دوسری اور آخری قسط
نظم و ضبط کے متعدد معنی اور تعریفیں بیان کی گئی ہیں۔بامقصد سرگرمیوں میں ایک تناسب سے ترجیحات کی بنیاد پر لائحہ عمل کے تعین کو نظم و ضبط کہتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر نظم و ضبط تدبیر اور کام کی تقسیم اور مستقبل میں اسے انجام دینے کے فیصلے سے عبارت ہے۔”کام کی انجام دہی سے قبل تدبیر اور منصوبہ بندی آدمی کو پشیمانی سے محفوظ رکھتی ہے۔“کردار کو ابتدائے آفرینش سے آدمی کے برتاﺅ پر قابوپانے والی ایک طاقت ور عامل کی حیثیت حاصل رہی ہے جو کسی کے طرز عمل اور صحیح طرز عمل کوسمجھنے ،مطلوبہ عادات و برتاﺅ کی تشکیل اور زندگی کی کارکردگی میں توازن و حسن پیدا کرنے میں معاون ہوتا ہے۔درس و تدریس کے دوران ماہر اساتذہ عمدہ برتاﺅ و کردار کی اہمیت، وضاحت اور اسے مثبت طرز زندگی سے مربوط کرنے میںہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔عمدہ برتاﺅ،پسندیدہ رویوں ،بہترین کردار کو طلبہ کی زندگیوں کا جزو لاینفک بنانے کے لئے اسکول تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی خاص اہتمام کریں اور کردار ورویوں کی تشکیل و فروغ میں اساسی نکات پر خصوصی توجہ مرکوز کریں۔اچھے اساتذہ کے ذریعے روبہ عمل لائے جانے والے بہتر پروگرامس جو بچوں میں عمدہ کردار کی قدرو قیمت کو اجاگر کرتے ہیں دراصل طلبہ میں خود انضباط(Self Control)کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں۔اساتذہ مدارس میں ایسے پروگرامس کا آغاز کریں جوانفرادی شخصیت کی نشوونما،اعتماد،تحفظ اور احترام کے احساس کو جاگزیں کرنے میں معاون ہوںتاکہ طلبہ کی ایک متوازن ہمہ جہت و ہمہ گیر شخصیت ابھر اور نکھر سامنے آسکے۔طلبہ کی شخصیت وکردار کو موثر و بہتر بنانے کے لئے ان کے اند پائے جانے والے جذبہ خیرخواہی و نیک نیتی کی مناسب حوصلہ افزائی اورمسلسل رہبری ورہنمائی کی انجام دہی ضروری ہے۔ انسان کے اچھے یا برے ہونے میں عموماً تین عوامل اثر انداز ہوتے ہیں
(1)فطری صلاحیتیں جو بچے کو میراث میں ملتی ہیں جسے وہبی صلاحیت کہا جاتا ہے۔
(2)دوسرا بچوں کی ذہنی، جسمانی نشوونما ، تربیت و کردار سازی میںوہ ماحول جہاں وہ اپنی عمر گزارتا ہے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔بچہ اپنے ماحول سے اچھائیاں اوربرائیاں سیکھتا ہے۔
(3)شخصیت و کردار کی تعمیر میں تیسرا عامل تعلیم و تربیت ہے۔تعلیم و تربیت میں اساتذہ کے علاوہ سب سے بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے۔والدین سب سے پہلے بچے کے ذہن میں اچھائی اور برائی کا تصور پیوست کرتے ہیں۔والدین ہی اچھائیوں اور برائیوں کے درمیان تمیز اور احساس کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔بچوں کے کردار میں والدین کے اثرات،گھر کا ماحول ،خاندان،پڑوس ،محلہ اسکول،اساتذہ اور تدریسی مواد (نصابی کتابوں)کا اہم کردار ہوتا ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ مذکورہ عوامل انسان کی شخصیت پر اس حد تک اثراندازہوتے ہیں کہ یہ انسان کی فطرت تک کو بدل سکتے ہیں۔ایک بچے کی زندگی پر نگاہ ڈالیں تو اس کی ابتدائی زندگی گھر(خاندان،محلہ )،ماحول اور مدرسہ کے اردگرد گردش کرتی نظرآتی ہے۔بچوں کی تربیت اور کردار سازی میں ان تینوں مقامات کا بنیادی کردار ہے۔ان تینوں مقامات میں کسی ایک مقام پر کہیں کچھ نقص رہ جائے تو بچے کی نشوونما پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچے کی ذہنی،جسمانی ،روحانی،تعلیمی،اخلاقی نشوونما کے لئے ان تینوں اداروں کے مابینہم آہنگی ،یکسانیت اور تعاون نہایت ضروری ہے۔ اسی لئے بچوں کی تربیت کے لئے ان تینوں مقامات کی اصلاح بے حد ضروری ہے تاکہ بچے کے کردار پریہ مثبت اور موثر طریقے سے اثر انداز ہوسکےں۔مستقبل کا معاشرہ بچوں سے تعمیر ہوتا ہے ۔ تربیت کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو بچوں کی نظرسے ہی دیکھا جائے،ان کی شخصیت کو تسلیم کریں ،ان کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے،ان پر بھروسہ و اعتبارکریں۔
گھر اور ماحول: ایک مثالی معاشرہ جس معیار کے انسانوں کا ہم سے تقاضہ کرتا ہے درحقیقت وہ آسمان سے نہیں اترتے ہیں بلکہ ان کی نمو بھی اسی خاک سے ہوتی ہے۔معاشرہ افراد کی یکجائی کا نام ہے۔کسی بھی فرد کی تربیت میں اس کا گھر اہمیت کا حامل ہوتاہے۔بیشتر گھروں کا ماحول ہی ایسا ہے جہاں بچے والدین کی توجہ،محبت وشفقت سے محروم ہیں روحانی اور اخلاقی تربیت کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔خاص کر مسلم گھرانوں میں ضروری ہے کہ گھر کی اینٹیں اللہ کی اطاعت اور حب رسول پر رکھی جائے۔اسلام بچوںکوابتدائی عمر سے ہی اخلاقی اور معاشرتی خوبیوں کا خوگر بنا ناچاہتا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ کیا حقیقی معنوں میں ہم اپنی اولاد کا حق ادا کررہے ہیں۔والدین پر بچوں کی جو ذمہ داری ہمارے مذہب نے ہم پر عائد کی ہے کیا اس سے ہم عہدبرآں ہورہے ہیں۔جہاں باپ کی کمائی شرعی کسوٹی پرپوری نہیں اترتی ہے وہیں ماں کی جگہ انٹرنیٹ،موبائل فون اور ٹی وی معلم بن کر بیٹھی ہے۔اب تو مائیں بچوں کو کھانا کھلانے اور انھیں چپ کرانے فون دے کر گلوخلاصی میں عافیت سمجھ رہی ہیںتاکہ انھیں کسی قسم کی مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ماضی بعید کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نہ تو باضابطہ اسکول ،کالج ،یونیورسٹیاں ہواکرتی تھیں نہ آج کی طرح تعلیم کا آسان چلن عام تھاپھر بھی ناخواندہ ماﺅں نے اپنے پانچ پانچ چھ چھ بچوں کو حافظ قرآن بنایا اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا۔ان ناخواندہ ماﺅں کے بچوں نے اپنے علوم و فنون کا ساری دنیا میں لوہا منوایا۔آج اعلیٰ ٹکنالوجی وسیع و وافر وسائل رکھتے ہوئے بھی نہ ہم اچھے والدین بن سکے اور نہ ہی اچھے استاد۔بچوں کی کردار سازی کے لئے اپنے گھروںکے ماحول کو پاک بنانا بے حد ضروری ہے۔تربیت میں نفرت ،سختی اورکجی کے بجائے محبت،شفقت اور نرمی سے کام لیں۔عربی کا قول ہے ”قلوب الرجال وحشیتہ فمن تالفھااقبلت علیہ“ ترجمہ ؛انسان کا قلب وحشی ہوتا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے وہ اس کی جانب جھک جاتا ہے۔والدین اپنی اولاد سے محبت و شفقت کا اظہار کرنے لگیں گے کہ تو بچے بھی ان کی باتوں کو مزید توجہ سے سننے اور ماننے لگیں گے۔اپنی محبت سے والدین بچوں سے عاطفی و قلبی تعلق خاطر کو مستحکم کرسکتے ہیں اور انھیں نیکی اور بھلائی کے کاموں کی جانب راغب و مائل کرسکتے ہیں۔
