حکومت کریں یا ہنکائے جانے پر خوش رہیں

موجودہ حکومت کی طرح ہر حکومت کے پاس قانونی مدت صرف 60 مہینے کی ہوتی ہے۔ ان 60 مہینوں میں سے 15 مہینے سے زیادہ تو گزر چکے ہیں۔ 15 مہینوں کا مطلب ہے کہ قانونی مدت کا 25 فیصد حصہ تو تمام ہو چکا ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت کا 25 فیصد عرصہ گزار چکنے کے باوجود ابھی تک “تبدیلی” کے بجائے بڑے پیمانے پر انتظامی اور حکومتی عہدیداروں کے “تبادلے” میں مصروف ہے اور اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح “گورننس” کو درست سمت پر ڈال سکے۔ حقیقت یہ ہے وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کی کارکردگی سے سخت مایوس اور پریشان ہیں اور اگر سچی بات کہی جائے تو خود ان کی سمجھ میں بھی یہ بات آکر نہیں دے رہی کہ خرابی کہاں ہے اور اس خرابی کو دور کرنے کا آغاز کہاں سے کیا جانا چاہیے۔

مجھے ماضی کے ایک عظیم ڈکٹیٹر اور فوجی حکمران جناب ضیا الحق کی تقریر کا ایک جملہ شدت سے یاد آ رہا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں “جس زخم کو معمولی سمجھ کر چھیڑتا ہوں وہ ناسور ثابت ہوتا ہے”۔ یہی کچھ موجودہ حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ وہ جس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالتی ہے وہ بھڑ کے چھتے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور بجائے یہ کہ اچھائی کی کوئی صورت پیدا ہو، ہر معاملہ حکومت کیلئے عذاب بن جاتا ہے۔

اندازہ لگائیں کہ جو حکومت “تبدیلی” کا نعرہ لگا کر آئی تھی وہ 15 ماہ یعنی وہ اپنی قانونی مدت کا 25 فیصد سے بھی زیادہ عرصہ گزار دینے کے باوجود بھی مسلسل “تبادلوں” کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہو تو وہ اپنی حکومت کی نائوں کو کسی ساحل تک پہنچانے میں کیسے کامیاب ہو جائے گی۔

کل وزیر اعظم پاکستان پنجاب کے قلب میں موجود تھے اور انھوں نے پنجاب کی گورننس ٹھیک کرنے کیلئے پورے پنجاب میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی۔ حکومتی اور انتظامی محکموں میں بڑے پیمانوں پر تبدیلیاں کیں اور شمال والے جنوب میں اور مغرب والے مشرق میں اٹھاکر پھینک دیئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پنجاب میں سارے اچھے اور بہترین کام کرنے والے، نیک شریف، محنتی اور ایماندار افسران اور اعلیٰ عہدیداران کو لے کر آئے ہیں جو پنجاب کو فرش سے اٹھا کر عرش تک لیجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی ان تبدیلیوں سے کئی سوالات اٹھتے ہیں جس میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو افراد چند دن پہلے مختلف محکموں میں تعینات کئے گئے تھے وہ بھی تو نیک اور شریف کہہ کر ہی تو بھیجے گئے تھے بلکہ ان پندرہ مہینوں میں ایسا 3 بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ جب وہ سارے نیک اور شریف سرٹیفکیٹ والے اہل ثابت نہ ہو سکے تو اب جو تعیناتی عمل میں آئی ہے اور پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر عمل میں آرہی ہے، کیا وہ سب واقعی اہل ہی ثابت ہونگے؟۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس جگہ سے یہ نیک، شریف، محنتی اور دیانتدار یا باالفاظِ دیگر “فرشتے” آپ نے پنجاب کے اہم عہدوں پر متعین کئے ہیں ان کی جگہ جو ناکارہ و نااہل افراد کو بھیجا گیا ہے تو وہاں کے نظام کا کیا انجام ہو گا۔ کیا پہلے والے نیک، شریف، دیانتدار اور فرشتہ صفت افراد کے کئے کرائے پر پانی نہیں پھر جائے گا؟۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو افراد ناکارہ و نااہل ہیں ان کا صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ہی کیوں؟، کیا ان تبادلہ در تبادلوں کی وجہ سے ان کی نااہلی اہلیت میں بدل جائے گی؟۔ان کے تبادلوں میں جو لاکھوں روپے ان کو ٹی اے ڈی اے کی صورت میں ملتے ہیں کیا وہ حکومتی اخراجات پر ایک بڑا بوجھ نہیں؟۔

وزیر اعظم صاحب! جس قسم کی مشکلات آپ کو اپنی بیوروکریسی سے ہے کیا ایسی مشکلات آپ سے پہلے والوں کو نہیں رہی ہونگی۔ کیا یہ ساری بھرتیاں جھوٹی سچی جمہوری ادوار میں ہی عمل میں آئی ہونگی، کیا پاکستان میں نہایت سخت مارشل لاء کےادوار نہیں گزرے، کیا جمہوریت بحال ہونے سے قبل یہ سارے محکمے آسمانی مخلوق چلاتی رہی ہے۔ کیا ان مارشل لاءکے دور میں ان محکموں میں جنات کام کرتے رہے ہیں۔ آج بھی جو افراد ان محکموں میں بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہیں وہ آپ سمیت کسی بھی دور کے سول حکومت کی مرضی سے بھرتی نہیں ہوئے ہونگے۔ جس طرح پچھلی حکومتیں ان ہی طاقتور ادوار میں رکھے گئے عہدیداروں سے کام نکالتی رہی ہیں آج آپ بھی ان کی جگہ کوئی آسمان سے فرشتے منگوا کر اپنی کارکردگی بہتر نہیں کر رہے ہیں البتہ اپنے “مطلب” کے لوگوں کا انتخاب کرے اس بات کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح گورننس درست ہو جائے۔ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پہلے والوں اور آپ کی حکمت عملی میں کوئی خاص فرق نہیں علاوہ اس کے کہ آپ سے پہلے والے ان ہی ناکارہ افراد سے کسی نہ کسی طرح کام نکالتے رہے لیکن آپ 15 ماہ گزرجانے کے باوجود بھی ان سے کوئی کام نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے آپ کیلئے مشکلات میں اضافہ در اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

جنرل ضیا الحق درست فرماتے تھے کہ “میں جس چھتے میں ہاتھ ڈالتا ہوں وہ شہد کی مکھی کی بجائے بھڑ کا چھتا ثابت ہوتا ہے” اسی طرح آپ جس خرابی کو دور کرنے کیلے کوئی قدم بڑھاتے ہیں آپ کو پھسل کر دس قدم پیچھے جانا پڑجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک بدعنوانی اور لاقانونیت کے بڑے بڑے غار اور سوراخ بند نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک ملک کو خوشحالی کی جانب نہیں لیجایا جاسکتا لیکن آپ جس ریاست کا نقشہ بدل دینا چاہتے ہیں اس میں حکومت کے ایوانوں تک پہنچنے کے بے شک کئی راستے ہیں لیکن سوال حکومت کا نہیں “اقتدار” کا ہے جو پاکستان میں آپ کی طرح کسی سول حکومت کو حاصل نہ ہو سکا۔

آپ کو ایک بات پر اور بھی غور کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ آپ کی پارٹی حقیقی عوامی پارٹی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نہ تو پی پی کی طرح کی عوامی پارٹی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن، جے یو آئی، جماعت اسلامی، اے این پی، حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی طرح کی کوئی پارٹی ہے۔ بے شک یہ بات آپ کو یا آپ کی تائید کندگان کو گراں گزرے گی لیکن اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو آپ کی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق میں کوئی خاص فرق نہیں۔ اس وقت آپ کے ساتھ شاید ہی وہ افراد ہوں جو 22 سال سے آپ کے ساتھ مسلسل چل رہے ہوں۔ حد یہ ہے کہ آپ کی وزرا اور مشیران کی فوجِ ظفر موج میں بھی واضح اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی کی ہر حکومت میں کسی نہ کسی طرح بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ ہر چڑھتے سورج کے پجاریوں سے کچھ اچھی توقعات باندھ لینا دانشمندی نہیں کہلا سکتی اس لئے جہاں آپ بیورو کریسی کی خامیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں وہیں آپ کو اپنے اندر “اِدھر اُدھر” سے آکر مل جانے والوں پر بھی نظر رکھنے کی بے حد ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ق نے اپنے دور کے 5 سال کامیابی سے پورے کئے، پھر زرداری نے بھی جیسا تیسا کرکے اپنا وقت گزارا اور مسلم لیگ ن بھی 5 سال پورے کر گئی لیکن یہ بات پوری دنیا کے علم میں ہے کہ مدت پوری کرنا یا جمہوریت کا مسلسل آگے بڑھنا کوئی اور بات ہوتی ہے اور ریوڑ کا ہنکایا جانا کوئی اور بات۔ مسلسل 3 جمہوی ادوار جس طرح ہنکائے جاتے رہے ہیں بالکل اسی طرح آپ کا دور بھی اس سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔ اگر خوش قسمتی سے سپریم کورٹ نے پارلیمان ہی کو اصل “مقتدرہ” بنادیا ہے اور اس کی سپرمیسی کو ہر ادارے پر فوقیت دلا دی ہے تو آپ کی حکومت کیلئے یہ ایک بہت سنہری موقع ہے کہ پارلیمان کی بر تری برقرار رکھیں۔ اب یہ آپ کی کی ذمہ داری ہے کہ آپ واقعی “حکومت” کرنا چاہتے ہیں یا پھر “ہنکائے” جانے پر ہی خوش رہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں