارہ نے آنسو پونچھے۔اور بولی" نہیں واش روم تک"۔ امی نے کہا"آجاو گی نا دیکھو دھوکہ نہ دینا"۔۔۔۔ ان کے یہ آخری الفاظ اس کے دل پر تیر کی طرح لگے مسافر تھی نا جانا تو تھا، وارڈ سے باہر آکر وہ بھائی جان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اس وقت انکا ڈیمینشیا کا مرض نعمت لگنے لگا کہ وہ تھوڑی دیر بعد بھول جائیں گی ۔ لیکن میں کیسے بھولوں گی۔ سارہ نے سوچا،،،کہ وہ زور زور سے چیخےاور کہے کہ خدارا اپنی ذات پر رحم کریں، گیا وقت پھر نہیں آتا کوئی دوسری سارہ نہ بننا اپنے بوڑھے والدین کو وقت ضرور دینا ان سے باتیں کرنا ان کے پاس بیٹھنا ایسا نہ ھو کہ وہ نہ رہیں اور وہ گزر جائیں ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں اور ہمارے ماضی کے کیے ہوئے وہ...
مایوسی ایک ایجنڈا
مشہور کہاوت ہے کہ دنیا امید پر قائم ہے، دنیا میں انسان امیدوں کے سہارے زندگی گزار تاہے۔ اُمید خواہشات کے پورے ہونے کی توقع یا صورت کے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ اسی لیے اُمید کے مترادف الفاظ آرزو، جستجو، خواہش اور توقع ہیں۔ اگر اس لفظ کے متضاد الفاظ دیکھیں تومایوسی، قنوط اور ناامیدی ہیں۔ امید تبدیلیوں کے در وا کرتی ہے ۔ ایک کسان جب ایک بنجر زمیں پر محنت کرتاہے اور اس زمین کو کاشت کاری کے قابل بناتاہے ۔اس کی محنت اورجدوجہد کا مشاہدہ کیا جائے تو اس کے پیچھے یہی امید ہوتی ہے کہ ایک دن ضرور آئے گا کہ یہ زمین پیداوار لائے گی یہی وہ محرک ہے جس کی وجہ سے کسان اپنے آرام کو ترک کردیتاہے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتں لگا تاہےاور پھر ایک دن اس کی امیدیں بر آتی ہیں کہ غلّہ وہ منڈی میں فروخت کرکے پیسے وصول کرتاہے۔ انسان جاگتے ہوئے خواب تو نہیں دیکھتاہے مگر یہی وہ اُمیدیں ہوتی ہیں جس کو وہ بطور خواب اپنے مستقبل کے لیے سجاتاہے اور جب یہ امیدیں پوری نہیں ہوتی تویہی وہ خواب ہیں جو چکنا چور ہوجاتے ہیں گویا وہ ناامیدی کے دلدل میں دھنسنا شروع ہوتاہے۔ ناامیدی انسان کے حوصلوں کے لیے سم قاتل ہے یہ انسان کو کچھ کرنے سے پہلے ہی کچھ نہ کرسکنے کا پیغام سنا کر بٹھا دیتی ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے کے لیے انسان کو دین اسلام نے یہ پیغام دیا ہے کہ اللہ کی رحمت سےمایوس نہ ہو۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کا مشاہد یہ بتارہا ہے کہ حکمران اور ادارے قوم کے اندر مایوسی پھیلانے کے ایجنڈے پرکاربند ہیں اور اس میں بھی ان کا ہدف نوجوان ہیں حکمران اور تمام ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ مایوسی اور نا اُمیدی کے سائے جتنے زیادہ گہرے ہوں گے ان کا کام اتنا آسان ہوگا۔ پاکستانی قوم جس وقت آزادی کی دولت سے سرفراز ہوئی اس وقت معیشت کمزور تھی، فوج کمزور تھی بمعنی جدید ہتھیار، سرکاری دفاتر میں کاغذ اور فرنیچر بھی پورے نہ تھےمسائل کا ایک جنگل تھا مگراس وقت اُمیدوں کے ساتھ قوم آگے بڑھ رہی تھی مگر انگریزوں کے شاگردوں نے جب اقتدار پر ایوّب خان کی صورت میں قبضہ کیا تو ان شاگردوں نے اپنے استادوں کے اصول کو اپنایا اور وہ یہ تھا کہ قوم کو مایوس کردیا جائے۔ پاکستان کے اندر مایوسی کی وہ کیفیت پیدا ہوچکی ہے کہ لوگ خود کشیوں پر اتر آئے ہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔ فوج کی سیاست میں مداخلت کے تقریباً ستّر سال ہوچکے ہیں۔ ایسے میں عوام کا کسی جماعت پراعتماد کرنا آسان نہیں ہیں۔ عوام صحرا کے اس مسافر کی طرح جو راستہ بھٹک چکا ہے سفر کرتے کرتے کسی جگہ سوجائے کہ اب موت ہی آنی ہے۔
ایک مسلمان جس کے دل میں ایمان کی شمع جل رہی ہو وہ کبھی بھی مایوس ہوکر نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس کا رب اللہ ہےاس کی رحمت بڑی وسیع ہےاس کی رحمت سے مایوس ہونا گویا کفر ہے۔...