اسکول معاشرے کی تعمیر میں دوسری اینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں پر مردم سازی کا کام انجام دیا جاتا ہے۔جہالت کی ظلمتوں میں بھٹکتی انسانیت کے لئے اسکول ایک پاور ہاﺅس کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے ساری انسانیت کو روشنی کی تقسیم عمل میں آتی ہے۔بچہ جب اپنے گھر سے باہر اسکول کی دنیا میں پہلا قدم رکھتا ہے تب تک وہ آداب ،ظرافت ،شائستگی،نظم و ضبط سے بڑی حد تک بے خبر رہتاہے۔اسکول صرف معلومات کی فراہمی کا کام انجام نہیں دیتا ہے بلکہ بچے کو صحیح طرز زندگی سے واقف کرواتا ہے۔ اسے مثبت اور کارآمد زندگی گزارنے کے رہنما اصولوں سے آگاہ کرتا ہے۔اسکول بچے کو اچھائی اور برائی میں تمیزسکھانے کے ساتھ خوف خدا،سچائی وحق پرستی سے کام لینے و اس کا ساتھ دینے ،انسانیت ،محبت ،مروت،مودت،احسان ،سلوک کی تعلیم و تربیت فراہم کرتا ہے ۔تغیر پذیر دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے تیار کرتا ہے۔باہمی تعاون و اتحاد اور عمدہ اخلاق ،عادات و کردار کی تشکیل و فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔صبر وتحمل اور اجتماعیت کا درس بھی بچے اسکول سے ہی سیکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت و کردار سازی میں مذکورہ عناصر نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کا منشاءو مقصد بچوں کو نیک و صالح بنا نا ہوتا ہے۔اگر ان تینوں اداروں میں سے کوئی کوتاہی یا خراب کا شکار ہوجائے یا ان میں صحیح تامیل و تعاون نہ ہو تب انجام کار بہت ہی خراب ہوتا ہے۔والدین ،ماحول اور مدرسے کو منظم و مربوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔گھروں میں اگر اچھے برے کا التزام ہوگا تب بچے بھی ان اصولوں کے تحت پرورش پائیں گے اور جب اسکول کا رخ کریں گے تب حقیقی معنوں میں تعلیم وتربیت سے فیضیاب ہوسکیں گے۔اگر گھر میں نظم و ضبط ،اخلاق و کردار پر توجہ نہ دی جائے تو ایسے گھروں کے بچے اسکولوں میں داخل بھی ہوجائیں تو بھی حقیقی معنوں مین تعلیم و تربیت سے فیض نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ایسے بچوں کی فکر و عمل میں لاشعوری طور پرتضاد پایا جاتا ہے جو مستقبل میں خطرناک نفاق کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ والدین ،اساتذہ اور ذمہ داران مدرسہ اپنے فرائض کو اتم طریقے سے انجام دیں۔والدین گھر کو اعلیٰ اخلاق اور نظم و ضبط کا نمونہ بنائیں۔اساتذہ طلبہ کو معاشرے کے لئے کارآمد اور انسانیت کا علمبردار بنائیں۔ذمہ داران مدارس تعلیم و تربیت میں مددگار وسائل و ذرائع کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ بچوں میں اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط ،اخلاق و کردار پروان چڑھ سکے۔
رویوں کی نگرانی(Monitoring the Behavior):۔
نظم و ضبط (ڈسپلن) ،اچھے رویے و کردارکی تعمیر پر جہاں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی وہاں بداخلاقی برے برتاﺅ جیسے چوری،فریب،دھوکے بازی،کذب بیانی(جھوٹ)، ہم جماعت ساتھیوں سے لڑائی جھگڑا،اسکول کی املاک کو نقصان پہنچانا یا تباہ وبرباد کرنا،خلل پیدا کرنا(Creating Distrubances)،گندی اور فحش زبان کا استعمال،دوسروں کو پریشان کرنا،اساتذہ سے بے عزتی سے پیش آنا اور اس طرح کے کئی خراب رویے طلبہ میں جگہ بنانا لیتے ہیں۔عموماً اساتذہ بچوں کے ان خرابوں رویوں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور اگر کبھی طلبہ کے خراب رویوں سے ان کا سامنا بھی ہوجاتا ہے تو اپنی کوتاہی کی پردہ پوشی کے لئے ”ہم طلبہ کے ہر مسئلے پر نظر نہیں رکھ سکتے“جیسی لنگڑی تاویلات سے کام لیتے ہوئے اپنے فرائض سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن اساتذہ اگر اپنے پیشے سے حقیقی و دیانتدارانہ وابستگی رکھتے ہیں تب انھیں ایسے مسائل کو حل کرنا اور بچوں کے خراب برتاﺅ پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ ان میں عمدہ کردار و اخلاق کو فروغ دیا جاسکے۔ہر تغیر وتبدیلی کے عمل میں جس طرح شعور (آگہی)،عمل پیرائی اور تبدیلی کی خواہش کلیدی کردار ادا کرتی ہے بالکل برتاﺅ کی تبدیلی میں بھی شعور(آگہی)،عمل پیرائی اور تبدیلی کی خواہش یہ تین عنا صر بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
برے برتاﺅ کی تبدیلی کا آغاز خراب برتاﺅ کے شعور واادراک سے ہوتا ہے اور جب خرا ب برتاﺅ کا ادراک ہوجائے تو اسے درست کئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہئے۔عمل درآمدگی یا عمل پیرائی سے مراد دوسروں کے مقبول و پسندیدہ رویوں کو اپنی زندگی کا جزو بناناہے۔ اپنے تمام خراب اور مستردشدہ رویوں کو مقبول و پسندیدہ رویوں سے تبدیل کرنے کو تبدیلی کہا جاتا ہے۔اساتذہ حدود سے تجاویز کرنے والے ،معاشرتی و سماجی اصولوں سے روگردانی اور غیر پسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث طلبہ پر گہری نگاہ رکھیں۔طلبہ کے خراب اور برے برتاﺅ کے جو مسائل عمومی طورپرمشاہدے میںآئے ہیں ان میںہم عمر ساتھیوں سے تال میل ومیل جول کی خرابیاں ، ٹکراﺅ،سماج دشمن رویے،خود تخریبی (خود اذیتی)رویے،شخصیت کی خراب شبیہ ،عزت نفس کا فقدان و کمی کے مسائل جذباتی عدم توازن سے پیدا ہونے والے مسائل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں ان میں از خود ایک ادارکی صلاحیت فروغ پانے لگتی ہے جوصحیح اور غلط کے درمیان فرق کو سمجھنے میں معاون و رہنما ہوتی ہے جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ضمیر کی حقیقی طاقت طلبہ کے اچھائی اور برائی کے مابین تمیز کرنے کے واقعات و تجربات کی شرح پر منحصر ہوتی ہے۔طلبہ کو مختلف اقدار سے روشناس کرتے ہوئے اساتذہ تدریسی حالات و تجربات کو موثر طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے بچوں میں اچھی راہوں ا ور بہتر اقدارکی منتقلی کا کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔طلبہ کے برتاﺅ کی نگرانی میں اساتذہ کو غایت درجہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ طلبہ اپنے خراب برتاﺅ و رویوں کو درست وتبدیل کرنے یا پھر ان پر قابو پانے کے لئے اگراساتذہ سے مدد نہ بھی طلب کریں تب بھی اساتذہ پوری دیانت داری سے طلبہ کے برتاﺅ و رویوں کی اصلاح میں مددفراہم کریں۔ خراب برتاﺅ و طرز عمل کے مسائل کا علیحدہ جائزہ لئے بغیر اصول ،ضوابط ور تحدیدات کے سہارے اساتذہ اگر خراب رویوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے منفی عواقب و نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بچوں کا طرز عمل اور بدتر ہوجاتا ہے ۔اساتذہ ان حقائق کی روشنی میں بڑی سنجیدگی و توجہ سے طلبہ کے برتاﺅ اور رویوں پر مبنی مسائل کا جائزہ لیں،ان کے تدارک کے لئے موثر طریقے کار اور ضروری اقدامات کریںجو خراب و غیر پسندیدہ رویوں کی اصلاح میںمعاون و مددگار ہوتے ہیں۔ مثبت شخصیت کی نشوونما میں حائل خراب و نا پسندیدہ رویوںسے طلبہ کو شخصی طور پر آگاہ کریں۔اساتذہ کی جانب سے بروقت کئے جانے والے یہ بیش قیمت اقدامات بچوں میں ہر طرح کے برے رویوں کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
بعض اوقات اساتذہ کوطلبہ میں پائے جانے والے رویوں و برتاﺅ کے مسائل کی تجزیاتی تشخیص انجام دینی ہوتی ہے۔موثر لائحہ عمل اور اصلاح و رہبری کے لئے مسائل کی وجوہات و حل سے متعلقہ تمام مناسب اعداد و شمارکو اکٹھا کرنا ضروری ہوتا ہے۔بعض طلبہ اپنے رویوں کی خرابی کے مسائل جو ان کی شخصی نشوونما اور ترقی میں سدراہ بن جاتی ہے سے لا علم رہتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے مسائل کا علم تو رہتا ہے لیکن خود سے اسے حل کرنے یا قابو پانے سے قاصر رہتے ہیں ۔اساتذہ کوچاہئے کہ وہ ایسے مسائل کا جائزہ لیں اور ان کا سد باب کریں۔طلبہ کو جذباتی عدم توازن سے نبرد آزمائی کے راستے اور طریقے تلاش کرنے ،مناسب رویوں کے فروغ کی اساتذہ تحریک دیںتاکہ وہ ان مسائل کا کامیابی سے سامنا کریں اور ان میں مثبت طرز زندگی بسرکرنا کا جویا پیدا ہو۔
برتاﺅ و رویوں کے مخصوص مسائل:۔
اسکولی زندگی میں موثررویوں کے انصرامی پروگراموں پر کامیاب عمل آوری کے لئے پہلے سے موجودا و ردرآنے مختلف رویوں کے مسائل کا علم و آگہی ،وسیع پیمانے پر ان خراب رویوں اور ان مسائل سے مرتب ہونے والے منفی اثرات ،اس کے تدارک او رسدباب کا علم اساتذہ کے لئے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ذیل میں بچوںمیں پائے جانے والے متعدد طرزعمل و رویوں کے مسائل کی اہم وجوہات بیان کی گئی ہیں جس سے بچوں میں برتاﺅ ورویے کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
(1)بچوں کا ذہنی خلفشار و کشمکش جو کہ عموماًگھریلو حالات کی بنا پیدا ہوتاہے یہ بچوں میں بدنظمی اور چڑچڑا پن پیدا کرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔
(2) جذباتی عدم توازن اور جذباتی خلفشار کا سامنا کرنے کی وجہ سے بچوں میں بد نظمی اور بے قابو طرزعمل کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
(3)اساتذہ اور طلبہ کے مابین بہتر تعلقات اور گفت و شنید کے فقدان کی وجہ سے بچے ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں اور جس کے نتیجے میں ان سے باغیانہ برتاﺅ کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(4)پست عزت نفس کے حامل طلبہ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جو خراب برتاﺅ کی زمرے میں آتی ہیں اور اس طرح کے برتاﺅ کے مسلسل ارتکاب سے ان میں برے برتاﺅ کی خراب عادت جڑپکڑلیتی ہے۔
(5)اساتذہ جب طلبہ کو ان کے حقیقی جوہر ،اختراع،تخلیقیت اور قابلیت کی نمائش و اظہار کے مواقع فراہم نہیں کرتے ہیں تب بچوں میں عدم اطمینان کی فضا پیدا ہوجاتی ہے جو انھیں برے برتاﺅ پر مائل کرتی ہے۔
(6)طلبہ جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کو اساتذہ کی محبت اور شفقت حاصل نہیں ہے تو وہ خود کو جذباتی طور پر جکڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان میں عدم تحمل اور بے صبری کی کیفیت جاگزیں ہوجاتی ہے جو انھیں خراب برتاﺅ پر ابھارتی ہے۔
(7)طلبہ کو جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ دوسرے طلبہ کی طرح پڑھائی نہیں کرسکتے ہیں اور ان میں صلاحیتوں کا فقدان ہے تو ان میں پڑھائی سے عدم دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اسکولی اوقات کو ایسی سرگرمیوں میں صرف کرنے لگتے ہیں جو ہرگز قابل قبول نہیں ہوتی ہیں۔ایسے طلبہ کو جب مناسب طریقے سے نہیں سنبھالاجائے تب ان کا برتاﺅ دیگر کئی جماعتوں کے لئے باعث تشویش ہوجاتا ہے۔
(8)کمرئہ جماعت میں خود کو الگ تھلگ رکھنا،دوسروں سے تعاون و تعامل میں ہچکچاہٹ وگریز کرنا،معمولی معمولی بات پر پریشان ہوجانا،لگاتار خراب مظاہرہ کرنا وغیرہ بچوں کے ذہن کوسیکھنے کے اصل دھارے سے کاٹ دیتا ہے اور اس طرح کے یہ منفی ردعمل ان کے لئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔
اچھے برتاﺅ و نظم و ضبط کا فروغ
کمرئہ جماعت ہی مدرسہ کی (کلاس روم) وہ واحد جگہ ہے جہاں نظم و ضبط (ڈسپلن) کے تمام اصول و ضوابط کا اطلاق اور عمل پیرائی ممکن ہے۔کمرئہ جماعت میں اساتذہ اپنی بھر پور شفقت توجہ اور اخلاق کردار اور رویوں کی احسن تعلیم و تربیت کے ذریعہ طلبہ میں اطاعت فرمانبرداری اور اصولوں پر عمل پیرائی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔ کوئی بھی شخص سخت گیری ،ترش روی اور طاقت کے زور پر بچوں میں اطاعت ،فرمانبرداری اور نظم و ضبط کی فضا کو ہرگز پروان نہیں چڑھا سکتا ۔یہ آفاقی حقیقت ہے کہ سخت مزاجی اور طاقت کے ذریعہ نظم و ضبط قائم ہی نہیں ہوسکتاہے ۔چند سخت اصولوں کو بچوں پر مسلط کرتے ہوئے ہم نظم و ضبط کی صورت حال کو ہرگز درست نہیں کرسکتے۔ ایسے اقدامات توانائی اور وقت کے ضیائع کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔نظم و ضبط کے حاکمانہ طریقے ،یہ مت کرو،وہ مت کرو کی بے جا بندشوں سے بچوں میں صحت مند آزادی اظہار وآزادی بودو باش کے جذبات تنزلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔لگاتار سزاﺅں،ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ نظم و ضبط کی حقیقی روح کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔اساتذہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا لازمی ہے کہ سخت گیر رویے اور دھمکی آمیز مکالمات و اقدامات سے عمدہ نظم و ضبط کی فضاکبھی بھی ہموار نہیں کی جاسکتی۔
