بین الاقوامی ترقی کی رفتار کا اگرجائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان ممالک نے فی زمانہ بہت تیزی سے ترقی کی منازل کو طے کیا جنہوں نے بدلتے زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے سائنسی ترقی کے دھارے میں شامل کر لیا،اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا،جس کی ایک مثال آئے روز موبائل فون کے بدلتے ہوئے ماڈلز ہیں،کمپیوٹر سائنس میں جس سرعت سے ترقی ہوئی شائد ہی کسی اور میدان میں ہوئی ہو،اسی ایک ترقی نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج بننے پر مجبور کردیا ،دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پوری دنیا کو ڈیجیٹلائز کر کے آپ کے ہاتھ میں رکھ دیا۔دنیا جیسے جیسے ڈیجیٹلائز ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے آپ کے ہاتھ میں سمٹ کر آتی جا رہی ہے۔گویا اس دنیا کا ریموٹ آپ کے ہاتھ میں آگیا ہو۔
گذشتہ روز وزیر اعظم پاکستان نے اپنی ٹیم کے ساتھ ڈیجیٹل پاکستان وژن منصوبہ کا اعلان کیا،جس کی سب سے اہم بات رضا باقر کے خطاب کے علاوہ تانیہ ایدروس کا خطاب تھا جو کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری ہے،سنگاپور میں دنیا کی معروف کمپنی گوگل کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تھی،لیکن بقول ان کے جہانگیر ترین نے انہیں پاکستان میں آکر پاکستان کی خدمت کے لئے موٹیویشن دی تو میری حب الوطنی نے انگڑائی لی اور میں مستعفیٰ ہو کر پاکستان میں آگئی۔انہوں نے اپنے خطاب میں حیران کن اعدادوشمار بتاتے ہوئے تمام پاکستان کو حیران کردیا کہ 70 ملین پاکستانی براڈ بینڈ نیٹ استعمال کرتے ہیں،سو ملین پچیس سال سے کم عمر کے لوگ ہیں ،دنیا دن بہ دن ڈیجیٹلائز ہوتی جارہی ہے جس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں،لہذا اگر ہمیں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر ہمیں پاکستان کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا ورنہ دنیا ہم سے کہیں آگے نکل جائے گی۔انہوں نے ڈیجیٹل ترقی کو ان پانچ نکات میں بیان کیا )Access and connectivity,Digital infrastructure,digital skilling and training,e govt,innovation. یعنی اگر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتا ہے تو ٹیکنالوجی کے اس دور میں کم از کم ان پانچ نکات پر ضرور عبور حاصل کر لے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو ڈیجیٹلائز کرنے کے بے شمار فوائد ہونگے،سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہوگا کہ ہم میں یہ احساس محرومی ختم ہو جائے گا کہ ہم کسی سے کم مایہ و کم تر قوم ہیں۔دوسرا یہ کہ ہم اس عمل کے ذریعے پوری دنیا سے روابط میں آجائیں گے،جس کی ایک مثال پاکستان میں موجود ادارہ نادرا ہے کہ جس کی رجسٹریشن اور ڈیجیٹل کے عمل سے ہم پوری دنیا سے لنک ہو گئے ہیں،نادرا کا جاری کردہ ایک ڈیجیٹل نمبر ہمیں پوری دنیا سے جوڑ دیتا ہے،اس عمل سے ٹرانسپیرنسی ہر اس ادارے میں آجائے گی جہاں رشوت،بدعنوانی اور کرپشن کا ڈھیرا تھا،اور سب سے بڑھ کر جو ڈاکٹر تانیہ نے اعداد وشمار دیئے جو میری طرح بہت سے پاکستانیوں کو حیرت میں ڈال دیں گے کہ تین ٹریلین روپیہ صرف پیپر پر ضائع ہو جاتا ہے ،جس کا اگر ہم نصف بھی بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تواس کا مطلب ہے ہم بہتری کی طرف گامزن ہو گئے ہیں،بچوں کو اگر ہم پاکستان میں ہی کالج اور یونیورسٹی لیول تک ڈیجیٹل ہنر میں کامیاب بنا دیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم اپنی نسل کو وہ اعتماد مہیا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کی مدد سے وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں گے۔نہ صرف اعتماد میں اضافہ کا باعث ہوگا بلکہ بیرون ملک کسی بھی یونیورسل یونیورسٹی میں امتحان اور داخلہ میں بھی ہمارے طلبہ کے لئے آسانی پیدا ہو جائے گی۔اس کے علاوہ پاکستان کو ڈیجیٹلائز کرنے کے جو بڑے فوائد حاصل ہوں گے ان میں سرفہرست اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا،رشوت میں کمی، ناجائز منافع خوری کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے وقت کی نبض کو پہچانا،قدر کی اور وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لیا انہیں قوموں نے دنیا میں اپنا نام،مقام اور وقار بنایا ہے۔لہذا ہم پاکستانی بھی اگر چاہتے ہیں تو خاص کر نوجوان نسل کو اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے تاکہ دورِ جدید کے مسائل کا مقابلہ کیا جا سکے،لیکن یہ سب اتنا بھی آسان نہیں ہوگا کیونکہ تھیوری اور عملی کام میں بڑا فرق ہوتا ہے۔اصل مسئلہ عملی اقدام کرنا ہوگااور اس سلسلہ میں حکومت کو ہوم ورک کئے بغیر عملی اقدام نہیں اٹھانے چاہئے ،اقدامات سے قبل یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی شرح خواندگی کیا ہے اور اس میں نوجوانوں،بزرگوں،خواتین کی شرح کیا ہے،وہ افراد جو ڈیجیٹل ایپ کے استعمال سے واقفیت یا اس کا عملی اطلاق چاہتے ہوں گے ان میں پڑھے لکھے افراد کتنے ہیں،اس مسئلہ کے حل کے لئے حکومت وقت کو قبل از وقت قلیل مدتی ورک شاپس اور تربیتی کورسز کروانے چاہئے تاکہ ڈیجیٹل پاکستان کو حقیقی معنوں میںعملی اطلاق سے بہتر اور خوش حال پاکستان کی تاسیس قرار دیا جا سکے،کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ خوش حال پاکستان،بہتر پاکستان،اسلامی پاکستان،سب سے پہلے پاکستان اور سرسبز پاکستان کی طرح کہیں ڈیجیٹل پاکستان بھی دودھ کا ابال ثابت نہ ہو۔