داخلی و خارجہ محاذ اور پاکستان

میں نے چند دن قبل ہی ایک کالم، بعنوان “دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کا یہی وقت ہے” لکھا تھا جس کا سیاق کچھ اس طرح تھا کہ وزیر اعظم کئی روزہ دورے پر ملک سے روانہ ہوئے تھے اور پروگرام کے مطابق قطر، سعودیہ، سوئزر لینڈ سے ہوتے ہوئے انھیں ملیشیا پہنچنا تھا جہاں مہاتیر محمد نے ایران، ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے علاوہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو خصوصی دعوت دی تھی۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کے ایک پُرزور اور پُر اثر خطاب کے بعد ان ممالک کا خیال تھا کہ وہ بے اثر ہو جانے والی “او آئی سی” کے مقاصد کے بعد ایک الگ بلاک بنائیں تاکہ وہ بلاک مسلمانوں اور مسلمان ممالک کو معاشی ترقی کے میدان میں آگے بڑھانے میں مدد دے سکے۔ پاکستان کے وزیر اعظم سمیت بہت سارے اسلامی ممالک اس بات کو بہت اچھی طرح محسوس کرنے لگے تھے ۔

ایک جانب “او آئی سی” جن مقاصد کیلئے بنائی گئی تھی وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے اور دنیا میں بسنے والے مسلمانوں اور مسلمان ممالک کیلئے کوئی مؤثر قدم اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے تو کیوں نہ ایک اور بلاک ایسا بنایا جائے جو دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو معاشی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط و توانا بنانے میں مدد دے سکے۔ ان ممالک کو یہ بھی احساس تھا کہ او آئی سی جیسی تنظیم پر امریکہ اور اسرائیل کا اثر و رسوخ اتنا بڑھ چکا ہے کہ کوئی ایک ملک بھی ان کے بچھائے ہوئے جال سے شاید ہی باہر نکل سکے لہٰذا ان کے نزدیک اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ کوئی ایسا بلاک وجود میں آئے جو ان سب کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو۔ اس اجلاس کے ایجنڈے میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ سب ممالک، بشمول پاکستان، اپنی مشترکہ کرنسی بھی بنانے کا عزم رکھتے تھے تاکہ اسلامی دنیا ڈالر اور پونڈ کی اجارہ داری کو ختم کرسکے۔

اس سلسلے کی ایک اہم بات یہ بھی تھی اس بلاک کو بنانے کی تحریک کے ہراول دستے میں خود پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی شامل تھے اور اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ہی ایران، ترکی اور ملیشیا کے ساتھ مل کر انھوں نے اس اجلاس کی حکمتِ عملی بھی تیار کی تھی۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت مسلم دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے ان کی دادرسی کیلئے اگر مؤثر آواز اٹھائی جاتی رہی ہے تو وہ دنیا کے چند ہی ممالک ہیں جن میں مذکورہ ممالک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح ہر ہر قدم پر پاکستان کیلئے بولنے والے اور اس کی حمایت میں کھڑے ہونے والے ممالک میں بھی ان ہی ممالک کا بڑا کردار رہا ہے۔ کشمیر کے سلسلے میں اسلامی ممالک کی مجرمانہ خاموشی کے بر عکس ان ہی ممالک نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا تھا اور اب تک پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کیلئے تیار ہیں۔ عمران خان بھی ان باتوں کا یقیناً ادراک رکھتے ہونگے اسی لئے انھوں نے بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت کو بخوشی قبول کر لیا تھا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ بہت پرانے اور اچھے مراسم رہے ہیں اور سعودی عرب پاکستان بننے سے لیکر اب تک پاکستان کے ہر مشکل وقت میں کام آتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس بات کو ضروری سمجھا کہ سعودی عرب کو اجلاس میں شرکت کیلئے اعتماد میں لے لینا بہت اچھا ہوگا۔ عمران خان کا یہ دورہ سعودی عرب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا لیکن وزیر اعظم سعودی شاہ کو اعتماد میں لینے میں ناکام رہے اور اس طرح ملیشیا میں ہونے والے اجلاس سے شرکت کے سلسلے میں پاکستان کو معذرت کرنی پڑی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک کو اپنے خارجی و داخلی فیصلے اپنے حالات کو دیکھ کر ہی کرنے ہوتے ہیں لیکن اگر اس بات پر کسی وعدے سے قبل غور کر لیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا اس لئے کہ ہراول دستے میں شامل ہونا اور وعدہ کرنے کے بعد شرکت سے انکار کسی بھی لحاظ سے پاکستان کے حق میں کوئی بہتر فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پاکستان کی وعدہ خلافی اور شرکت کے انکار پر ترکی کے صدر طیب اردوان کی جانب سے کسی حد تک شدید رد عمل آیا ہے۔ ترک میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت کی صورت میں اسٹیٹ بینک میں رکھی ہوئی رقم کو واپس نکال لیا جائے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مخصوص معاملات پر کسی ملک پر دباؤ ڈالاہو۔ انھوں یہ بھی کہا کہ سعودی حکومت نے دھمکی دی کہ 40 لاکھ پاکستانی ورکرز کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ان کی جگہ بنگلہ دیش کے شہریوں کو ویزے دیے جائیں گے، لہٰذا پاکستان کو معاشی دشواریوں کے باعث سعودی عرب کی خواہشات پر عمل کرنا پڑا۔