ا ساتذہ جب طلبہ کو ایسے حالات جو انھیں صحیح طرزعمل،ردعمل کے درست طریقہ کار،زندگی کے صحیح و بہتر رویوں سے روشناس کرنے اور ان کی اہمیت و معنویت پر غورو فکر کرنے پر مائل کرتے ہیں تو ان میں اپنی تبدیلی کا ایک جذبہ ومحرکہ ازخود جنم لینے لگتا ہے۔اساتذہ بچوں کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا جب اہتمام کرتے ہیں تو بچے اپنے رویے اور برتاﺅ پر قابو پانے کے لئے خود سے چند اصول و طریقے وضع کرلیتے ہیں۔اساتذہ اچھے طرز عمل ،صحیح رویوں اور مطلوبہ پسندیدہ عادات کو طلبہ میں استوار کرنے کے لئے کلاس روم کی سرگرمیوں کے دوران ہونے والی گفتگو اور مواقعوں سے بہتر طریقے سے استفادہ کریں۔ کلاس روم کو اگر تبدیلی کی مثالی تجربہ گاہ (Ideal Transforming Laboratories)سے معنون کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ کمرئہ جماعت ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں شخصیت کی کامیاب نشوونما میں معاون ،مقبول و پسندیدہ رویے جیسے تعاون،اکتساب بذریعہ امداد(Learning by Helpiing) ،باہمی احترام واکرام ،مہذب و شائستہ طریقہ اظہار اور دوسروں کے بارے میں احساس فکرمند ی جیسے تجربات کامیابی سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔یہ تجربہ گاہیں (کلاس رومس) بچوں کو آنے والی زندگی کے نشیب و فراز میں بھی اخلاق و اقدار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ طلبہ میں پائے جانے والی ہر قسم کی بے راہ روی جو عام طورپر سرکش رویوں، زبانی جارحیت،توڑپھوڑ،مارپیٹ ،لڑائی جھگڑے اور غنذہ گردی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جو زندگی کے حسن و نغمگی کو تباہ کردیتی ہے کی بروقت اصلاح کی متقاضی ہوتی ہے تاکہ منفی رویوں کا تدارک ہوسکے۔
بچوں میں نظم و ضبط پیدا کرنا اور نظم و ضبط کے کارگر اصولوں کو ان کے ذہنوں میں پیوست کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بچوں میں تعمیری نظریات،ذمہ داری اور رواداری کی برقراری کے لئے اسکولی سطح پر تمام ڈسپلن پالسیوں پر فعال عمل آوری سے قبل موثرمنصوبہ بندی،نتیجہ خیز اقدامات اور گہر ے فکر و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اساتذہ اور اسکول انتظامیہ ہمیشہ ایک نکتہ اپنے ذہنوں میں محفوظ کرلیں کہ مناسب اور تعمیری ڈسپلن کے بغیر درس و تدریس کے مطلوبہ مقاصدکا حصول مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اساتذہ طلبہ کے علم و معلومات کے افق کو وسعت دینے کے ساتھ ان میں معیاری طرز عمل اور پسندیدہ اطوار کے فروغ کی باقاعدگی سے سعی و کوشش کریں۔اساتذہ کی یہ کوشش نہ صرف طلبہ کو ایک خوشحال اور محفوظ زندگی فراہم کرنے میں مددگار ہوگی بلکہ طلبہ سماج اور معاشرے کی آرزﺅ ں اور ارمانوں کی تکمیل کا بھی ذریعہ بن جائیں گے۔اساتذہ بچوں میں ایک ایسا احساس جاگزیں کردیں جو انھیںہمیشہ صحیح کاموں کی انجام دہی اور ترقی کی سمت آمادہ کرتا رہے۔ذیل میں چند ایسے بنیادی عوامل کا ذکر کیا جارہا ہے جو طلبہ میں اچھے طرزعمل(برتاﺅ) اور نظم و ضبط کو تقویت دینے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
(1)اساتذہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرئہ جماعت کے حالات ان کے سبق کی ضروریات کے لئے موزوں و مناسب ہوں اورجو طلبہ کی زندگی میں صحیح طرزعمل(برتاﺅ) اور عمدہ اخلاق و اقدار کو جاگزیں کرسکیں۔
(2)طلبہ میں ایک زندہ و متحرک ضمیر کو یقینی بنائیں تاکہ وہ اچھی عادات ،عمدہ اخلاق ،بہتر رویوں اور اقدار کے انتخاب میں ان کی رہبری کرے ۔مذکورہ رویوں کا طلبہ میں جاگزیں ہونا ہی درحقیقت اخلاقی نشوونما کی معراج ہے۔
(3)کلاس روم کے انضباطی کاروائیوں کا ایک خاکہ تیارکریں،جو لکچدار ہو لیکن مضبوط کردار کی تعمیر میں معاون رہے۔انضباطی اصول بہت زیادہ سخت اور قابل تعزیر نہیں ہونے چاہئے کیونکہ ایسے اصول سخت ناراضگی اور آزردگی کا باعث بنتے ہیں۔
(4)کمرئہ جماعت میں دوران تدریس طلبہ کواخلاقی اقدار سکھانے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔زندگی میں اصول اور اقدار کی اہمیت کو اجاگر کریں اور بتلائیں کہ زندگی اور دنیا کا حسن ان ہی سے قائم ہے۔ طلبہ کے ذہنوں میں یہ بات نقش کردیں کہ اخلاق و کردار کی قدر و قیمت اور اہمیت تمام مادہ پرستانہ کامیابیوں اور فوائد سے بالا تر ہے۔
(5) بچوں کی عزت نفس کو مجرو ح اور نقصان پہنچانے والے جارحانہ اظہار،دھمکی آمیز لہجوں اور انتہائی رویوں اور تاثرات سے اساتذہ گریز کریں۔یہ طرزعمل طلبہ کو ان سے متنفر کردیتا ہے اور ان میں خراب رویے جڑپکڑنے لگتے ہیں۔
(6)نیکی کے حسن اور بدی کی قباحتیں ،مثبت طرز عمل کے فوائد اور منفی برتاﺅ کے نقصانات سمجھانے سے طلبہ میں اچھے رویوں اور اخلاقی اقدار کی جانب رغبت بڑھتی ہے اور اعلیٰ طرزعمل رویوں اور اخلاقی اقدار کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
(7)کمرئہ جماعت یا کسی گروہ میں جب بچوں میںاجنبیت کا احساس باقی نہ رہے تب ان میں ایک مثبت محرکہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بہتر طرز عمل اور رویے وجود میں آتے ہیں ۔یہ مثبت رویے طلبہ کے جذباتی استحکام اور ذہنی نشوونما میں آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔طلبہ سے اساتذہ کا رویہ ایسارہے کہ وہ خود کو اجنبی نہ تصور کریں اور اتنا دوستانہ بھی نہ ہو کہ ادب و احترام ملحوظ نہ رکھا جاسکے۔
(8)بچے کے کسی خاص برے سلوک پر جب ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو یہ بہت ضروری ہے کہ بچوں کو اس کے متباد ل مطلوبہ سلوک و طرزعمل سے آگاہ کیا جائے تاکہ خراب برتاﺅ کی جگہ اچھے اورعمدہ طرزعمل کو تقویت و فوقیت حاصل ہوسکے۔
(9)بچوں کو کبھی ایسے زبانی (Verbal)اور غیر زبانی(Non verbal)پیغامات کے ذریعے عتاب و سزا کا شکارنہ بنائیں جس سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو۔اگر بچوں میں عزت نفس کا جذبہ مفقود ہوجائے تو وہ خوداستحسان (خود کی خوبی کے احساس) سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جس کے نتیجے میں ان سے متعدد خراب رویوں اور بدتر طرزعمل (برتاﺅ) کا اظہار ہونے لگتا ہے۔
(10)طلبہ کو مختلف معاشرتی مہارتوں جیسے تعاون، اشتراک،رواداری،صبرو تحمل اور دوسروں کی مدد کرنا وغیرہ کی تعلیم دینا ضروری ہے۔باہمی اشتراک اور تعاون کے جذبے کے ساتھ بچوں کو ایسے کام کرنے کے مواقع فراہم کریں جس سے گروہی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