مسلمانوں کی حکمرانی اور زوال
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی حکمرانی کو ایک سنہری دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جب علمی، سائنسی، ثقافتی، اور سیاسی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ ابتدائی اسلامی خلافتیں، جیسے خلافت راشدہ، اموی خلافت، عباسی خلافت، اور بعد ازاں عثمانی سلطنت، اسلامی دنیا کی طاقت اور عظمت کی علامت رہی ہیں۔ ان حکمرانوں نے نہ صرف اپنے علاقوں کو وسیع کیا بلکہ علمی اور فکری میدانوں میں بھی دنیا کی قیادت کی۔ تاہم، تاریخ کے ساتھ ساتھ، یہ عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں، اور مسلمانوں کی حکمرانی رفتہ رفتہ ختم ہوتی چلی گئی۔ یہ زوال محض کسی ایک وجہ کی وجہ سے نہیں ہوا، بلکہ مختلف عوامل اس کی بنیادی وجوہات بنے۔
مسلمانوں کی ابتدائی کامیابیوں کے پیچھے چند بنیادی عوامل کارفرما تھے۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو علم، انصاف، مساوات، اور اتحاد کی طرف راغب کیا۔ خلافت راشدہ کا دور خاص طور پر ایک مثالی دور سمجھا جاتا ہے، جہاں خلیفہ اور عوام کے درمیان مضبوط تعلقات تھے اور انصاف کا بول بالا تھا۔ علم و تحقیق کو فروغ دیا گیا اور بغداد، دمشق، قرطبہ اور دیگر شہروں میں علمی و سائنسی مراکز قائم کیے گئے۔
اسلام نے نہ صرف مذہبی اعتبار سے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا بلکہ مسلمانوں کو ایک متحد امت میں تبدیل کر دیا۔ اسی اتحاد اور ایک مضبوط قیادت کی بدولت مسلمان دنیا کے مختلف خطوں میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔مسلمانوں کی حکمرانی کا زوال مختلف وجوہات کی بنا پر ہوا، جن میں اندرونی اور بیرونی عوامل دونوں شامل تھے۔
مسلمان حکمرانوں میں جب قیادت کا فقدان پیدا ہوا، اور حکومتیں بدعنوانی کا شکار ہوئیں، تو ان کے درمیان آپسی اختلافات بڑھتے گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد، اموی اور عباسی خلافتوں میں حکمرانوں کے اندرونی خلفشار نے سلطنت کو کمزور کر دیا۔ یہ خلفشار اور سیاسی تنازعات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کو ٹھیس پہنچنے لگی۔
خلیفاؤں کی جگہ بادشاہت اور موروثی نظام نے لے لی، اور خاندانی مفادات قومی مفادات پر غالب آنے لگے۔ انصاف اور احتساب کی وہ روح جو خلافت راشدہ میں دیکھی گئی تھی، رفتہ رفتہ غائب ہو گئی، اور حکمران عیش و عشرت میں مبتلا ہو گئے۔
ابتدائی مسلم دور میں علم و تحقیق کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ مسلمان سائنسدانوں، فلسفیوں، اور ماہرینِ ریاضی نے دنیا کو نئے افکار دیے اور یورپ کو بھی علمی روشنی فراہم کی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ، علم کی اس جستجو میں کمی آتی گئی۔ علم و تحقیق کی جگہ قدامت پسندی اور روایت پرستی نے لے لی، اور علمی ترقی رک گئی۔
عباسی دور کے بعد، مسلمانوں میں علمی زوال تیزی سے بڑھا۔ مدارس میں صرف مذہبی علوم پر زور دیا گیا، اور دنیاوی علوم اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کیا گیا۔ اس علمی جمود نے مسلمانوں کو دنیا کی باقی قوموں سے پیچھے دھکیل دیا، اور یورپ میں ہونے والی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے برعکس، اسلامی دنیا میں کوئی بڑا علمی انقلاب نہ آ سکا۔
مسلمانوں کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ اندرونی اختلافات اور فرقہ واریت تھی۔ خلافتِ عباسیہ کے بعد،...
طنز و مزاح
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
From some point on, I am preparing to build my site while browsing various sites. It is now somewhat completed. If you are interested, please come to play with totosite !!
Hello ! I am the one who writes posts on these topics safetoto I would like to write an article based on your article. When can I ask for a review?