ایک بزرگ سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح لیے باغ میں گئے۔ سامنے دو پرندے صبح کے وقت سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔ بزرگ نے جیب سے غلیل نکالی اور اس جوڑے پر وار کردیا جس میں نر پرندہ مارا گیا۔ مادی اپنا مقدمہ لے کر وقت کے قاضی کے پاس گئی۔ قاضی نے بزرگ کو بلوایا اور جواب طلب کیا۔ بزرگ کہنے لگے اللہ نے اس پرندے کو حلال کیا ہے اس لئے میں نے انہیں شکار کیا ۔ قاضی نے پرندے کی طرف دیکھا تو پرندے نے کہا کہ میرا اعتراض یہ نہیں ہے کہ اس نے ہمیں شکار کیوں کیا ۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ یہ ٹوپی تسبیح لے کر ہمیں شکار کرنے کیوں آیا ۔ شکاری بن کر آتا پھر ہمیں شکار کرتا ۔ اس نے اپنے حلیے سے ہمیں دھوکا کیوں دیا۔
آزادی مارچ پر میری گزارش بھی صرف اتنی ہے کہ اگر استعفے کے بجائے اصل مقصد میاں نوازشریف صاحب کی رہائی تھی تو قوم کو سچ بتایا جاتا کہ میاں صاحب ہمارے محسن ہیں۔ انہوں نے 2013 کے دور میں چیئرمین کشمیر کمیٹی، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ سمیت دو وفاقی وزارتیں بھی ہمیں دی تھیں ۔ یہ علیحدہ عنوان ہے کہ دینی مدارس کے گرد میاں صاحب نے گھیرا تنگ کیا ، جعلی مقابلوں کی لاشیں شہر شہر پہنچیں ، فوجی عدالتیں بنیں ، قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی لگائی، نئے مدارس کی رجسٹریشن بھی بند ہوئی، فورتھ شیڈول میں علما کرام جکڑے گئے ۔ نیشنل ایکشن پلان کے نام پر دینی طبقے کی زندگی اجیرن کی گئی لیکن آزادی مارچ والوں کو تو میاں صاحب نے خوب نوازا، اس لئے آزادی مارچ کے ذریعے میاں صاحب کی رہائی کے لئے کی جانے والی کاوشیں کوئی بری بات نہیں تھی ۔
پاکستان کی سیاست کی بدقسمتی ہی یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اصولوں کے بجائے شخصیات کے گرد گھومتی ہے ۔ میاں صاحب کے بعد اب مریم نواز صاحبہ اور زرداری صاحب کو بھی ملک سے باہر جانا ہے ۔ تحریک انصاف اور عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھی باہر چلے گئے تو ہماری سیاست کا کیا فائدہ ، حکومت کی ساری سیاست ہی ان کے احتساب کے نام پر کھڑی ہے لیکن طاقتور لوگ اس وقت اس موڈ میں ہیں کہ زرداری صاحب اور بی بی مریم کو بھی ریلیف دے دیا جائے۔ یہی وجہ بنی کہ مولانا صاحب کے آزادی مارچ ختم ہونے کے بعد جب خان صاحب نے چوں، چاں کی تو ق لیگ ، متحدہ، چیئرمین سینیٹ اور جی ، ڈی ، اے سے بھی میڈیا پر یہ بیان دلوا دیا گیا کہ میاں صاحب کو غیرمشروط پر جانے دو ، خان صاحب کچھ بھی کہیں اگر انہوں نے زرداری صاحب اور مریم بی بی کو باہر نہ بھیجا تو وہ لاڈلے نہیں رہیں گے۔
جنوری، فروری کی جو گردان اب میڈیا پر شروع ہوئی ہے۔ خان صاحب کو جنوری فروری تک ان کو باہر بھیجنا پڑے گا اگر خان صاحب نے انہیں 3 سال کا یہ ریلیف نہ دیا تو خان صاحب کی حکومت ڈگمگا سکتی ہے اور میاں شہباز شریف بھی آزادی مارچ میں اپنی سی، وی طاقتور لوگوں کو پیش کر چکے ہیں کہ مجھے 6 مہینے کے لئے حکومت دے دو میں سب ٹھیک کردوں گا اور سب نے یہ بھی دیکھ ہے لیا کہ میاں صاحب کے متعلق ق لیگ، متحدہ ، سینیٹ چیئرمین سب یک زبان ہوگئے تھے۔ پلان اے مکمل ہوچکا، اس کے بعد پلان بی میں زرداری صاحب اور دیگر کے لئے ریلیف لینا ہے۔
میری ذاتی رائے میں خان صاحب کو یہ ریلیف دے دینا چاہیے کہ یہ لوگ خان صاحب کے ذاتی مجرم نہیں ہیں۔ بقول خان صاحب کہ انہوں نے قوم کا پیسہ کھایا ہے۔ یہ قوم کے مجرم ہیں تو جب قوم کو ہی کوئی فکر نہیں ہے تو خان صاحب کیوں ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔ ان تمام بڑے قیدیوں کو باہر جانے دے دیں۔ اس کے بعد آخری کڑوی گولی شاید خان صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب کی نگلنی پڑے ۔ عثمان بزدار سے بھی طاقتور لوگ مطمئن نہیں ہیں ۔ پنجاب میں شہباز شریف نے حقیقت میں بہت کام کیا ہے، اس لیے وہاں کے لوگ بھی عثمان بزدار سے خوش نہیں ہیں ۔ بیوروکریسی بھی گھبرائی ہوئی ہے سو پنجاب میں تبدیلی بھی بڑے لوگوں کی فرمائش ہے۔
اس سارے منظر میں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کہیں خطرے میں نہیں ہے۔ قادیانیت کا فروغ کہیں نہیں ہورہا ہے اور اسلامی قوانین بنوانے یا ختم کرنے کی بھی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے لہٰذا جس نے بھی سیاست کرنی ہے سیدھی بات کرکے کرنی چاہیے، ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مقدس مسئلے کو خطرے میں نہ بتائیں الحمدللہ ہزاروں جانیں دے کر اہل ایمان نے اس مسئلے پر بند باندھ دیا ہے۔ الحمدللہ اسلامی شعار پر مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہے ۔ عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خطرے میں نہیں ہے ۔ فقط بڑے لوگوں کے ریلیف کا مسئلہ ہے ۔ میری یہ بھی رائے ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت سراپا شر نہیں ہے اور کوئی بھی سیاسی جماعت سراپا خیر نہیں ہے۔ موقع با موقع غلط اور ٹھیک کام ہماری سیاسی جماعتیں کرتی رہتی ہیں، اس اختلاف کو کفر اور اسلام کا اختلاف نہ سمجھیں، دلوں میں کوئی خلش ہے تو اسے بھی مٹا دیں۔