(11)طلبہ کو کمرئہ جماعت کا ڈسپلن (نظم ضبط )کی برقراری کی ذمہ داری سونپنے سے طلبہ میں مثبت نظم و ضبط(ڈسپلن)جاگزیں ہوتا ہے۔اساتذہ طلبہ کو جب یہ ذمہ داری تفویض کریں تو ان کے برتاﺅ اور طرزعمل پر نگاہ رکھیںتاکہ نظم و ضبط ،رویوں اورطرزعمل کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے۔
(12)جب طلبہ کے برتاﺅکو اساتذہ درست کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو اپنا طرزعمل بالکل مثبت اور مہذب رکھیں ۔بچے اساتذہ کو اپنے لئے خطرہ نہ سمجھیں۔اساتذہ برتاﺅ اور اخلاق کی درستگی کے لئے درست لائحہ عمل اور اس پر بہتر طریقے سے عمل درآمدگی نہایت ضروری ہے۔
(13)کبھی کبھی کسی برتاﺅ کی وجہ سے پیدا ہونے والی گڑبڑ پر تادیبی نقطہ نظر سے سوچنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔اساتذہ تادیبی کاروائی میں تب تک تاخیر سے کام لیں جب تک کہ مناسب طریقہ کار وہ فیصلہ نہ کرلیں۔
(14) اساتذہ اپنی روزمرہ کے مضامین کی تدریس کے دوران ایسے اخلاقی اقدار کو بھی شامل درس رکھیں جس سے بچوں میں زندگی بسرکرنے کی چاہت اور زندگی کو کارآمد اور فیض مند بنانے کا جذبہ پیدا ہو۔
(15)بداخلاقی اور بدتمیزی کے مرتکب طلبہ کو علیحدہ علیحدہ طلب کرتے ہوئے ان سے اپنے برتاﺅ کو درست کرنے کے لئے کہاجائے ۔منفی و خراب برتاﺅ کو مثبت کردار میں وہ کس طرح تبدیل کرسکتے ہیں اس سلسلے میں ان سے گفتگو کی جائے ۔برتاﺅ کی خرابی کو دور کرنے میں معاون مشورے طلبہ کو دیں۔
(16)بچے اگر گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی خلفشار کا شکار نظرآئیں تو اساتذہ اولیائے طلبہ سے موثر گفتگو کا اہتمام کرتے ہوئے بچوں کی نفسیاتی مسائل کی جانب ان کی توجہ مبذول کروائیں جس کی وجہ سے بچے خراب اور پریشان کن برتاﺅ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
(17)بچوں کو شخصیت اور کردار کے اکہرے پن کی تعلیم دیںاور ایسے رویوں کو فروغ دیں جس کے سہارے وہ ایک متوازن ،بہتر ،پرسکون اور باہمی تعاون سے پر زندگی بسرکرسکیں۔
(18)جب آپ نوجوان و بالغ طلبہ کی اصلاح کا ارادہ کریں تو غایت درجہ احتیاط سے کام لیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کے طرزعمل سے ان کی تضحیک و تذلیل نہ ہوتی ہو۔انھیں تنہائی میں تنبیہ کریں۔انھیں اپنی بات رکھنے کا موقع دیں تاکہ آپ کو ان کے مسائل سے آگہی حاصل ہو۔مسائل کی روشنی میں مثبت متبادل رویوںسے طلبہ کو روشناس کریں جس سے وہ اپنی غلطی کی خود اصلاح کرنے کے لائق ہوسکیں۔
خود پر قابو و انضباط ذات(Self Control and Self Discipline)
کوئی بھی ڈسپلن(نظم وضبط) اور قانون اتنا موثراور دیر پا نہیں ہوتا جتناکہ وہ ڈسپلن اور ضوابط جو کوئی شخص جنہیںوہ خود اپنی ذات پر نافذکرتا ہے۔نظم و ضبط دراصل خود پر قابوپانے،شخصی عزائم وارادہ اوراپنی فکر وعمل کو درست سمت دینے کا نام ہے۔اپنی ذات پر قابو اور کنٹرول متعدد تجربات اور زندگی کے نشیب و فراز کے احساس و ادراک سے تدریجاً حاصل ہوتا ہے۔آج کل اساتذہ کی ایک کثیر تعدادخود کو مثبت نظم و ضبط کے اصول و قواعد سے آراستہ کررہی ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں خودانضباطی کااحساس فروغ پارہا ہے۔
موقع محل کی مناسبت سے طلبہ کو اس طرح چابکدستی سے رہنمائی اور تربیت فراہم کی جانی چا ہئے کہ وہ اپنے طرز عمل پر خود سے قابو رکھ سکیں۔اپنی منشاو مرضی سے یا پھربلاارادہ بے ساختہ ان سے مثبت و بہتر برتاﺅ کا اظہار ہونے لگے۔جب طلبہ اس طرح نظم و ضبط(ڈسپلن) کے مالک ہوجاتے ہیں تواساتذہ کے لئے آسان ہوجاتا ہے کہ وہ انھیں کچھ ذمہ داریاں تفویض کریں۔طلبہ جب دوسروں کے گمراہ کن محرکات و ترغیبات کا اثر قبول کئے بغیرکسی کاروائی یا ردعمل پر درست فیصلہ لینے لگتے ہیں تب ان میں بالغ نظری اور پختگی راسخ ہونے لگتی ہے۔
طلبہ میں ہمیشہ متحرک و فعال رہنے والا جذبہ خودانضباط نہ صرف کمرئہ جماعت کے مسائل کو کم کردیتا ہے بلکہ تدریسی ماحول کی برقراری میں بھی مددگار ہوتا ہے۔خود انضباط جیسے عظیم فن میں مہارت کے حصول کے لئے اپنی ذات اورنفس پر قابو اور اس پر عمل پیرا رہنے کے لئے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔اگرچیکہ خودانضباط کا جذبہ نوجوانی اورعنفوان شباب میں کسی قدر کمزور ہوتا ہے لیکن اس کے استحکام کے لئے اولین شرط نوجوانوں کو مسائل سے دور رکھنا ہے۔سماج سے بہتر مطابقت رکھنے والے افر اد کی تیاری کے لئے طلبہ میں خودانضباط کو فروغ دینے والے درکار وسائل،ہدایات اور خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔طلبہ کو انفرادی اور اجتماعی (گروہی)طورپر موزوں ذمہ داریاں تفویض کرنے سے نظم و ضبط کے بہت سارے مسائل اور دشواریوںکو حل کیا جاسکتا ہے اور اس طریقہ کار سے طلبہ میں خودانضباط(Self Discipline)کے جذبے کو بتدریج آہستہ آہستہ فروغ ملتا ہے۔ اکتسابی ماحول کے دوران وقو ع پذیر واقعات و تجربات اور طلبہ میں نظم و ضبط کو پروان چڑھانے کے تیئں اساتذہ کی دلچسپی بچوں کو سلف ڈسپلن کی جانب راغب کرنے کا حوصلہ و ہمت فراہم کرتی ہے۔
نظم و ضبط اور مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے تمام دستیاب مواقع اور وسائل سے زیادہ سے زیادہ اور بروقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ڈسپلن کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان کے اندر بہت سی مفید اورکارآمد عادتیں پیدا ہوجاتی ہیں جن کی بدولت وہ ہرکام بآسانی اور سہولت کے ساتھ احسن طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے۔نظم و ضبط سے انسانی زندگی اور اس کی پسندیدہ روش کو چار چاند لگ جاتے ہیں اور آدمی زندگی کی دوڑ میں ان لوگوں پر سبقت حاصل کرلیتا ہے جو اپنی زندگی اور کام میں منصوبہ بندی اور نظم و ضبط کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔انسانی زندگی کی بیشتر پریشانیاں ،محرومیاں ،ناکامیاں اور نامرادیاں نظم و ضبط کے فقدان کا نتیجہ ہی ہوتی ہیں۔انفرادی و اجتماعی رویوں میں نظم و ضبط انسان کی فکری تنظیم کا مظہر ہوتی ہے۔آدمی کے جب سب کام منظم و مربوط ہوجائیں تو اس کی فکر میں ایک خاص نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے۔انسان میں جب نظم و ضبط جیسی قیمتی صفت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ ترقی اور کمال کے زینے باآسانی طئے کرنے لگتا ہے۔اگر طلبہ اپنی زندگی ،افعال و کردار میں نظم و ضبط پیدا کرلیں تو ان کی فکربھی منظم ہوجائے گی اور جب فکر منظم ہوجاتی ہے تو انسان خدا کے فکری نظام کا عکاس بن جاتا ہے۔
2 تبصرے
جواب چھوڑ دیں
اہم بلاگز
فون کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مقدمہ ایک ایسی داستان بن چکا ہے جو قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ یہ داستان ظلم، بے حسی، اور بین الاقوامی سیاست کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ایک معصوم پاکستانی خاتون امریکی جیل میں زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی ہے تو ہمارے حکمران کیوں خاموش ہیں؟ آخر انہوں نے امریکی صدر کو فون کیوں نہیں کیا؟
یہ سوال نہ صرف ہماری قیادت کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے بلکہ ہماری اجتماعی قومی غیرت کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ امریکی صدر کو ایک فون کال کرنا شاید اتنا مشکل نہیں تھا جتنا ہمارے حکمرانوں کے لیے اپنی کرسی بچانا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا اہم ہے۔ یہ فون کال نہ صرف ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا ذریعہ بن سکتی تھی بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا کھیل ہوتا ہے، لیکن قوم کی عزت و وقار کا سودا کرنا کہاں کی حکمت ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو یہ احساس نہیں کہ ڈاکٹر عافیہ ایک قوم کی بیٹی ہے؟ وہ قوم جو ان سے جواب طلب کر رہی ہے کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک اپنے شہریوں کے لیے ہر حد تک جاتے ہیں تو پاکستان کیوں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے؟
شاید مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اپنی ترجیحات میں عوام اور قومی غیرت کو شامل ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ فون کال ان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اور یہی سوچ عافیہ کیس کو پسِ پشت ڈالتی رہی۔
اگر ہمارے حکمران امریکی صدر کو فون کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے، تو یہ نہ صرف انصاف کا تقاضا ہوتا بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہ کال نہ کی گئی، اور ڈاکٹر عافیہ آج بھی اپنے وطن واپسی کی منتظر ہیں۔
ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہکیا ہم اپنی قیادت سے ایسے اقدامات کی امید رکھ سکتے ہیں جو قومی غیرت کے عکاس ہوں؟ یا ہمیں ہمیشہ یہی سننا پڑے گا کہ "فون کیوں نہیں کیا؟"
ہائے ایسی زبوں حالی میں میرےذہن میں آیا کہ میں تاریخ میں پلٹ کر دیکھوں میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزتوں کی حفاظتوں کے متعلق کیسی حساسیت رکھتے تھےتومجھےکسی مسلمان کی نہیں بلکہ غیرمسلم کی بیٹی عدی بن حاتم کی بیٹی قیدیوں کی قطاروں میں کھڑی نظرآئی جس کےسرپہ دوپٹہ نہ تھا میرے نبی اپنی پاک ردا سے اس کے بدن کوڈھانپااور اس کو بحفاظت اپنے پاس رکھا۔جب اس کےاہلخانہ کے متعلق معلوم ہواتو آپ نے اپنے صحابہ کی معیت میں بحفاظت اس کواس کےگھرپہنچایا۔
اےمیری ملت کے حکماء و محافظو! آپ کس کے طریقے کی پیروی کرنے چل پڑےہیں؟ دیکھیں تو اسوۂ رسول کیسے انمول اسباق لیے ہمارے سامنے موجودہے یہاں سے سیکھیے۔اپنی بیٹی ،اپنی عزت،اپنادرد سمجھتےہوئےعافیہ کی حریت کےلیےاقدامات۔۔۔
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر !
یہ مہربانی نہیں بلکہ فرضِ عین ہےجس...
کرپشن سے چھٹکارا
بلاشبہ افراد قوموں کو بناتے ہیں اور فرد کا کردار قوم کی تصویر کشی کرتا ہے ۔ ہم معاشرے کے ارکان اغراض کے غلام ہو چکے ہیں، لالچ، حرص، بد عنوانی اور خورد برد ہماری شناخت بن چکی ہے ۔ ہم اپنی بد عنوانی اور دھوکہ دہی کا آغاز انتہائی نچلی سطح سے کر چکے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے لوگوں پر ہوتا ہے ،ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر کسی ملک کے لوگ اپنے اپنے حصے کا کام پوری ایمانداری ، پوری لگن سے کریں تو اس ملک کا دنیا میں بول بالا ہو تا ہے، لیکن اگر اسی ملک کے لوگ اپنی جگہ بے ایمانی، کرپشن، زخیرہ اندوزی کرنے لگیں گے تو یقینااس ملک کوزوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان وہ ملک بن چکا ہے جہاں ہر شخص اپنی جگہ کرپٹ ہے ، جسے جتنا موقع ملے وہ اتنی ہی ڈھٹائی سے کرپشن کرتا ہے ، فریج والے سے لے کر موٹر والے تک، میکینک سے لے کر دکاندار تک، ایک چھوٹے بچے سے لے کر بوڑھے شخص تک ہر کوئی کرپشن جیسی بیماری میں مبتلا ہے ۔ ہم ایک بار خود سے پوچھیں کہ ہم نے کتنی ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کیا ہے ؟ ہم نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟۔
حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں تو حکمران بھی اچھے نیک اور صاحب کردار ہوتے ہیں۔ عوام اگر بد عنوان ، نافرمان اور بد کردار ہوں تو حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں۔ یعنی جیسے عوام ہوں ویسے حکمران ان پر مسلط کردیے جاتے ہیں۔ حکمرانوں کے دل بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہوتے ہیں، جیسے لوگوں کے اعمال ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے مطابق حکمرانوں کے دل کردیتا ہے ۔ ایک حدیث میں خام النیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہوں گے‘‘۔ یعنی جس قسم کے تم لوگ ہوگے، اسی قسم کے تمہارے حکمران ہوں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی ہے کہ ’’جیسی قوم ویسے حکمران‘‘۔ ہم بحیثیت قوم کرپٹ ہیں، ہمارے تاجروں کا مال بیچتے وقت ترازو میں ہیر پھیر کرنا اور اچھا مال دکھا کر برا بیچنا معمول ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ۔ بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال ، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر،اینٹوں ولکڑی کا بورا،کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیاء کی پیکنگ جیسی دھوکہ دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروحت کررہے ہیں تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لئے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے۔
اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم،...
غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ
ہم آج تک غلط فہمیوں کا ہی شکار رہے۔ ہر کوئی دوسرے کو ہی موردِ الزام ٹھہراتا رہا۔ ہمیشہ بزرگوں ہی قربانیوں پر ہی تکیہ کیے رہے۔ ماضی کے ترانے گاتے رہے۔ آگے بڑھنے اور آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کن اسباب کی ضرورت تھی ان پر غور ہی نہیں کیا۔ آگے کے مرحلے میں تو جانی قربانیوں کے بجائے مال کی اور صلاحیتوں کی قربانی درکار تھی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔ جہاں جس کا زور چلا اس نے اپنی اپنی سیاست چمکائی۔
عوام کو طبقات میں تقسیم کیا گیا۔ کوئی بہت غریب تو کوئی بہت امیر ہو گیا۔ کچھ زمینوں میں مربوں کے مالک بن گئے اور کچھ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس گئے۔ تعلیم فروخت ہونے لگی۔ اسکولوں اور کالجوں میں علم و شعور کے بجائے ڈگریوں والی تعلیم ملنے لگی۔ ملک میں ذہانت تو بہت تھی لیکن اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مغرب کے پروردہ پالیسی ساز قبضہ مافیا نے عوام کو ہر قیمت پر بے شعور رکھنے کی پالیسی اپنائی اور پاکستانی عوام نے بھی اسی حالت میں رہنا گوارا کر لیا، اور جانے انجانے میں اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں حصہ ڈالنے لگے۔
اپنی معیشت مضبوط کرنے کے بجائے ترقی یافتہ ملکوں کو مزید ترقی دیتے چلے گئے۔ مغربی نظریات و افکار کے ساتھ ساتھ ان کی جاذبِ نظر مصنوعات کو بھی روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بنائے رکھا۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا اپنے ملک میں کچھ بھی نہیں بنتا کہ جو استعمال کے قابل سمجھا جائے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر ہی اس خوبصورت انداز سے کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی چیز خریدنے کا دل چاہتا ہے۔ افسوس صد افسوس! اپنے ہی ملک میں بڑے بڑے ذہین و فطین پالیسی ساز، فلاسفر اور دینی علماء بیٹھے ہیں، لیکن مجال ہے کسی نے بھی عوام کو یہ راہ بھی سمجھائی ہو کہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ملک کے ہی وسائل اور ملک کی ہی بنی مصنوعات کو اہمیت دینی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جان ہی نہ پائے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکی مصنوعات کا سیلاب مسلم ممالک میں اس تیزی سے آیا کہ ہم لوگ آنکھیں بند کیے اس میں بہتے چلے گئے۔
اہلِ فلسطین کی بے لوث قربانیوں نے ہماری انکھیں کھول دیں۔ اب ادراک ہوا کہ ہم تو خود ہی اپنے ہاتھوں امتِ مسلمہ کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ اگر ملک کی اشرافیہ ذمہ دار ہے تو دوسری جانب عوام کا طرزِ عمل بھی قابلِ فخر نہیں رہا۔ یہودی پالیسی ساز اپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے ذریعے مسلمانوں سے ہی منافع کما کر مظلوم مسلمانوں کا قتلِ عام کا سامان کرتے رہے اور ایک تیر دو شکار کرنے والا فارمولا اپنایا گیا اور ہم مسلمانوں کو سالوں بے وقوف بنائے رکھا۔ یہی وقت ہے کہ اہلِ پاکستان کو کم سے کم اپنی خواہشات اور آرزوؤں کی قربانی دینی ہوگی۔ اپنے ملک کی مصنوعات کو فوقیت دینی ہوگی۔ معیاری اور غیر...
رب کی پکڑ
میں تم سب کی شکایت اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر کروں گی"۔ غزہ کی اس چھوٹی سی معصوم بچی کی آواز اکثر کانوں میں گونجتی ہے ،جس سے اسرائیلی فوج کی اندھا دھند بمباری نے اس کے والدین،اس کے بھائی بہن، اس کا گھر، اس کا بچپن سب کچھ چھین لیا تھا۔وہ اپنے جلے ہوئے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر امت مسلمہ کو پکار رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ بھی بہت جلد اپنے رب کے حضور پہنچ جائے گی لہذا جاتے جاتے وہ 57 اسلامی ممالک کے سربراہوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا چاہ رہی تھی ۔....پیاری گڑیا! تمہارے دل سے نکلی آہ نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا، تمہاری پکار نے رب کی بارگاہ میں قبولیت کی سند پالی ۔ امریکہ جو کہ اسرا ئیل کا منہ بولا باپ ہے ،جس کی شہ پر غز ہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے آج خود اپنے گھر میں لگی آگ کے سامنے بے بس و مجبور نظر آرہا ہے۔
صاحبان عقل و دانش اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ اپنے آپ کو سپر کہلانے والے ملک نے اپنے تمام تر وسائل، طاقت اور اختیار ہونے کے باوجود اس آگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق 7جنوری 2025 کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا ہےکیونکہ تیز ہوائیں اور خشک موسم آگ کو ایسے بھڑکا رہی ہیں جیسے کسی تندور کو دہکایا جا رہا ہو۔ ہزاروں فائر فائٹرز ۔۔۔۔سینکڑوں کی تعداد میں واٹر ٹینکر ،سینکڑوں کی تعداد میں فائر انجن اور 60 طیارے مل کر بھی اس دہکتی ہوئی آگ پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ یہ امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ ہے جس نے لاس اینجلس کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اب تک 16 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 13 ابھی بھی لاپتا ہیں، 150 بلین ڈالر سے اوپر کا نقصان ہو چکا ہے ،35 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں، ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ مزید ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے۔ خالی مکانوں میں جہاں آگ بجھا دی گئی ہے وہاں چوروں اور لٹیروں نے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح لوٹ مار مچا دی ہے لہذا حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کوکرفیو نافذ کرنا پڑا ہے۔
ہیلی کاپٹر سے لی گئی تصویر میں غ ز ہ اور لاس اینجلس ایک جیسے نظر آرہے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ غ ز ہ میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں پر بم گرا کر معصوم لوگوں کو شہید اور ان کے املاک کو ملیا میٹ کر دیا حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی بم گرائے گئے تاکہ معصوم زخمیوں کا علاج بھی نہ ہو سکے یہ ظلم وبربریت وہاں ڈیڑھ سال سے جاری ہے جبکہ لاس اینجلس کو راکھ کا ڈھیر بننے میں صرف چند گھنٹے لگے کیونکہ غ ز ہ کے معصوم بچوں نے بارگاہ ایزدی کی عدالت میں اپنے کیس دائر کیے تھے جو بے...
آگ کی دستک
کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں تاریخ کی بد ترین آگ نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ ہر دل رکھنے انسان کو غمگین کررہی ہے ، مکینوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اچانک ان کے بڑے بڑے آسائشوں سے ہھرے ہوئے، ٹھنڈے ،گرم گھر جل کر خاکستر ہو جائیں گے ۔
لاس اینجلس کی ہمسایہ کاؤنٹیز میں سات مختلف جگہوں پر آگ نے تباہی مچادی ہے۔ جس میں اداکاروں اور امرا کے محلے بھی شامل ہیں۔
دولاکھ افراد نقل مکانی پر مجبورہوگئے ،55 بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں ایکڑ زمین پر موجود ہر چیز جل چکی ہے۔
60 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواوں کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل حد مشکل تھا، تین دن بعد بھی خراب موسم امدادی کاموں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔
کیلیفورنیا میں بڑی آفت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
متاثرہ مکینوں کو امدادی کیمپوں میں منتقل کرنے کا عمل جاری ہے ،آگ بجھانے کے لئے پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے۔
افسوسناک خبر یہ بھی ہے کہ 1000 سے زائد لوگ لا پتہ ہیں۔
مگردنیا ہر حکمرانی کرنے والی اے بڑی طاقت ہم انسانیت کی خاطر،کسی تعصب کے بغیر تمہاری آہوں کے ساتھ آہیں ملائیں گے ، تمہارے غم کو اپنا غم سمجھیں گے ، کھانے پینے کا انتظام کریں گے بستروں کا ڈھیر لگادیں گے،زخمیوں سے بھائی چارگی دکھائیں گے ان کے زخموں پر مرہم ہم بھی رکھیں گے کیونکہ ہم تو اس کے امتی ہیں جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا،اس دین کے پیروکارہیں جو ہر انسان کی عزت کرنا سکھاتا ہے۔
مگرظالموں کا ساتھ دینے والے ظالموں!