ملیشیا میں ہونے والے اجلاس میں شرکت سے انکار کی وجہ سے پاکستان کو کیا فائدہ اور کیا نقصان ہوا، یہ بحث الگ لیکن یہ بات تو ثابت ہوئی کہ کسی کا دست نگر ہونا کتنی بڑی لعنت ہے۔ ایک ایسا ملک جو معاشی لحاظ سے اتنا کمزور و ناتواں ہو کہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے دوسرے ممالک اور دنیا کے بڑے بڑے بینکوں سے قرض لینے پر مجبور ہو وہ کیسے اپنے محسنوں کی بات ماننے پر مجبور نہیں ہوگا۔

پاکستان کا ایک ایک بچہ جانتا ہے کہ یہ دنیا کے بڑے بڑے بینک نہ صرف پاکستان کو قرضے دیتے ہیں بلکہ قرضے دینے کے بعد قرضوں کی وصولیابی کو بہر صورت یقینی بھی بنا تے ہیں۔ ان قرضوں کی وصولی کیلئے وہ پاکستان کے نہ صرف قدرتی وسائل میں اپنی شراکت داری کا حق جتاتے ہیں بلکہ ہر وہ ادارہ جس سے پاکستان کو کسی قسم کا منافع حاصل ہو رہا ہو، اس میں اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی تک میں وہ پاکستان سے اپنا حصہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے قرض دینے والوں کا منھ بھرا جاتا ہے بلکہ عوام پر ہر مد میں ٹیکس کا بوجھ ڈال کر ان کا لہو نچوڑ کر دنیا کے بڑے بڑے بینکوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ اب خود ہی فیصلہ کرلیا جائے کہ ایک ایسا ملک جو معیشت اور ملک کے اداروں کو چلانے میں خود کفیل نہ ہو تو وہ اپنے “محسنوں” کی رائے سے اختلاف کیسے کر سکتا ہے۔

ایسے ہی پس منظر کو سامنے رکھ کر میں نے مذکورہ کالم لکھا تھا جس کا ایک پیرا گراف میں دوبارہ قارئین کی خدمت میں رکھنا چاہتا ہوں اس لئے کہ جو خدشات میرے پیش نظر اس وقت تھے وہ سامنے آبھی گئے۔ میں نے اس پیرا گراف میں لکھا تھا کہ ” پاکستان اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ جن جن کو وہ اپنا حامی و دوست سمجھ رہا ہے وہ سب اس کے چھپے دشمن ہیں، جس کی سب سی بڑی دلیل پاکستان کو دورہ ملائیشیا سے باز رکھنا ہے۔ اگر پاکستان جلد اپنی خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لایا تو بین الاقوامی سطح پر بچھائے ہوئے جال میں پاکستان اس بری طرح پھنس جائے گا کہ جال کے تانے بانوں کو کاٹ کر اس سے باہر آنا ناممکن ہو جائے گا لہٰذا ضروی ہے کہ اپنوں اور پرایوں، دوستوں اور دشمنوں کو پہچانا جائے تاکہ ملک کو نہ صرف بحرانوں سے نکالا جا سکے بلکہ اس کو دنیا میں ایک باوقار ملک بنایا جا سکے”۔

ایک جانب خارجہ تعلقات کا یہ عالم ہے تو دوسری جانب ادارے اداروں کے مد مقابل صف بندیاں کر رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ پاکستان نوشتہ دیوار کو غور سے پڑھ لے اور اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی کو از سر نو مرتب کرے ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے جو پاکستان کیلئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں