اتوار کا دن ہے۔ سنہری دھوپ کبھی گرماہٹ اور کبھی سردی سا احساس دے رہی ہے۔ میں صاف شفاف نیلے آسمان کو دیکھ رہا ہوں جہاں دور بہت اونچائی پر دو سفید کبوتر اڑتے پھر رہے ہیں۔ اچانک ان کے پاس سے دو سیاہ چیلیں گزریں تو وہ کبوتر اپنی اڑان چھوڑ کر ادھر ادھر فضا میں بکھر گئے۔ پھر دائیں بائیں دیکھتا ہوں تو ایک جانب گھنا نیم کا درخت خزاں کے ہاتھوں بے رحمی سے لٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جس پر اب سبز پتے بہت ہی کم، جبکہ زرد پتے اور خشک ٹہنیاں زیادہ نظر آ رہی ہیں۔ خزاں، نیم پر ہو یا زندگی پر، سچ ہے کہ وہ زرد اور ویران کر دیا کرتی ہے۔
میں بے چین ہو کر دوسری جانب نظر پھیرتا ہوں تو سرخی مائل اینٹوں کی اونچی دیوار اور اس پر آرام کرتا ہوا ایک خوبصورت پرندہ نظر آ رہا ہے۔ شاید یہ کوئی مٹیالے رنگ کی چڑیا ہے جو ننھے پروں کو کچھ پل آرام دینے کے لیے یہاں سستا رہی ہے۔ چڑیا نجانے کیا سوچتی ہو گی، کیا محسوس کرتی ہو گی جب پہلی دفعہ اس نے اپنی نسل در نسل آنے والی چند داستانوں میں سے یہ ایک داستان اپنے کسی بزرگ سے سنی ہو گی، کہ صدیوں پہلے ایک چرواہا ذکر خدا کرتے کرتے ایک جگہ رکا تو اس نے مٹی کا ایک پرندہ بنا کر “قم باذن اللہ” کہا اور وہ مٹی کی مورت محو پرواز ہو گئی۔ شاید اسی لیے چڑیا کسی چرواہے کی مانند نہایت صابر اور بے فکری کی حامل ہوتی ہے۔ بس چلتے چلے جانا، اور جہاں رات ہوئی وہیں پڑاؤ کر کے صبح سویرے پھر نکل پڑنا، چڑیا نے اسی چرواہے، مسیحا اور روح اللہ سے ہی تو سیکھا ہو گا۔
خیر بات دور نکل گئی، سوچ کے پہیے کو روک کر میں نے ایک بار پھر اوپر آسمان کی جانب دیکھا تو نیلے کینوس پر سفید کبوتروں کی ایک ٹکڑی، اور ان سے بھی زیادہ اونچائی پر دائرے میں گھومتی چیلوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا۔ میں زیادہ نظرجما نہیں پایا کیونکہ سورج بھی ان سب سے اوپر پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ چمکتے سورج کو ہر ایک پسند کرتا ہے مگر نجانے کیوں غروب آفتاب کے پیغام کو بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ اچانک ایک کوا میرے قریب آ کر کائیں کائیں کرنے لگا ۔ پہلے خیال آیا کہ یہ کسی مہمان کے آنے کی خبر کر رہا ہو گا جیسا کہ ہمارے بڑے بوڑھے کہتے ہیں، مگر پھر غور سے اسے دیکھا تو محسوس ہوا جیسے وہ کہہ رہا ہو، “آدم کے بیٹے تم کس سوچ میں پڑ گئے؟ اتنا غور و فکر کہاں سے سیکھ لیا جبکہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ تمہارے بڑوں میں سے ایک کو اپنی غلطی چھپانے کا فن بھی نہ آتا تھا۔” میں نے اسے جھڑکا تو وہ “’ظلوماًجھولاً‘” یعنی ’ ظالم اور نادان‘ کا طعنہ دیتے ہوئے اڑ گیا۔ سوچ رہا ہوں کیا واقعی ہم ظالم اور نادان ہیں جس کا اس کوے نے طعنہ دیا؟ حالا نکہ کوے کی کیا اوقات کہ ہم انسانوں کو طعنہ دے، مگر میں سوچ رہا ہوں کہ انسان ظالم اور نادان ہے تو پھر کیسے اتنا آزاد اور دندناتا پھر رہا ہے؟
مثلاً کل کی ہی بات ہے کہ ایک انسان اپنے خالق کی حکمت بھری کتاب کو سرعام جلا رہا تھا اور خلقت تماشا دیکھ رہی تھی، کوے نے وہی دیکھا ہو گا شاید۔ لیکن کوے کو وہ شخص نظر کیوں نہیں آیا جو تماشائیوں سے نکلا، اور تمام رکاوٹوں کو پھلانگتا ہوا اپنے جیسے ہی اس انسان پر جو انسانیت اور عبدیت پر سیاہ دھبہ تھا، حملہ آور ہوا، صرف اس لیے کہ کتاب حکمت کو بچا لے، ’’ظلوماًجھولاً‘‘ نہ بنے۔ کوے کو یہ لازمی دکھائی دیا ہو گا مگر وہ شاید اسی لیے طعنہ دے رہا تھا کہ لاکھوں میں ایک ہی غیرت مند نکلا وہ بھی ایک عام انسان۔ وہ ناتو کوئی حاکم تھا، نہ قاضی نہ ہی وزیر، مگر اس کے برعکس اس امانت کی حفاظت کا نعرہ لگانے والی امت سے کوئی سامنے ہی نہ آ سکا۔ پھر یاد آیا کہ کچھ روز پہلے شہر میں ایک دس سال کی بچی کو مدرسے جاتے ہوئے اغوا کیا گیا، زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش سڑک کنارے پھینک دی گئی۔ قتل کرنے والا یقینااسی کی اولاد تھا جس نے روئے زمین پر پہلا قتل کیا تھا اور پھر تمام عمر خوفزدہ ہو کر بھاگتا ہی رہا، یہ قتل کرنے والا بھی عمر بھر بے چین اور خوفزدہ رہ کر برے طریقے سے اپنے انجام کو پہنچے گا۔ اور کیا کیا سوچوں؟ ابھی ایک ویڈیو دیکھی جس میں کالج کے ایک استاد کو چند طالب علم بری طرح پیٹ رہے ہیں، نجانے وہ علم دینے کے جرم میں اسے مار رہے تھے یا پھر بچوں کو ترقی یافتہ اور ’’احسن تقویم‘‘ بننے کی نصیحت کرنے پر۔ کوا ٹھیک ہی کہتا ہو گا، شاید ہم انسان ظلوماًجھولاً‘‘ یعنی ظالم اور نادان ہی ہیں۔ دھوپ تیز ہو چکی ہے، مزید اس کی تپش میں نہیں بیٹھا جا رہا، باقی باتیں پھر سہی۔ بس آپ اپنی کوشش اور عمل سے ایسے بن جائیں کہ کوئی کوا کبھی بھی آپ کو ’’ظلوماً جھولا‘‘ کا طعنہ نہ دے پائے۔