تم اس آگ کے شعلوں اور اس تباہی کو دیکھو۔۔۔
ذرا سوچو یہ آگ تو تمہاری اپنی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔
تمہارے ہی پاس تو ایسی تباہی کے تمام ذرائع موجود ہیں۔۔۔
آگ لگانے کی ہر چنگاری تمہارے اعمال میں چھپی ہے۔۔۔
ذرا سوچوتمہارا کئی ہزار ارب ڈالر کا نقصان اس ایک معصوم جان کے برابر بھی نہیں جسے تم نے ناکردہ گناہ کے بدلے میں روند ڈالا۔۔۔
ایسے اربوں ڈالر تو تم لاشوں پر سیاست کرکے پھر کمالوگے۔۔۔۔
ذرا سوچو نسلوں کو مٹا دینے کی ہوس میں تم نے شہر مٹی میں ملا دیئے۔۔۔
ذرا سوچو زخمیوں سے بھرے ہوئے ہسبپتالوں کو شرانگیزی کا اڈہ ہونے کا بہانہ کرکے نیست ونابود کردیا پھر خیموں کو بھی آگ کی بھینٹ چڑھادیا ۔۔۔
ذرا سوچو تمہارے شرمناک مظالم نے انسانیت کی عظمت کو ذلت میں بدل دیا ۔۔۔۔
مگر اس سب کے باوجود رحم کرنے والے نے اتنی بڑی آگ میں سے 5 سے 7 کے افراد کے علاوہ ہزاروں کو بچا لیا۔
کاش اس کے رحم کاایک حصہ ہی تم نے پایا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے دیگر انسانوں کو اپنے کتوں کے برابر ہی سمجھا ہوتا ۔۔۔
کاش تم نے مذہب کے تعصب میں ہزاروں بے قصوروں اور معصوموں کو قتل نہ کیا ہوتا ۔
کاش تم نے انسانوں سے محبت ہمارے دین سے سیکھی ہوتی تو آج تم بھی اشرف المخلوقات ہونے کا شرف حاصل کرتے۔۔۔
کاش تم نے انصاف کا درس ہماری کتاب سے سیکھا ہوتا تو آج تم دنیا کے دلوں پرحکمرانی کرتے۔۔۔
اور شاید تمہاری دنیا بھرمیں...
طنز و مزاح
ہائے رے سردی
ماہ دسمبر جہاں سردیاں اپنا رنگ جماتی ہیں وہاں دسمبر کی شاعری ہمیں اداس کرنے کی کوششوں میں لگ جاتی ہے ،البتہ جنوری میں سردی سے نمٹنے کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر ہم سردی سے محظوظ ہونے لگتے ہیں۔
موسمی ڈپریشن ایک نفسیاتی حالت ہے جو سال کے کسی خاص موسم میں، خاص طور پر سردیوں میں، زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ سردیوں میں دن چھوٹے اور دھوپ کم ہونے سے جسم میں ان ہارمون کی کمی ہو جاتی ہےجو مزاج کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دن چھوٹے اور راتیں لمبی، گرم چائے کافی کی خوشبو اور رضائی کی گرمائی۔ لیکن سردیوں کا اصل مزہ صرف تب آتا ہے جب اس موسم کو انجوائے کریں۔
1۔ رضائی کے ہیرو
سردیاں آتے ہی رضائی قوم کی جان بن جاتی ہے۔ صبح ہو یا شام، رضائی سے نکلنا ایسے لگتا ہے جیسے آپ کسی مشن امپوسیبل( نہ حل ہونے والا مسئلہ )پر جا رہے ہوں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو چائے اور کھانے کی پلیٹ بھی رضائی کے اندر لے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی کہے کہ "رضائی سے باہر آ جاؤ!" تو فوراً جواب آتا ہے، "بھائی، رضائی میں بیٹھ کر ہی دنیا کے مسئلے حل ہو سکتے ہیں، رضائی کا مذاق نہیں۔
2۔ ناشتہ: پراٹھے اور حلوہ پوری کے مزے
سردیوں میں ناشتہ کرنا کسی جشن سے کم نہیں ہوتا،خاص طور پر اگر چھٹی کا دن بھی ہو۔ مکھن کے ساتھ چمکتے پراٹھے، ساتھ میں گرم چائے اور انڈے۔،حلوہ پوری اورچھولے۔اللہ نے بڑی نعمتوں سے نوازا ہے ،الحمدللہ ۔
3۔ نہانے کا قومی مسئلہ
سردیوں میں سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟جواب ہے نہانا ،سردیوں میں نہانا ایسا ہے ہے جیسےبہادری کا کارنامہ انجام دیا ہو اور جب پانی کا ایک قطرہ بھی ٹھنڈا ہو،تو آئیندہ کئ دن تک کے لیے نہانا موخر کردیا جاتا ہے۔
4۔ سرد ہوا کے وار
سردیوں کی ہوا کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ جب آپ باہر نکلتے ہیں، تو آپ کے کان، ناک، اور ہاتھ ایسے جم جاتے ہیں جیسے برف کی شکل اختیار کر لی ہو،کسی نے اسی لیے یہ مثال دی ہے کہ گرمیوں میں بال نہ ہوں اور سردیوں میں ناک نہ ہو کیونکہ گرمیوں میں بال گرمی کو بڑھا دیتے ہیں تو سردیوں میں ناک کو بھی ٹوپہ پہنانے کو دل چاہتا ہے۔جو لوگ بغیر سوئیٹر کے باہر نکلنے کی بہادری دکھاتے ہیں وہ بانکے بنتے بنتے دس منٹ بعد "ہی ہا ہو" کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
5۔ دعوتوں اور شادیوں کا موسم
سردیوں میں دعوتوں کی بھرمار ہوتی ہے، شادی ہو یا کوئی اور تقریب، ہر جگہ کھانے کی خوشبو۔ لوگ کہتے ہیں کہ "ہم تو صرف دوستوں سے ملنے آئے ہیں،" لیکن پلیٹوں کا حال دیکھ کر سمجھ آجاتا ہے اصل معاملہ کچھ اور ہے۔
سردیاں اپنی شرارتوں، مزوں اور ہنسی مذاق کے لیے خاص ہوتی ہیں۔ اس موسم میں نہ صرف کھانے کے مزے آتے ہیں بلکہ خاندان اور دوستوں کے ساتھ بیٹھنے اور مونگ پھلیاں کھانے کا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔
اور ہاں سردیاں روزے رکھنے کیلئے بھی بہترین وقت ہے تو کیوں نہ اس موقع کو بھی ضائع نہ کریں تھوڑا سا...
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
From some point on, I am preparing to build my site while browsing various sites. It is now somewhat completed. If you are interested, please come to play with totosite !!
Hello ! I am the one who writes posts on these topics safetoto I would like to write an article based on your article. When can I ask for a review?