جب میں بہت چھوٹی سی تھی۔ کتابوں سے عشق تھا مجھے۔ تب میری نانی جان نے مجھے ایک کتاب گفٹ دی تھی۔ “اللہ کو اپنا بنالو” اس میں ابراھیم بن ادھم کے قصے تھے۔ اور بھی اللہ سے محبت کے واقعات تھے جو پڑھ کراچھا لگتا تھا لیکن محبت کا شعور پیدا نہیں ہوا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ زندگی کے دن ڈھلنے لگے، بچپنا جاتا رہا اور عقل و شعور میں اضافہ ہونے لگا۔ تب ایک چیز جو شدت سے محسوس کی وہ اپنی ذات کی صفائیاں۔ لیکن لوگ وہاں تک ہی سمجھتے جہاں تک ان کا دل چاہتا۔ رفتہ رفتہ دل و دماغ ایسا ہوگیا کے جو جیسا سمجھنے لگا اسے ویسا بن کر دکھایا۔ پھر بھی ایک تشنگی باقی تھی۔ روح زخمی تھی۔
کہ “اللہ پاک جو کام نہیں کیے اس کے الزامات بھی کیوں لگاتے ہیں لوگ۔”
پھر آہستہ آہستہ یہ بات سمجھ آئی کے لوگوں کے غم میں کیوں پالوں ؟؟ میرا رب جانتا ہے میں کیسی ہوں ۔۔۔ محبت کی شدت اللہ سے جڑی اور خانہ کعبہ کے دیدار تک جاپہنچی۔ اب ہر کسی کی الگ الگ محبت ہے۔ لوگ مدینہ مدینہ کرتے ہیں سچی بات ہے میں جب مدینے گئی تب بھی میرا دل کعبہ پر لگا تھا۔ رات مدینے کے ہوٹل میں سوئی تو خواب میں بھی خود کو پاگلوں کی طرح خانہ کعبہ ڈھونڈتے دیکھا اور خواب میں ہی میں نے دیکھا کے خانہ کعبہ ہمارے گھر کی چھت پر آگیا ہے۔ “
اپنے وطن واپس لوٹ کر کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ تب ایک رات خواب میں فرشتوں کا خانہ کعبہ بھی دیکھ لیا۔ میں جو ایک وقت لوگوں کے لیے روتی رہی۔ اپنی ذات کی صفائیاں دیتی رہی۔ لوگ تو وہ بھی تھے جنہوں نے حرم سے لوٹنے کے بعد بھی میرے ایمان کی جانچ پڑتال کرتے رہے اور کہتے ہیں کے لوگوں کی رائے سے مکمل آزادی تو آج تک کسی انسان کو نہیں ملی۔ پرسوں رات نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ لیٹے لیٹے سوچا کسی دوست سے باتیں کرلیتی ہوں۔ پھر اچانک اللہ کی محبت یاد آگئی ۔ اور سرہانے سورۃ بقرہ چلا کر سونے کی کوشش کی اور نیند آگئی۔ صبح سو کر اٹھی تو منہ میں ایک الگ سا ذائقہ محسوس ہورہا تھا ۔ ناشتہ بناتے وقت یاد آیا ۔ “ارے میں نے تو خواب میں بہت میٹھا پانی پیا تھا۔ اتنا میٹھا پانی میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں پیا۔” بس اس کا ذائقہ زبان پر تھا اور ابھی تک یاد آرہا ہے۔ یہ ہوتی ہے محبت۔ سچی اور پاکیزہ محبت۔
اور اپنی زندگی میں میں نے جو سیکھا وہ بس یہی کے کبھی کسی انسان کو اس کی برائیوں سے برا جانتے ہوئے لعن طعن مت کرو اور زبردستی کسی سے اس کی برائی چھڑوانے کی کوشش بھی مت کرو۔ اس کے لیے دعا کرو ۔ انسان صرف اور صرف محبت میں خود کو بدلتا ہے اور انسانوں کی محبت میں بدلا انسان اتنا نہیں نکھرتا جتنا اللہ کی محبت نکھار دیتی ہے۔ اللہ فرماتے ہیں : ” تم ایک قدم میرے پاس آو میں ستر قدم تمہارے پاس آوں گا” اور رب بھی وہ جو دلوں اور نیتوں کےحال کو جانتا ہے۔ جسے صفائی دینے کی ضرورت ہی نہیں، یہ بتانے کی بھی حاجت نہیں کے رب فلاں کام میں نے نہیں کیا ، مجھ پر الزام لگا ہے۔” تو سب سے اچھی محبت کس کی ہوئی ۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ اللہ کی یا بندوں کی ؟؟؟۔۔۔
اچھی کاوش ھے اللہ برکت ڈالے اس محبت میں – دعا کی التماس ھے