طلبا،اساتذہ تعلقات میں خلیج کیوں؟ 

ڈاکٹر سپرنگر کہتا ہے کہ ’’تعلیمی نظام اور اس کو چلانے والے مختلف عناصر یعنی اساتذہ اور طلبا کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ  تعلیمی عمل سے گزر کر نہ صرف اپنی ذات وصفات سے روشناس ہوتے ہیں بلکہ معاشرہ شناس بن کر حقیقت شناسی کے مرحلے سے بھی سرفراز ہوتے ہیں‘‘بنیادی طور پر اگر تعلیمی عمل میں دیکھا جائے تو استاد اور طالبعلم کا باہمی رشتہ ایسا ہوتا ہے جس کے بغیر تعلیمی عمل مکمل نہیں ہو پاتا۔کیوں کہ طلبا اور تعلیمی عمل سب معاشرہ سے اٹھتے ہیں اس لیے طلبا اور اساتذہ کے خوشگوار تعلقات دراصل مثالی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس لیے بھی کہ طلبا اور اساتذہ کسی بھی معاشرہ کے وہ طبقات ہوتے ہیں جن کے درمیان اگر تعلقات مثالی انداز میں استوار نہ ہوں تو دنیا کا کوئی بھی معاشرہ کبھی بھی ترقی و استحکام سے ہمکنار نہیں ہو سکتا۔

تعلیم وتدریس اور تربیت کے تناظر میں ان دونوں طبقات کا تعلق محض درس وتدریس کے حوالے سے کمرہ امتحان یا کمرہ جماعت تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ ایک مثالی استاد وہ ہوتا ہے جو اپنے طلبا کو کلی طور پر خودشناسی کے عمل سے گزار کر انہیں معاشرہ کا اچھا رکن بناتا ہے تاکہ وہ خودشناس اور حقیقت پسند شہری بن سکے،حیات وکائنات کے تمام مسائل سے اور معاملات سے آگاہ ہو سکے۔جب تک ایک فرد معاشرے میں رہتے ہوئے معاشی و معاشرتی مسائل کی حقیقت کو صدق دل سے قبول نہیں کرے گا تب تک وہ کبھی بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مسائل کے حل کی صحیح طور پر کوشش نہیں کرے گا،اسی لیے صوفیا کرام کہتے ہیں کہ خودشناسی دراصل خدا شناسی ہوتی ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ استاد اور طلبا کا تعلق کاروباری نوعیت کا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے کلی طور پر سماجی اور روحانی بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے،ایک استاد طالب علم کی روحانی،اخلاقی،سماجی اور نفسیاتی تربیت اس لیے بھی کرتا ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ مستقبل بعید میں انہیں میں سے کچھ کو ملکی راہنما بن کر اپنی قائدانہ صلاحیتو ں کے بل بوتے پر ملک کی باگ ڈوربھی سنبھالنا ہوتی ہے۔ اس لیے طلبا کو زندگی میں پیش آمدہ مسائل اوران سے خلاصی کے طریقہ کار کو بھی سکھانے کی ذمہ داری استاد پر ہی ہوتی ہے۔یہ سب تب ممکن ہوتا ہے جب ایک اچھا استاد اپنے طالب علم میں پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار کر اس کے سیرت وکردار کی تعمیر اس طرح سے کرے کہ وہ عملی زندگی میں اپنے جملہ محاسن اور سچائیوں کے مطابق اپنی زندگی کو تابع کر لیں اگر ایک طالب علم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے ایک استاد کی تربیت کا حق ادا کر دیا۔

ایک بات ذہن نشین ضرور ہونی چاہئے کہ یہ سب تب ممکن ہوگا یا ہوتا ہے جب طلبہ اپنے اور استاد کے درمیان مقدس رشتے کی تعظیم وتکریم کے سامنے سرتسلیم خم کر لیتے ہیں،اپنے اعمال وافعال میں اپنے اساتذہ کی تقلید کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔اپنے اساتذہ کو اپنا رہبروراہنما کے ساتھ ساتھ اپنے لیے تقلیدی نمونہ خیال کرتے ہوں،اسی لیے کہتے ہیں کہ استاد کی بچے تب ہی تقلید کرتے ہیں جب استاد بھی اپنے کرداروافعال اور اعمال میں مثالی نمونہ ہوں۔ایک مثالی استاد بننے کے لیے استاد کو اپنا طرزبیان،افکاروگفتارمیں شیرینی کے ساتھ ساتھ لباس میں نفاست اور طرز عمل کی درستگی کا بھی عملی مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ طلبا ان کی تقلید میں حیات وکائنات کے مسائل کو سمجھتے ہوئے کائنات کی حقیقتوں کو مکمل طور پر سمجھ سکیں۔

مختصر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تدریسی عمل میں اگر استاد اور طلبا کے درمیان تعلقات خوشگوار اور مثالی نہیں ہوں گے،صحت مند معاشرہ کبھی بھی ظہور پذیر نہیں ہو پائے گا۔اس لیے بھی کہ عمومی تعلیمی عمل کی کلید اور محور طلبا اور اساتذہ ہی ہوتے ہیں۔لہذا جب تک ان دونوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت خوشگوار نہیں ہوگی تب تک خوشگوار تعلیمی عمل کا فقدان ہی رہے گا،اداروں کو ہمیشہ ایسی سرگرمیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے جس سے طلبا اور اساتذہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت بہتر اور خوشگوار ہو سکے۔کیوں کہ قومی زندگی کی تشکیل ،تعمیر اور ترقی اور خوش حالی کا انحصار ان دونوں مرکزی کرداروں پر ہوتا ہے۔

حالیہ تعلیمی مسائل ومعاملات کا اگر اندازہ لگائیں تو نتائج یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔طلبا اور اساتذہ میں تعلقات کی نوعیت تعلیمی اداروں میں وہ نظر نہیں آرہی جو ہمارے معاشرہ، مذہب اور تعلیمی عمل کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔استاد طلبا سے اپنی عزت بچانے کے درپے ہے۔ استاد اور طالب علم کے درمیان جو احترام کی ایک لکیر تھی طلبا اس کو عبور کر کے بے تکلفی، یارانہ ماحول اور خوشگواری کی بجائے خوش گپیوں میں بدل چکے ہیں۔ مار نہیں پیار نے ادب واحترام کے تعلقات کو کہیں پاتال میں پھینک دیا ہے۔ استاد کا کردار محض سمارٹ بورڈ پر طلبا کو گائیڈ لائن فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ تربیت، ادب واحترام، ہم آہنگی اور تعلقات کا نام ونشان کہیں دور دور تک نہیں ملتا۔ اساتذہ اور طلبا کے درمیان اس وسیع خلیج کے پیدا ہونے کی کیا وجوہات ہیں ان پر غوروفکر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

اگر حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ تعلقات کی نوعیت کو بحال کیا جائے تو انہیں چنداقدام ہنگامی بنیادوں پر اٹھانے کی اشد ضرورت ہوگی وگرنہ تعلیم،تعلیمی عمل، تعلقات اور تربیت کہیں کتابوں میں ہی دفن ہو کر رہ جائیں گے۔ ان کی عملی صورت کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائے گی۔میرے خیال کے مطابق تعلقات کی خوشگوار نوعیت کا انتشار میں بدلنے کی وجوہات درج ذیل ہو سکتی ہے۔

طلبا اور استاد کے درمیان تعلقات کی نوعیت اب روحانی نہیں کاروباری ہو کر رہ گئی ہے،اساتذہ نے بھی اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس پیشہ کو دوکانداری میں تبدیل کر لیا ہوا ہے کیوں کہ معاشرتی مقابلے میں اسے بھی اپنی اولاد کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنا ہیں جو فی زمانہ اسے درکار ہیں،اس لیے بہتر معاش کے بغیر یہ ممکن نہیں تو کیوں نہ ایک استاد بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو ضائع کرنے کی بجائے اسے معاشی بہتری کے لیے استعمال میں لائے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب طلبا اور استاد کے درمیان  روحانی رشتے کی بجائے کاروباری رشتہ ہو جائے گا تو ان دو کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی کاروباری ہوگی عزت وتکریم والی نہیں ہوگی۔لہذا اب تعلیمی اداروں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ طلبا اور استاد کے درمیان توقیر وتکریم کا رشتہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے اس دور میں طالب علم خود کو استاد سے زیادہ ذہین وفطین خیال کرنے لگے ہیں ،کہ وہ ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال جانتے ہیں لہذا جدیدیت کی اس دوڑ میں ادب واحترام قدیم ہو چکا ہے۔ایسی صورت حال میں استاد کے مثالی کردار کا بھی تعلیمی عمل میں فقدان پایا جا رہا ہے۔سب سے زیادہ جس عمل نے ہمارے تعلیمی عمل کو متاثر کیا ہے وہ مغربی تقلید میں بچوں کا اپنے ہیروازم کا خاتمہ ہے، پہلے زمانے میں بچوں کا ہیرو مسلمان تاریخ کے ایسے کردار ہوتے تھے جنہوں نے اپنے عزم صمیم اور قائدانہ صلاحیتوں سے تاریخ کا دھارا اور زمانہ کا رخ تبدیل کر دیا ہو، جیسے کہ خالد بن ولید،محمد بن قاسم،موسی بن نصیر اور طارق بن زیاد،اب بچوں کے ہماری تاریخ کے یہ کردار out dated دکھائی دیتے ہیں۔اب ان کے ہیرو ہالی ووڈ،بالی ووڈ کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر گیمز کے وہ کردار ہیں جن کا حقیقت سے کہیں دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔

حکومت کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی آگے بڑھتے ہوئے اپنا کردار مثبت طریقے سے ادا کرنا ہوگا تاکہ استاد اور طالب علم کے درمیان تعلقات کی بڑھتی ہوئی اس خلیج کو ابھی سے روکا جائے،تاکہ استاد اپنی پوری ایمان داری،خلوص اور استعداد کے ساتھ ایسے مثالی طالب علم پیدا کرنے میں معاون ہوں جو بہتر اور خوش حال پاکستان کا ضامن ہوں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں