پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ۱۶دسمبر ۱۹۷۱ جسے گزرے برسوں بیت گئے مگر آج بھی یہ زخم مندمل نہ ہو پایا اور نہ ہی کبھی ہو گا ۔
ایک ماں کے دو بیٹے ایک دوسرے سے جدا ہوئے ، پر یہ جدائی سازش کے تحت ہوئی ۔ ان دونوں کے دل پہلے دورکئےگئے ، بدگمانیاں اور بے اعتبا ریاں پروان چڑھائی گئیں ، مشترکہ اسلامی تہذیب سے الگ کیاگیا ، نفرتوں کے بیج بوئے گئے ، معاشی فائدے کا لالچ دئے گئےاور بھی نجانے کون کون سے ہربے آزمائے گئے اور بالآ خر نظریۂ پاکستان کی دھجیاں اڑادی گئیں ۔
سقوط ڈھاکہ صرف ۱۹۷۰ کے عام انتخاب کے نتائج کے عملی نفاذ کے نتیجے میں پیش آنے والا واقعہ ہی نہیں تھا- اس کی بنیادیں تو قیامِ پاکستان کے فورا” بعد ہی بنگالی زبان کو سرکاری زبان قرار دیئے جانے کے ناجائز مطالبے سے رکھ دی گئیں تھیں ۔ اس کے بعد لسانی مسئلے کو بنیاد بنا کر بنگالی مسلمانوں کو خوب مشتعل کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ سب سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔
بھارت نے قیام پاکستان کو کبھی بھی دل سے قبول نہ کیا ، اور ہمیشہ متحدہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازشیں کرتا رہا ۔ مشرقی پاکستان میں بھارت نواز ہندو لابی تقسیم ہند کے بعد بھی اپنے گھنائونے کھیل میں مصروف رہی ۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست سہی پر ملکی قیادت اور ملکی ادارے اگر تھوڑی سی دور اندیشی سے کام لیتے اور بھارتی مزموم عزائم کا بروقت منہ توڑ جواب دیتے تو شائد انہیں ہمارے ملکی معاملات میں اس قدر دخل اندازی کی جرات کبھی نہ ہوتی ۔
اس کے علاوہ کچھ سنگین کوتاہیاں ملکی وسائل کی تقسیم میں بھی کی گئیں ، جس کی وجہ سے پہلے ہی سیلاب اور قحط سے پسماندہ بنگالی مسلمان مزید احساس محرومی کا شکار ہو گئے ۔ فوج میں آبادی کے تناسب کے مطابق بنگالی نوجوانوں کو بھرتی نہ کرنے سے عدم اعتماد کی فضاء قائم ہوئی – اس کے علاوہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز افراد کی بد عنوانی نے بھی حالات کو بد ترین انجام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ اگر ریاستی ادارےجو کہ اختیارات اور احترام کے لحاظ سے ایک” ماں” کا درجہ رکھتے ہیں ، بروقت حکمت سےکام لے کر دونوں بھائیوں کی آپس میں رنجشیں دور کرتے اور دشمن کے ارادوں سے چوکنا کرتے تو شائد ہمیں یہ افسوس ناک دن ہی نہ دیکھنا پڑتا ۔
جن بنگالی مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لیئے مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا ، ، بے شمار قربانیاںدیں وہ یونہی اچانک بغیر کسی وجہ کے تو نظریۂ پاکستان سے دستبردار نہ ہوئے ہونگے ۔
کیا اپنی ثقافت اور بقا کے متعلق جو خدشات تھے انہیں دور کر کے اپنائیت اور تحفظ کا احساس دینا ہمارا قومی فریضہ نہ تھا ۔ مغربی پاکستان بڑے بھائی کا کردار ادا کر کے چھوٹے بھائی کو راہ راست پر لانے کی کوشش تو کرتا اور یہ جاننے کی کوشش تو کرتا کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے قیام پاکستان کے عظیم محرکات کو فراموش کر کے بنگال کے”مسلم پاکستانی” دو قومی نظریے سے کنارہ کش ہوئے ۔
اس کے علاوہ ایک بڑی سنگین کو تاہی اسلامی شریعت کا فوری نفاذ نہ ہونا تھا ۔ جس ریاست کا وجود ہی اسلام کے نام پر قائم کیا گیا ہو ، وہاں اسلامی نظام تو یقینا” قائم کرکے دکھانا چاہیئے تھا ۔ تاکہ ہم نظریۂ پاکستان کو سچ ثابت کر کے دکھائیں ۔مگر اسلام سے دوری معاشی مفاداور منافقانہ روش کی وجہ سے آج بھی پاکستان اپنے اس بنیادی نظریۂ کو شرمندۂ تعبیر نہ کر پایا-افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد جو بے بنیاد الزامات مغربی پاکستان کی فوج پر لگائے گئے تھےجس میں تیس لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا اور۳لاکھ خواتین کی آبروریزی جیسے سنگین الزامات شامل ہیں ، ان کی تردیدکرنا تودور کی بات وضاحت کی زحمت تک گوارا نہ کی گئ ۔
جس کی وجہ سے بھارت نفرت کے اس گھنائونے پروپیگنڈے میں کامیاب رہابھارتی اور بنگلہ میڈیا ہمیشہ سے تقسیم متحدہ پاکستان کے متعلق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر تا چلا آ رہا ہے۔ آج بھی ہماری نوجوان نسل کی معلومات سقوط ڈھاکہ کے متعلق نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اسی وجہ سے فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے متعلق ہماری عوام شکوک و شبہات میں مبتلا رہتی ہے۔ پاکستانی قوم کو پورا حق حاصل ہے کہ انہیں اتنے بڑے قومی سانحے کے متعلق اصل حقائق بتائے جائیں ۔
تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں احساس جرم کے بجائے اپنی تاریخ پر مکمل یقین اور اعتماد سے فخر کر سکیں ۔
I’m writing on this topic these days, totosite, but I have stopped writing because there is no reference material. Then I accidentally found your article. I can refer to a variety of materials, so I think the work I was preparing will work! Thank you for your efforts.