اللہ اللہ کرکے 16 دسمبر کا دن گزر گیا، اور اسکے ساتھ ہماری قومی تذلیل کی وہ جھوٹی اور مبالغہ آمیز کہانی بھی منظر سے غائب ہوگئی جو پاک بھارت تاریخ کے نام سے پاکستان میں بڑے پیمانے پرڈمپ کی جاتی ہے،
اپنی ہی تذلیل، اور اپنے لوگوں کے ذریعے ۔۔۔۔ ہمیں نام نہاد تاریخی سچائی کے نام پراپنے ہی چہرے پر کالک ملنے کا کتنا شوق ہے !!
لیکن یہ تاریخ کا علم آخر ہے کیا، ؟ یہ ہمیشہ سے جھوٹ کی کتھا ہے، اپنا اپنا موقف، اپنی اپنی عینک، اپنا اپنا جہنم، ایک قوم کا ہیرو، دوسری قوم کے لئے ولن، ایک قوم کا نجات دہندہ، دوسری قوم کےلئے لٹیرا ، جھوٹ اور مسلسل جھوٹ، تاکہ سب اس پر یقین کرنے لگیں،
ایڈولف ہٹلر نے کہا تھا،
If you tell a big enough lie, and tell it frequently, it will be believed
تاریخ کا علم ہی ایسا ہے، بہت سال پہلے اس علم کے بانیوں نے تسلیم کرلیا تھا کہ یہ تضادات کا علم ہے، یہ بھی کہا گیا کہ قوموں کو ہیرو تراشنے ہی پڑتے ہیں، خواہ وہ خود ساختہ ہی کیوں نہ ہوں، تاکہ ان ہیروز کونئی نسل کے سامنے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاسکے، نپولین بونا پاٹ نے بھی تاریخ کے علم کو جھوٹ کا نام دیتے ہوئے کہا تھا
History is a set of lies, agreed upon
انسانی تاریخ میں متعدد مرتبہ کوشش کی گئی ہے کہ تاریخ کے علم کو جھوٹ کے گرداب سے نکالا جائے، لیکن بالاخر تسلیم کرلیا گیا کہ یہ جھوٹ کے ستون پر آراستہ علم ہے، اس میں مبالغہ، افتراء، اورواقعات کے غلط تشریخ لازم و ملزوم ہیں،پاک بھارت جنگوں کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے، اور جس قوم میں زیادہ تاریخ نویس ہیں، وہ قوم اتنی بڑی جھوٹی ہے، دوسری جنگ عظیم کےبعد ، جنگ کے کاربردازوں نے فخر یہ کہا، ” ہم نے دوسری جنگ عظیم ، جھوٹ کے اسلحہ سے جیتی ہے ”
متحارب قومیں اپنے اپنے جھوٹ کے کارخانے میں جھوٹ کی پروڈکٹ تیار کرتی ہیں، اور بازار میں فروخت کردیتی ہیں، بنگلہ دیش بننے کے بعد کہا گیا، پاکستانی افواج مشرقی پاکستان میں جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے، 30 لاکھ افراد کو قتل کیا گیا ہے، یہ سب کچھ مبالغہ آمیز ہے، جھوٹ ، کراہیت انگیز جھوٹ،
اگر ہم انکی بات مانیں گے، تو محمود غزنوی اور محمد بن قاسم کو ڈاکو تسلیم کرلیجئے، برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ، جسے وہ قابضین کی حکومت کہا کرتے ہیں.
یہ انکی اپنی عینک ہے،جو معروضی حالات میں انھیں سوٹ کرجائے، اپنا جہنم ہے، جس میں وہ سچائی کو جلا کر خاکستر کیا کرتے ہیں.
پاک بھارت تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں ایک ایسی قوم رہتی ہے، دنیا کی اکثر منہ زور قوتوں کی طرح شرافت اور انسانیت، اور مہذب قوموں کی لینگویج جسے کبھی سمجھ نہیں آتی ، اور کبھی جو وہ حالات و مقامات کے جبر کے طفیل بالا دست ہو جائے، تو پھر طوفان دیکھا کیجئے، ایک ہزار سال تک انھوں نے غلامی کا جبر سہا ہے، نروان کی تلاش میں سرگرداں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم، 1971 کی جنگ انکی بے چین آتما کے لئے سکون آور ٹرانسکولائزر ہے۔
سچ ہے، قومیں اپنی فتح کو جسٹی فائی کرنے کے لئے غلط بیانی کا سہارا لیا کرتی ہیں ، اوربیان کردہ تاریخ عام طور پر وہی تسلیم کی جاتی ہے جو فاتحین کی زبان سے ادا ہو،
History, the lie of the victors,
the self-delusions of the defeated ( Julian Barnes )……….
The assignment submission period was over and I was nervous, safetoto and I am very happy to see your post just in time and it was a great help. Thank you ! Leave your blog address below. Please visit me anytime.